ظفر آغا
حقیقت سے منھ موڑنا غفلت ہی نہیں خود کو دھوکہ دینے کی علامت ہے۔ اس لیے سنہ 2019 لوک سبھا چناؤ کے نتائج کے اصل معنی و مفہوم کو بخوبی نہیں سمجھا گیا تو یہ بھی خود کو دھوکہ دینے کے ہی مترادف ہوگا۔ اقلیتوں کے لیے ایک جملے میں سنہ 2019 چناؤ کے معنی دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت کے ہیں۔ جس مسلم ووٹ بینک کا کبھی شور ہوتا تھا وہ مسلم ووٹ بینک اب بے معنی و بے سود ہو گیا۔ ایک دور تھا کہ تمام اہم پارٹیوں کے لیڈران خود دہلی کی جامع مسجد کی سیڑھیاں چڑھ کر امام بخاری سے اپنی حمایت کے فتاوے جاری کرواتے تھے۔ اب زمانہ بدل گیا۔ سنہ 2014 میں ہی نریندر مودی نے ایک انٹرویو کے ذریعہ مسلمانوں کی حیثیت ’ایک کتے کے پلے‘ کی طے کر دی تھی۔ جب ایک صحافی نے مودی سے 2014 کیمپین کے دوران یہ سوال کیا کہ ان کو سنہ 2002 میں گجراتی مسلمان کی نسل کشی کا کتنا افسوس ہے تو مودی کا سیدھا جواب تھا ’’اتنا ہی جتنا ایک کتے کے پلے کا کار کے نیچے کچل کر مر جانے کا افسوس ہوتا ہے۔‘‘
اب آپ کو یہ سمجھانے کی ضرورت نہیں کہ مسلم ووٹ بینک یا مسلمان کی مودی، بی جے پی اور سَنگھ پریوار کے لیے کیا حیثیت ہے۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ 300 سیٹوں سے زیادہ بڑی کامیابی کے بعد سنگھ کا ہندو راشٹر کا خواب پایہ تکمیل کو پہنچا۔ بس اب ایک رسمی اعلان کی ضرورت ہے سو وہ بھی مناسب وقت پر ہو ہی جائے گا۔ یوں بھی بذات خود نریندر مودی نے اپنی فتح کے بعد پارٹی کارکنان کو مخاطب کرتے ہوئے جو تقریر کی اس میں انھوں نے کھل کر یہ کہا کہ ’سیکولرزم‘ کا لبادہ پہننے والی پارٹیاں آج زمیں دوز ہو چکی ہیں۔ یعنی بس اب اس ملک میں ہندوتوا کی ہی طوطی بولے گی۔ گنگا-جمنی تہذیب اور سیکولرزم کے ڈھکوسلوں کا وقت ختم ہوا اور اب باقاعدہ ہندو راشٹر کا نقارہ بجے گا۔
یہ کوئی معمولی تبدیلی نہیں ہے۔ خصوصاً ہندوستانی مسلم اقلیت کے لیے یہ ایک کاری ضرب ہے۔ ابھی تک مسلمان کو جو کچھ رسماً دو ٹکڑے مل جاتے تھے وہ بھی ختم۔ مثلاً کبھی کبھی ملک کا نائب صدر، راجیہ سبھا چیئرمین، کابینہ میں مسلم کوٹے کے وزیر، گورنر، کچھ کمیشنوں میں مسلم نمائندگی جیسی رسمی سیاسی خانہ پری کا بھی اب وقت ختم ہوا۔ نریندر مودی کی پچھلی کابینہ میں ایک مسلم نمائندہ تھا جو شاید اس بار بالکل نہیں ہوگا۔ صرف اتنا ہی نہیں سَنگھ اور نریندر مودی نے ہندوستانی مسلمان کو اب باقاعدہ سیاسی اچھوت بنا دیا ہے۔ ایک بی جے پی کیا ہر سیاسی پارٹی ان چناؤ میں لفظ مسلم کا استعمال کرنے سے کترا رہی تھی۔ ان دنوں ماہ رمضان چل رہا ہے۔ کبھی اس مہینے میں سیاسی پارٹیوں اور لیڈران کی جانب سے دہلی میں افطار پارٹیوں کی قطار لگی ہوتی تھی۔ اب یہ عالم ہے کہ آدھے سے زیادہ رمضان گزر چکا ہے اور راقم الحروف کو ابھی تک محض ایک ’افطار پارٹی‘ میں شرکت کے لیے مدعو کیا گیا ہے اور وہ بھی برطانیہ کے سفارت خانہ کا دعوت نامہ تھا۔ ایک اور دعوت نامہ ہے جو امریکی سفارت خانہ کا ہے۔ لب لباب یہ کہ اب اس ملک میں مسلم اقلیت کا حال کوئی رسماً بھی پوچھنے کو تیار نہیں ہے۔
