حیدرآباد۔/30 جنوری(سیاست نیوز) گھریلو صارفین کے لئے پکوان گیس کی سبیسڈی کو آدھار کارڈ اور بینک سے مربوط کرنے کی اسکیم میں پائے جانے والے نقائص کو دور کرنے میں ناکامی کا خمیازہ بیچارے صارفین کو بھگتنا پڑرہا ہے۔ حیدرآباد میں پائلٹ پراجکٹ کے طور پر اس اسکیم کو روبعمل لایا گیا اور اس پر عمل آوری کا آغاز ہوئے کئی مہینے بیت چکے ہیں مگر ہنوز سبسیڈی رقم کئی صارفین کے بینک اکاؤنٹس میں منتقل نہیں ہوپارہی ہے جس کے نتیجہ میں وہ بغیر سبسیڈی کے ہی گیس سلینڈرس خریدنے پر مجبور ہیں۔ گیس ایجنسیوں، تیل کمپنیوں اور بینکوں کے مابین مناسب تال میل نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے صارفین اس اسکیم سے استفادہ سے محروم ہیں۔ حکومت نے ایسا کوئی میکانزم تیار نہیں کیا ہے کہ جن صارفین کے بینک اکاؤنٹس میں سبسیڈی رقم منتقل نہیں ہوپائی ہے انہیں کسی متبادل طریقہ سے سبسیڈی فراہم کی جائے۔ بیشتر صارفین نے یہ شکایت کی ہے کہ گیس ایجنسی میں بینک اکاؤنٹ اور آدھار کارڈ کی تفصیلات فراہم کرنے اور بینک کو بھی گیس کنکشن سے متعلق تفصیلات سے آگاہ کردینے کے باوجود وہ سبسیڈی کے حصول سے قاصر ہیں۔ ایسے ہی ایک صارف محمد مبشر الدین ساکن محبوب گارڈن ٹولی چوکی ہیں جو اس اسکیم کے آغاز سے اب تک سبسیڈی کی رقم کے حصول کے لئے گیس ایجنسی، تیل کمپنی اور بینک کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ جب وہ گیس ایجنسی کے ارباب سے رجوع ہوتے ہیں تو ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ بینک یا تیل کمپنی والوں سے رجوع ہوں چونکہ سبسیڈی کی فراہمی سے گیس ایجنسی کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کا رول صرف اتنا ہے کہ صارف کا ڈاٹا متعلقہ تیل کمپنی کو فراہم کرنا ہے۔ مسٹر مبشر نے بتایا کہ جب وہ تیل کمپنی کے حکام سے رجوع ہوئے تو ان سے کہا گیا کہ وہ بینک حکام سے رجوع ہوں اور ان سے کہا جائے کہ وہ اکاؤنٹ کی تفصیلات فراہم کرے۔ انہوں نے بتایا کہ
ان کا اکاؤنٹ یوکو بینک سوریہ نگر برانچ، ٹولی چوکی میں ہے۔ بینک حکام سے ربط پیدا کرنے پر بینک کی جانب سے انہیں ایک صداقتنامہ دیا گیا جس میں یہ صراحت کردی گئی کہ ان کا بینک اکاؤنٹ 17463211022909 آدھار کارڈ نمبر 7554 6744 4067 سے مربوط ہے۔ وہ جب بینک کا صداقتنامہ لے کر انڈین آئیل کمپنی کے حکام سے رجوع ہوئے تو ایک عہدیدار نے اپنے کمپوٹر پر متعلقہ کنزیومر نمبر پر آن لائن ریکارڈ کا مشاہدہ کرواتے ہوئے بتایا کہ بینک نے ہنوز ان کے اکاؤنٹ کی تفصیلات فراہم ہی نہیں کی ہے۔ وہ گذشتہ کئی مہینوں سے سبسیڈی کے حصول کے لئے کوشاں ہیں اور گیس ایجنسی، تیل کمپنی اور بینک حکام سے تحریری نمائندگی کرتے آرہے ہیں مگر انہیں ہنوز سبسیڈی میسر نہیں آئی ہے۔ ایسے کئی صارفین ہیں جو مسٹر مبشر جیسی تگ و دو نہیں کرپاتے اور مجبوراً سبسیڈی سے استفادہ کئے بغیر ہی سلینڈرس خریدنے پر مجبور ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے صارفین جنہیں سبسیڈی فراہم نہیں کی جارہی ہے ان کی سبسیڈی آخر کہاں جارہی ہے اور بینک اکاؤنٹ سے مربوط ہونے کے بعد آیا انہیں سابقہ مہینوں کی سبسیڈی فراہم کرنے کی گنجائش ہے یا نہیں؟ مسٹر مبشر نے بتایا کہ تیل کمپنی کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ تاحال ایسی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ بینک اکاؤنٹ کے آدھار کارڈ سے مربوط کئے جانے سے قبل کی سبسیڈی رقم فراہم کی جائے اس لئے انہیں پچھلے مہینوں کی سبسیڈی رقم حاصل نہیں ہوگی۔ اس خصوص میں سیول سپلائیز کے حکام کو مداخلت کرنی چاہئے اور ایسا کوئی طریقہ اختیار کرنا چاہئے کہ جن صارفین کے بینک اکاؤنٹس میں سبسیڈی منتقل نہیں کی جاسکی انہیں کسی اور طریقہ سے سبسیڈی فراہم کی جائے تاکہ کوئی بھی صارف اس سے محروم نہ رہ سکے۔