ہاشم علی اختر ( گیارہویں برسی پر بطور خراج عقیدت )

میرا کالم مجتبیٰ حسین
14 جون 2003 ء کو حیدرآباد کے نمائش کلب میں حمایت اللہ کے مجموعہ کلام ’’دھن مڑی ‘‘ کے اجراء کی تقریب جاری تھی۔ اسٹیج پر بیٹھے بیٹھے میں نے حمایت اللہ کے بے شمار پرستاروں کے جم غفیر کو دیکھا تو ایک عرصہ بعد دل خوشی سے کھِل اُٹھا ۔ میں نے سوچا کہ حیدرآباد کا ادبی ماحول اب بھی توانا اور فعال ہے اور وہ اب بھی اپنے فنکاروں کو ٹوٹ کر چاہنے کا حوصلہ رکھتا ہے ۔ اجراء کی تقریب کے پہلے حصہ کے اختتام پر میں خوشی خوشی ڈائس سے نیچے اُترا تو حسن الدین احمد صاحب نے آگے بڑھ کر مجھے یہ روح فرساخبر سنائی کہ ابھی کچھ دیر پہلے شکاگو میں ہاشم علی اختر کا انتقال ہوگیا ۔ اس خبر نے مجھ پر سکتہ ساطاری کردیا اور وقت کی ستم ظریفی اور اپنی قسمت پر افسوس بھی ہوا کہ اب زندگی میں خوش ہونے کے مواقع دن بہ دن محدود ہوتے جارہے ہیں۔ خوشی کے چند لمحات میسر بھی آتے ہیں تو ان پر اچانک غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے ۔ ابھی کچھ دیر پہلے میں ایک بھرپور اور توانا حیدرآباد کو دیکھ کر خوش ہو رہا تھا لیکن دوسرے ہی لمحہ مجھے یہ اطلاع ملی کہ حیدرآباد سے ہزاروں میل دور شکاگو میں حیدرآباد کے ایک ایسے مایہ ناز سپوت نے دم توڑ دیا جونہ صرف حیدرآبادی تہذیب اور روایات کا امین تھا بلکہ جس نے حیدرآبادی تہذیب کی تشکیل و تعمیر میں بھی بھرپور حصہ لیا تھا ۔

اُن کے بارے میں ایک ضخیم کتاب کی اشاعت کا کام پچھلے چند مہینوں سے ادارہ ادبیات اُردو میں چل رہا ہے اور قدیر زماں اس کام کے نگران ہیں۔ یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ میںحمایت اللہ کے جلسہ میں جانے لگا تو قدیر زماں بھی میرے ساتھ تھے ۔ برسبیل تذکرہ میں نے اس کتاب کے بارے میں اُن سے پوچھا تو کہنے لگے ’’ ابھی پچھلے مہینہ ہاشم علی صاحب نے کتاب کے آخری پروفس دیکھ کر روانہ کردئے ہیں ۔ وہ کام کے معاملے میں بڑے Perfectionist ہیں ۔ جب تک خود مطمئن نہ ہوجائیں کام کو آگے بڑھانے کی اجازت نہیں دیتے ۔اسی لئے کتاب کے بعض پروفس کو کئی بار اُن کی خدمت میں روانہ کرنا پڑا ۔ مگر اب ہر چیز مکمل ہوگئی ہے ‘‘ ۔ میں نے ڈرتے ڈرتے کہا ’’ چاہے کچھ بھی ہو اب اس کتاب کی چھپائی فوراً ہوجانی چاہئے تاکہ یہ ہاشم علی صاحب کی زندگی میں ہی شائع ہوجائے‘‘ ۔
افسوس کہ جس وقت میں یہ باتیں حیدرآباد میں کہہ رہاتھا عین اُسی وقت شکاگو میں ہاشم علی اختر اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہے تھے ۔ یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ 14 جون کو ہی صبح میں ’’سیاست ‘‘ کے دفتر پر اقبال متین سے ملاقات ہوئی تو میں نے اُن سے اُن کی اُس کتاب کے بارے میں پوچھا تھا جو انہوں نے ہاشم علی اختر کے بارے میں لکھی ہے ۔