جی ہاں، ہندوستان بدل گیا۔ اور ایسا ویسا نہیں بدلا، اب یہ جواہر لال نہرو کا گنگا-جمنی ہندوستان نہیں بلکہ نریندر مودی کا باقاعدہ ہندو راشٹر ہے جہاں راہ چلتے کب موب لنچنگ ہو جائے اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ہندوستانی مسلمان سنہ 1947 سے آج تک آنکھ موندے غفلت کے عالم میں چلتا چلا جا رہا تھا۔ کوئی قیادت نہیں، ترقی کا کوئی منصوبہ نہیں، مسائل حل کرنے کی کوئی جستجو نہیں۔ بس چند علماء کے جذباتی بیان اور جماعت، جمعیت اور بورڈ جیسی تنظیموں کی ورغلا دینے والی جذباتی سیاست کے وقتاً فوقتاً ابال کے ساتھ خود کو جھوٹی تسلی دے لینے کے سوا پچھلے 70 برسوں میں ہندوستانی مسلمان نے کچھ اور کیا ہی نہیں۔ کبھی اردو تو کبھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی تو کبھی بابری مسجد اور کبھی پرسنل لاء تحفظ کے دائرے سے باہر اس قوم کو کسی فکر نے پریشان ہی نہیں کیا۔ یہ مسائل بے حد اہم تھے، ان کے حل کی تلاش بھی ضروری تھی۔ لیکن دنیا میں سر اٹھا کر چلنا اور اس کے لیے ترقی کی راہیں تلاش کرنا اس کی فکر نے اس ملک کی ’ملت اسلامیہ‘ کو کبھی پریشان ہی نہیں کیا۔ جدید زندگی اور اس کے مسائل سے خود کو جوڑنے کی قومی سطح پر کوئی کوشش ہی نہیں ہوئی۔ تب ہی تو 19ویں صدی کے بعد سر سید احمد خان جیسے ریفارم کے بعد پورے برصغیر ہند میں پوری مسلم قوم میں کہیں کوئی دوسرا نام نہ تو سنائی پڑتا ہے اور نہ دکھائی پڑتا ہے اور نہ اس کے دور دور تک کوئی آثار نظر آتے ہیں۔ ایسی قوم اس ملک کے بٹوارے کے 70-75 برس بعد اگر دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت کو پہنچ گئی تو کوئی بڑی حیرت ناک بات نہیں ہے۔
لیکن بس اب انتہا ہو چکی۔ غفلت کی نہ تو کوئی گنجائش بچی اور نہ موقع رہا۔ غلطیاں قوموں سے ہوتی ہیں اور اس کا خمیازہ بھی قومیں بھگتتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ سنہ 2019 کے چناؤ میں ہندوستانی مسلمان نے کوئی غلطی بھی نہیں کی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سنہ 2014 میں نریندر مودی کے اقتدار میں آتے ہی اس نے جس دانشمندی کا ثبوت دیا اس کی مثال ڈھونڈ نکالنا مشکل ہے۔ اس بار مسلم اقلیت کو کوئی بابری مسجد ایکشن کمیٹی یا پرسنل لاء بورڈ جیسی کوئی بھی تنظیم نہیں ورغلا سکی۔ موب لنچنگ جیسی تشدد ناک اذیت برداشت کرنے کے بعد بھی وہ صبر و شکر سے خاموش رہا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب جنوری کے مہینے میں سَنگھ نے رام مندر بنانے کا شوشہ چھوڑا تو ملک میں کسی قسم کا ہندو رد عمل پیدا نہیں ہوا۔ کیونکہ رام مندر پر ہندو جذبات تب ہی بھڑکیں گے جب بابری مسجد ایکشن کمیٹی جیسی کوئی تنظیم نعرۂ تکبیر کے ساتھ مندر کی مخالفت کرے۔ کیونکہ جے شری رام تب ہی لگے گا جب دوسری طرف سے پہلے نعرہ تکبیر لگے۔ مسلمان کو یہ بات سمجھ میں آچکی تھی۔ اسی لیے وہ خاموش رہا۔ لیکن پھر پلوامہ واقعہ کے بعد مودی نے ہندو دشمن پاکستان کھڑا کر دیا۔ بس ایسا رد عمل ہوا کہ اب 300 سے زیادہ سیٹوں کے ساتھ مودی ہندو راشٹر بنانے پر کمربستہ ہے۔ اور ہندوستانی مسلمان بے یار و مددگار یہ کہہ رہا ہے کہ کیا کریں، کہاں جائیں!
اب کہیں جانے کا نہ تو وقت ہے اور نہ گنجائش۔ کٹھن وقت ہے اور بے حد کربناک وقت ہے۔ قوموں کے اوپر ایسے اندوہناک وقت آتے ہیں۔ لیکن اس نہ سمجھ میں آنے والے دور میں بھی فی الحال سوائے صبر کے کوئی چارا نہیں۔ ابھی کہیں جلد کوئی امید بھی نہیں نظر آتی۔ لیکن یہ مت بھولیے کہ سنہ 1857 اور سنہ 1947 اس سے بھی برا وقت تھا۔ آخر وہ کٹا کہ نہیں۔ اس لیے گھبرائیے مت، یہ وقت بھی کٹ جائے گا۔ لیکن اب غفلت سے کام نہیں چلے گا۔ ذی ہوش جدوجہد کرنی ہوگی اور ایک نیا سرسید احمد خان تلاش کرنا ہوگا۔ تب ہی یہ اندھیرا چھٹے گا۔