پی چدمبرم
آپ اس تحریر کو پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے آخری مرحلہ (7 ڈسمبر) کے دو یوم بعد اور ووٹوں کی گنتی (11 ڈسمبر) سے دو روز قبل پڑھ رہے ہوں گے۔ لہٰذا، میں کچھ حد تک کم محتاط رہنے کا متحمل ہوسکتا ہوں۔ پانچ ریاستیں جہاں چناؤ ہوئے وہ سارے ملک کی پوری طرح نمائندگی نہیں کرتے ہیں۔ مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان ہندوستان کی غریب تر ریاستوں میں سے ہیں، ثقافتی طور پر مالامال، سماجی طور پر قدامت پسند؍ رجعت پسند، تعلیمی طور پر پسماندہ اور معاشی طور پر کمتر درجات کے حامل ہیں۔ میزورم فروغ انسانی کے معاملے میں اونچے درجہ پر ہے لیکن وسائل میں ناقص اور اس لئے نسبتاً غریب ریاست ہے۔ تلنگانہ ایسی ریاست ہے جو کچھ بھی شکل اختیار کرسکتی ہے جو وہ چاہے لیکن یہ ہنوز شروعاتی مرحلے میں معلوم ہوتی ہے ، نہ کہ سلجھی ہوئی ریاست۔
ان انتخابات کے نتائج پانچوں ریاستوں کے عوام کیلئے نتیجہ خیز ہوں گے لیکن بقیہ ملک کیلئے غیرفیصلہ کن رہیں گے۔ میزورم اور چھتیس گڑھ میں ’معلق‘ اسمبلیاں وجود میں آنے کے سواء یہی ممکن ہے کہ تمام پانچ ریاستوں میں واضح اکثریت کے ساتھ حکومت تشکیل پائے گی۔ اس پر دنیا کو اشارہ ملے گا کہ ہندوستان میں اداروں اور آزادی کو ختم کرنے کی کوششوں کے باوجود جمہوریت پھل پھول رہی ہے، یہ اور بات ہے کہ کہیں کہیں داغ لگے ہیں۔ بعض عناصر پانچوں ریاستوں کیلئے مشترک رہے: مسٹر نریندر مودی بے تکان انتخابی مہم چلاتے رہے؛ مسٹر راہول گاندھی باہمت چیلنجر دکھائی دیئے؛ بڑھتی بیروزگاری؛ کسانوں کا دکھ، قرض اور ذہنی کشمکش؛ پیسہ کا بے دریغ استعمال؛ رائے دہندوں کو منتشر کرنے کی غیرمخفی کوششیں؛ اور ای وی ایمس کے تعلق سے اندیشے۔
بعض نمایاں فرق بھی دیکھنے میں آئے۔ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں بی جے پی چیف منسٹرس متواتر تین میعادوں کے غیرشکستہ ویٹرنس ہیں جو تاریخی چوتھی میعاد کا عزم رکھتے ہیں۔ راجستھان میں بی جے پی چیف منسٹر نے متبادل طور پر جیت اور ناکامی درج کرائی ہے، اور اِس مرتبہ کی چیف منسٹر کو ہارنا ہے! میزورم میں کانگریس چیف منسٹر کا خدمت اور قربانی (لالدینگا کے حق میں) کا ریکارڈ رہا، لیکن اِس بار انھیں خود اُن کے سابق رفقاء نے چیلنج پیش کیا ہے۔ تلنگانہ میں جو انڈیا یونین کی سب سے نئی ریاست ہے، 2014ء میں بہ آسانی جیت جانے والا اپنی حکومت اور اپنے وقار کو بچانے کیلئے جدوجہد کررہا ہے۔ یہ انتخابات کے نتائج ملک کیلئے اور دو بڑی پارٹیوں بی جے پی اور کانگریس کیلئے اہم رہیں گے۔ نتائج کے بعد کی صورتحال زیادہ اہم ہوگی کہ کتنے دستوری اقدار کافی سختی سے لڑے گئے انتخابات میں بچ پائے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں ہمیں خود اپنے آپ سے پوچھنا چاہئے کہ اگر ہر الیکشن کے بعد دستور کا کچھ حصہ معدوم ہوجائے تو انتخابات کا مقصد ہی کیا ہے؟
اقدار جو داؤ پر ہیں