مجھے اس وقت جون 2000ء کی وہ شام یاد آرہی ہے جب شکاگو کے نپئیر ویل علاقہ میں اُن کے داماد کے گھر پر اُن سے میری ملاقات ہوئی تھی جسے اب آخری ملاقات کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔ میں اپریل میں امریکہ پہونچا تھا تو انہیںکسی گھریلو تقریب میں شرکت کی خاطر اچانک حیدرآباد جانا پڑ گیا تھا ، یوں ان کا یہ دورہ حیدرآباد بھی اُن کا آخری دورہ ثابت ہوا ۔ حیدرآباد سے اُن کی واپسی پر ہی مجھے اُن سے امریکہ میں ملنے کا موقع ملا ۔ انہیں چلنے میں سخت تکلیف رہتی تھی ۔ چھڑی کی مدد سے چلتے تھے لیکن ذہنی طور پر نہایت چاق و چوبند تھے ۔ اُنکا حافظہ غضب کا تھا۔ اُن کے معمولات بھی مقرر تھے ۔ انہوں نے بڑی محبت سے مجھے اپنا وہ کمرہ بھی دکھایا تھا جس میں بیٹھ کر وہ لکھنے پڑھنے کا کام کرتے تھے ۔ بڑی دیر تک میں نے ان کے بارے میں ڈھیر ساری باتیں کیں ۔ وہ امریکی طرز زندگی کے مداح اور معترف تھے ۔ وہاں کی صفائی ، وہاں کا ڈسپلن ، وہاں کی آسائشیں اور طبی سہولتیں اور وہاںکی حیرت انگیز ترقی سب کا تفصیل سے ذکر کرتے اور ہر بار اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے رہے کہ ہمارے اپنے ملک کو ترقی کی اس سطح پر آنے میں نہ جانے کتنا عرصہ لگ جائے گا۔ انہیں ہر لمحہ حیدرآباد کی یاد تڑپا دیتی تھی ۔ کافی دیر کے بعد جب میں نے جانے کی اجازت چاہی تو انہوں نے بے ساختہ میرا ہاتھ تھام لیااور کہا ’’ تمہیں اتنی جلدی جانے کی اجازت دینے کو جی نہیں چاہ رہا ہے ۔ کچھ دیر اور بیٹھو ‘‘ ۔ وہ بدستور میرا ہاتھ تھامے رہے ۔اس وقت اُن کے اندر جو کیفیت پیدا ہوگئی تھی اُس کا میں اندازہ کرسکتا تھا۔ بولے ’’بچے یہاں میرا بڑاخیال رکھتے ہیں ۔کسی بات کی کوئی تکلیف نہیں ہے پھر بھی اگر میری اہلیہ دنیا سے رخصت نہ ہوئی ہوتیں تو میں حیدرآباد کو چھوڑ کر یہاں نہ آتا ‘‘ ۔
ہاشم علی اختر نے مجھے ہمیشہ اپنی بے پناہ محبتوں سے نوازا ۔ عثمانیہ یونیورسٹی میں وہ میرے بزرگوں عابد علی خان اور محبوب حسین جگرؔ کے ساتھیوں میں سے تھے ۔ اس لئے میں اُن کا بے حد احترام کرتا تھا۔وہ عثمانیہ یونیورسٹی کے دور عروج کی پیداوار تھے ۔ سچ کے برملا اظہار میں وہ کبھی مصلحت سے کام نہیں لیتے تھے ۔ اُن کی رائے دو ٹوک اور بے لاگ ہوا کرتی تھی ۔ اس لئے بعض اصحاب اُن سے اختلاف بھی کرتے تھے اور اُن سے خائف بھی رہا کرتے تھے ۔ حکومت کے نہایت اہم عہدوں پر وہ فائز رہے لیکن کبھی اپنے عہدے کا ناجائز استعمال نہیں کیا بلکہ اپنے عہدے کے ذریعہ سینکڑوں ضرورت مندوں کو فیض پہونچایا۔ میں نے اپنے کئی دوستوں کے کاموں کے سلسلے میں حسب عادت اُن سے سفارش کی اور انہوں نے حتی الامکان ان سب کی مدد کی ، تاہم ایک سفارش کا مجھے زندگی بھر قلق رہے گا ۔ جب وہ علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے تو علی گڑھ کے کئی احباب میرے اطراف منڈلانے لگے ۔ تاہم شہریارؔ نے مجھے خبردار کردیا تھا کہ علی گڑھ حیدرآباد نہیں ہے لہذا اپنی سفارشوں کو لگام دے رکھو تو اچھا ہے ۔ میں نے حتی الامکان احتیاط بھی کی تاہم علی گڑھ کے ایک استاد کو میں شخصی طور پر جانتا تھا، جنہوں نے برسوں سے علی گڑھ یونیورسٹی سے چھٹی لے رکھی تھی اور وہ چاہتے تھے کہ خدمت پر رجوع ہوئے بغیر انہیں ترقی مل جائے ۔ میں نے نیک نیتی میں اُن کی سفارش کردی اور ہاشم علی اختر نے یہ کام کردیا ۔ بعد میں پتہ چلاکہ اس طرح کے کئی اور استاد لمبی چھٹی پر ہیں اور ترقی کے طلب گار ہیں۔ اس نظیر کو سامنے رکھ کر ہاشم علی اختر کو ایسے اساتذہ کو بھی ترقی سے نوازنا پڑا ۔

