ہجومی تشدد کا طویل پس منظر اور افرازالاسلام کا قتل۔ رام پنیانی

راجستھان ۔ ضلع راجسمند میں ایک نوجوان افرازالاسلام کا بہیمانہ قتل یہ سمجھانے کے لئے کافی ہے کہ جب نفرت کو ایک سازش کے تحت پھیلاجاتا ہے تو کیاہوتا ہے۔ ڈسمبر6کو شمبھولال نے ‘ جو کسی دور میں ماربل کی تجارت کیاکرتاتھا ‘ افرازالاسلام خان نامی ایک مزدور کو جس کاتعلق مغربی بنگال سے تھا‘ بیدردی سے قتل کردیا۔ اس نے افرازالاسلام کو کام دینے کے بہانے اپنے قریب بلایا اور اس پر ہلہ بول دیا ۔ اس واردات کا خوفناک پہلو یہ بھی تھا کہ شمبھولال نے اپنے 14سالہ بھتیجے کو یہ ہدایت دی کہ وہ وپوری واردات کی ویڈیوگرافی کرے۔ اس نے ایسا ہی کیا۔اس کے بعد بھی شمبھولال نے اس ویڈیو کو سوشیل پر پوسٹ کردیا تاکہ جتنے بھی لوگ اسے دیکھ سکتے ہوں‘ دیکھیں۔ راجسمند کی اس واردات کو نفرت کی بنیاد پر ہون والے قتل کے واقعات میں بدترین درجہ کا واقعہ قراردیناچاہئے۔ ذرا سوچئے کتنی ہیبت ناک تصویر ہے ۔

یہ کہ کلہاڑی سے وار کرنا ‘ پھر مرتے ہوئے شخص کے جسم( یانعش) کو آگ لگادینا اور اس پورے عمل کی ویڈیوگرافی کروانا ۔ ہر چند کے شمبھولال گرفتار کیاجاچکا ہے لیکن کے جرم کو حاصل ہونے والی حمایت اور تائید ہے کہ بڑھتی جارہی ہے۔ ایک وکیل نے شمبھو کے اہل خانہ کو پچاس ہزر روپئے دینے کی پیشکش کی ۔ یہی نہیں پورے ملک سے کم وبیش تین لاکھ رروپئے جمع کئے گئے ہیں تاکہ اس کی فیملی کو دئے جاسکیں۔ سناتن سنگھ نامی ایک شدت پسند تنظیم سے تعلق رکھنے والے شخص اپیش رانا کی گرفتاری اس کے لئے عمل میں ائی کہ اس نے اودے پور میں شمبھو کی حمایت میں ایک ریالی کا اعلان کیاتھا ۔ شمبھو کے دفاع میں امڈ نے والی بھیڑ کے افراد کومنشتر کرنے کے لئے پولیس کو حرکت میں آنا پڑا۔

اور بھی کئی لوگ ہیں جو شمبھولال کو ہیر وسمجھنے کی غلطی کررہے ہیں۔ افرازالاسلام کے قتل سے آڑیسہ کا واقعہ یاد آگیا جس میں بجرنگ دل کے رضا کار دارا سنگھ ( اصل نام راجندر سنگھ پال) نے گارہم اسٹینس نامی عیسائی مبلغ کو زندہ جلادیاتھا۔ وہ واقعہ بھی نفرت کی بنیاد پر ہونے والے قتل سے متعلق تھا اور یہ بھی نفرت کی بنیا دپر ہوا ہے۔ ہونا یہ چاہئے تھاکہ اس دور میں داراسنگھ کو ننگ انسانیت سمجھاجاتا اور اس دور میں شمبھولال کو لیکن دیکھا یہ جارہا ہے کہ آخر الذکر کے دفاع میں عوام کی بھیڑ جمع ہورہی ہے ۔ اس سے ایک ہی حقیقت واضح ہوتی ہے اور وہ یہ نفرت کا جو پرچار گذشتہ کئی برسوں سے تسلسل کے ساتھ اور جارحانہ انداز میں کیاجارہا ہے ‘ سماج اس سے کافی حد تک متاثر ہوچکا ہے۔