لہٰذا، مجھے وہ دستوری اقدار شمار کرنے دیجئے جن کو جوکھم درپیش ہے۔ اس معاملے میں سرفہرست آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کی قدر ہے جس کی ذمہ داری الیکشن کمیشن (ای سی) کے تفویض ہے۔ ای سی نے عوام کو کئی طرح سے ناکام کیا، جس میں سب سے بڑی ناکامی غیرمحسوب رقم کے استعمال کو روکنے سے اس کا قاصر ہونا ہے۔ امیدوار کے انتخابی مصارف کی حدیں سراب ہیں۔ عوام یہ سمجھنے کی طرف مائل ہیں کہ انتخابات صرف وہی امیدوار لڑسکتے ہیں جو امیر یا بدعنوان یا دونوں ہوں۔ اگر امیدواروں کے پاس رقم نہ ہو تو پارٹی کے پاس نقدی کا انبار ضرور ہونا چاہئے تاکہ اپنے امیدواروں کو فنڈ دے سکے، جس طرح جیہ للیتا نے کیا اور اب عام خیال ہے کہ بی جے پی ایسا ہی کررہی ہے۔ ای سی نے پولنگ اور کاؤنٹنگ کے ای وی ایم۔ وی وی پی اے ٹی سسٹم کی سکیورٹی کو بہتر بنانے کیلئے اپنی عدم آمادگی کے ذریعے بھی عوام کو ناکام کیا ہے۔ وہ اِتنا تو ضرور کرسکتے ہیں کہ کم از کم 25 فی صد پولنگ یونٹوں میں ای وی ایم سے حاصل شدہ گنتی کو وی وی پی اے ٹی کی گنتی سے جوڑ کر دیکھ لیں۔ اس کے نتیجے میں ہوسکتا ہے نتیجے کا اعلان کرنے میں تقریباً 2-3 گھنٹے کی تاخیر ہوجائے، لیکن عوام کا اعتماد جیتنے کیلئے یہ تو معمولی قیمت ہے۔
قدروں میں دوسرے نمبر پر آزاد میڈیا ہے۔ بعض ٹی وی چیانلز نہ صرف پے چیانلز ہیں بلکہ وہ پیڈ چیانلز بھی ہیں۔ بقیہ اگرچہ پیڈ چیانلز نہیں مگر خوف کی وجہ سے جزوی طور پر جانبدار نظر آتے ہیں۔ زیادہ تر اخبارات کو آزاد برقرار رہنے کیلئے جدوجہد کا سامنا ہے، اور جب پرائم منسٹر کے تعلق سے رپورٹنگ ہوتی ہے تو اُن کا معیار صرف گھٹتا ہی دکھائی دیتا ہے۔ کانگریس اور مسٹر راہول گاندھی بدستور پسندیدہ ’پنچنگ بیاگس‘ (مکوں کی مشق والا بورا) ہیں، لیکن مکے اب زیادہ نرم پڑ رہے ہیں کیونکہ کانگریس کا گراف زیادہ واضح انداز میں بڑھ رہا ہے۔ لوک سبھا انتخابات سے قبل میڈیا کو کوئی تو راہ ضرور تلاش کرنی ہوگی کہ بے خوف اور آزاد چوتھے ستون کی حیثیت سے اپنی پوزیشن کو واپس حاصل کیا جاسکے۔
تیسرے نمبر پر آزادانہ رائے دہی والی قدر ہے۔ ہر گزرتے الیکشن کے ساتھ ذات پات کا نظام سب سے زیادہ اہم کسوٹی بنتا جارہا ہے … امیدواروں کے انتخاب سے لے کر حکومتوں کی تشکیل تک۔ ذات پات کی اہمیت میں ہر اضافے کا مطلب ہے کہ دیگر عوامل جیسے پارٹی کا نقطہ نظر، قیادت، پرفارمنس، امیدوار کی خوبی، منشور کے وعدے، وغیرہ کی اہمیت تیزی سے ماند ہوتی جاتی ہے۔
چوتھے نمبر پر کسی حلقہ کے نتیجے کی قدر ہے۔ اگر جیتنے والا اس فیصلے سے دغابازی کرے اور کوئی ٹرپیز آرٹسٹ کی مانند عمل کرے یعنی ایک پارٹی سے دیگر میں چھلانگ لگائے، تو پھر امیدوار پر مبنی اور حلقہ کیلئے مخصوص الیکشن کا کیا مقصد رہ جاتا ہے؟ ہمیں سنجیدگی سے متبادلات پر غور کرنا پڑے گا۔
مذکورہ بالا نکات سے قطع نظر اسمبلی چناؤ کے نتائج کا 11 ڈسمبر کو اعلان کیا جائے گا۔ سیاسی گلیاریوں میں ایسی سرگوشیاں سنائی دے رہی ہیں:
m کانگریس اور بی جے پی میں احباب کا کہنا ہے کہ راجستھان میں کانگریس جیتے گی!
m کانگریس میں احباب کہتے ہیں کہ مدھیہ پردیش میں کانگریس کی جیت ہوگی، بی جے پی سے تعلق رکھنے والے دوست خاموش ہیں!
m چھتیس گڑھ میں کانگریس ہوسکتا ہے حصولِ اکثریت سے ذرا پیچھے رہ جائے۔ معلق اسمبلی میں، کوئی نہیں جانتا کہ بی ایس پی۔ جوگی کیا کریں گے!
m چیف منسٹر تلنگانہ کے قریبی شخص نے رازدارانہ انداز میں اس ریاست کو کانگریس کے حق میں بتایا ہے!
m میزورم میں نتیجہ کی پیش قیاسی کرنے کے موقف میں کوئی بھی نہیں، بس اتنا کہہ سکتے ہیں کہ بی جے پی شرارتی کھیل کی منتظر ہے!