ایک دن شہریار نے مجھ سے کہا کہ تم نے ہاشم علی صاحب سے ایک غلط کام کروایا ۔ بہر حال جو ہونا تھا وہ ہوچکا ۔بعد میں یونیورسٹی کی سیاست میں ایک ایسا دور بھی آیا جب یہ صاحب ( جن کی سفارش میں نے کی تھی ) ہاشم علی صاحب کے شدید مخالف بن گئے ۔ مجھے جب یہ اطلاعیں ملنے لگیں تو میں نے ان صاحب سے دوری اختیار کرلی۔یہ اور بات ہے کہ میرے دل میں ایک بھاری خلش پیدا ہوگئی۔ لیکن ہاشم علی اختر کی بڑائی یہ تھی کہ کبھی اپنے طرز عمل میں فرق نہ آنے دیا اور نہ ہی کبھی ان صاحب کی شکایت کی ۔ وہ مجھے بدستور علی گڑھ آنے کی دعوت دیتے اور اسی گرم جوشی سے ملتے ۔ دہلی آتے تو مجھے پہلے سے اطلاع دے دیتے تھے کہ میں فلاں تاریخ کو آرہا ہوں ۔ بسا اوقات وہ علی گڑھ سے سیدھے میرے گھر آجاتے تھے اور مجھے ساتھ لے کر انڈیا انٹرنیشنل سنٹر پہونچ جاتے تھے جہاں وہ قیام کرتے تھے۔ جب وہ علی گڑھ کی وائس چانسلری سے سبکدوش ہوئے اور حیدرآباد واپس جانے کیلئے دہلی آئے تو میں نے کھل کر اپنی ندامت کا اظہار کردیا کہ میری ایک سفارش کی وجہ سے آپ کو علی گڑھ یونیورسٹی میں ایک غلط کام بھی کرنا پڑا تھا زوردار قہقہہ لگاکر بولے ۔ مجتبیٰ ! مانا کہ تم نے سفارش کی تھی لیکن فیصلہ تو میںنے کیا تھا اور اس کی ذمہ داری بھی مجھ پر ہی عائد ہوتی ہے تم پر نہیں ۔ یوں بھی تم نے اپنے ظرف کے حساب سے اُن صاحب کی سفارش کی تھی اور انہوں نے اپنے ظرف کے حساب سے اس کا صلہ دیا تھا۔ تمہیں اس معاملے میں نادم یا شرمسار ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ میں ان کے اس جواب کو سن کر شرم کے مارے مزید پانی پانی ہوگیا ۔ اب ایسے اعلی ظرف انسان کہاں دیکھنے کو ملتے ہیں۔

ان کے ادبی اور علمی کارناموں کے تعلق سے میںکچھ نہیں کہوں گا ۔ میں کیا اورمیری بساط کیا ۔ یوں بھی ایک زمانہ ان کے کارناموں کا معترف ہے ۔ تاہم اُن کی ایک انگریزی کتاب ”Essence of Quran” کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کرنا چاہوں گا ۔ ہاشم علی اختر نے اس کتاب میں اسلام کے جامع اور مبسوط اخلاقی و معاشرتی نظام کے علاوہ انسان دوستی ، رواداری ، وسیع النظری اور وسیع المشربی پر مبنی اسلام کے بنیادی مسلک کو اُجاگر کرنے کی غرض سے اُن آیات قرآنی اور احادیث کو بڑی عرق ریزی کے ساتھ مرتب کیا ہے جن کی روشنی میں کوئی بھی فرد بلا لحاظ مذہب و ملت اور رنگ و نسل اپنے لئے اعلی و صالح کردار کی تشکیل کرسکتا ہے۔ شکاگو کی ملاقات میں ہی انہوں نے ازرراہ عنایت مجھے یہ کتاب تحفتاً دی تھی۔ شکاگو سے دہلی تک کے سفر میں یہ کتاب میرے زیر مطالعہ رہی ۔واپسی کے بعد میں نے یہ کتاب اپنے چند دوستوں کو پڑھنے کیلئے دی۔ آپ حیرت کریں گے کہ پچھلے تین برسوں میں میرے کئی دوستوں نے تقاضا کرکے یہ کتاب حاصل کی اوراس کے مطالعے سے فیض یاب ہوئے۔کئی دوستوں نے اس کے کئی حصوں کی فوٹو کاپیاں کرا رکھی ہیں ۔ یہ کتاب اقراء فاونڈیشن شکاگو کے زیر اہتمام کوالالمپور سے شائع ہوئی ہے ۔ اکثر احباب نے اس کتاب کو بازار سے خریدنے کی کوشش کی لیکن یہ شاید ہندوستان میں دستیاب نہیں ہے ۔ کیا ہی اچھا ہوکہ ڈاکٹر عابد اللہ غازی اس کتاب کی ہندوستان میں تقسیم کا بندوبست کریں ۔اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ دنیا کے اجنبی معاشروں میں رہنے والے مسلمانوں کو اپنی طرز معاشرت اور سماجی رویوں کو مقامی حالات کے مطابق ڈھالنے کا درس دیتی ہے ۔غالبا امریکہ میں سکونت اختیار کرنے کے بعد ہاشم علی اخترکو اس طرح کی کتاب کو مرتب کرنے کا خیال آیاتھا ۔اگرچہ ہاشم علی اختر امریکہ کی مٹی کاحصہ بن گئے ہیں لیکن حیدرآباد اپنے اس محسن کو ہمیشہ یاد رکھے گا ۔
( ایک پرانی تحریر )