شمبھولال پیشے سے ماربل کا تاجر تھا جس کے بینک کھاتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اچھی خاصی کامیابی اس تجارت میں حاصل کی مگر نوٹ بندی کے سبب اس کی تجارت بری طرح متاثر ہوئی ۔ اس کی وجہہ سے وہ بے کار رہنے لگا۔ بیکاری کے اس دور انیہ میں اس کازیادہ تر وقت وائس ایپ پر گزرتا ۔ پھر وہ سوشیل میڈیا پر کافی متحرک اور فعال ہوگیا۔ ویڈیو میں نے اس جوکچھ کہاکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کے دل میں مسلمانوں کے لئے شدید نفرت پیدا ہوگئی تھی کیونکہ اس کے خیال میں مسلمانوں ‘ ہندو لڑکیوں سے شادی کرکے ہند و سماج کو سخت خطرات سے دوچار کررہے ہیں۔ اس نے ویڈیو میں’’بابری مسجد ‘ پدماوتی او رلوجہاد کا نعرہ لگایا اور ’’ان لوگوں ‘‘ سے انتقام لینے کا مطالبہ کیا۔دائیں بازو کے کچھ نظریہ ساز شمبھولال کی کارستانی کا جواز پیش کرتے ہوئے کرناٹک کی مثال دے رہے ہیں جس میں ایک ہندو لڑکے کا قتل ہوا تھا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ تشدد کے واقعات سے بعض غیر مسلم افراد بھی متاثر ہوتے ہیں لیکن نفرت کی بنیاد پر پھیلنے والے تشد کے اکثر متاثرین اقلیتی افراد اور دلت ہیں۔ زیادہ تر متاثرین مسلمان ہیں ۔فرقہ وارانہ تشدد تو کئی دہائیوں سے ایک سنگین مسئلہ کے طور پر ہمارے سماج میں تھا ہی ‘ اب گذشتہ ساڑھے تین سال سے ہجومی تشدد یا نفرت کی بنیاد پر افرازالاسلام جیسا قتل نئی طرز کی واردارتیں ہیں جو بڑھتی جارہی ہیں۔ اس کی جڑیں انگریزوں کے دور اقتدار میں پیوست ہیں جس میں تبدیلی مذہب اور مندروں کے انہدام کا پروپگنڈہ کیاجاتا رہا تا کہ ملک کی دوقومیں ایک دوسرے سے مصروف پیکار رہیں۔

اس کے لئے غلط فہمی پھیلائی جاتی رہی۔ تشدد کے حالیہ واقعات کی بنیادانہی غلط فہیموں پر ہے جو پہلے سے موجود تو تھیں ہی نہیں عالمی دہشت گردی کا ہوا کھڑا کرکے بھی اسے تقویت پہنچائی گئی ہے۔سال1980کی دہائی سے یہ پروپگنڈہ جاری ہے کہ سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کے منہ بھرائی کرتی ہیں‘ مسلمان اپنے پرسنل لاء پر اصرار کرتے ہیں ‘ ان میں ناخواندگی پائی جاتی ہے ‘ ان کا رہن سہن ٹھیک نہیں ہے اور ان کا کنبہ بہت بڑا ہوتا ہے وغیرہ۔ ان تمام کی توثیق وتصدیق کے لئے بغیریہ پروپگنڈہ جاری رہا

۔ عیسائیوں کو ہدف بنانے کے لئے تبدیلی مذہب ہی کو بنیاد بنایاجاتا ہے لیکن مسلمانوں کو ہدف بنانے کے لئے پرانے مفروضیات کے ساتھ ساتھ اب گاؤ کشی ‘ لوجہاد اور گھر واپسی وغیر ہ کا شوشہ چھوڑ اگیاہے۔گذشتہ چند برسوں میں اخلاق احمد‘ پہلو خان‘ جنید اور ایسے ہی دیگر افراد کے قاتلوں کو نہ صرف یہ کہ شہ ملی ہے بلکہ انہو ں نے خود کو طاقتور بھی سمجھ لیاہے۔

ان کے ذہن ودل میںیہ خیال گھر کرگیاہے کہ یہ ’’ اُن کی ‘‘ حکومت ہے اور وہ چاہے جیسے واردات انجام دیں ‘ ان کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ایسے جرائم کے مرتکبین کے دفاع میں کرٹانک جیسے کسی واقعہ کا حوالہ دینا یا جواز پیش کرنا بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی کی جانب سے ذہن ہٹانے کی کوشش ہے۔جہاں یہ ضروری ہے کہ قانون کی بالادستی قائم رکھی جانی چاہئے‘ وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ نفرت کاپرچار روکا جائے ۔ شمبھولا ل جیسے لوگ کیا محسوس کرتے ہیں ہوں گے جب انہیں معلوم ہوتا ہوگا کہ ان کے جرم پر وزیراعظم خاموش ہیں بلکہ ٹوئٹر وغیرہ پر نفرت پھیلانے والوں کے ’’ فالور‘‘ بھی ہیں؟۔