گولے داغے جانے کی مغلیہ دورکی روایت پھر سے قائم ہو۔ 

جامع مسجد کے امام بخاری سے سحری فاونڈیشن نے درخواست کی کہ وہ لوگوں کے جذبات کو سمجھیں اور اس قدیم روایت کو ختم نہ ہونے دیں
نئی دہلی۔ مغلیہ دور کی قدیم روایت تھی کہ رمضان المبارک میں سحری وافطار کے وقت او رنماز عیدین کے موقع پر شاہجہاںآباد کی عوام کو وقت سے مطلع کرانے کے لئے دہلی کی شاہی جامع مسجد سے گولے داغے جاتے رہے ہیں۔

مگر گذشتہ سال2017اس شاہی روایت کو منقطع کردیاگیا یہ کہہ کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق دہلی میں آتش بازی اور گولوں کے استعمال پر پابندی عائد کردی گئی ہے ۔

درحقیقت سپریم کورٹ نے نومبر2016کے ارڈر کے تحت پٹاخوں کی خرید وفروخت پر پابندی عائد کی تھی نہ کہ پٹاخوں کے استعمال کرنے پر ۔ اس وقت شاہجہاں آباد کی عوام خاص طور پر بزرگوں میں کافی رنج وغم اور افسوس تھا کہ جو روایت وہ اپنے بچپن سے دیکھتے آرہے تھے او رگولے کی آواز سے ہی انہیں سحر وافطار کی خبر ہوتی تھی او رگولے کی آواز سن کر روزہ افطار کرنے پر انہیں ایک قلبی سکون کا احساس ہوتا تھا ۔

عوام الناس کی شکایت کو سن کر اور سے تدارف کے لئے مسلم سحری فاونڈیشن سانے ائی اور اس کے صدر مسرور الحسن صدیقی( ایڈوکیٹ) نے بیان جاری کرکے جامع سمجد کے امام احمد بخاری سے درخواست کی کہ وہ لوگوں کے جذبات کو سمجھیں اور اس قدیم روایت کو منقطع نہ ہونے دیں۔

اس کے جواب میں دفتر جامع مسجد دہلی سے ایک بیان جاری کیاگیا کہ یہ بات صحیح ہے کہ پٹاخوں یا گولو ں کے استعمال پر سپریم کورٹ کی کوئی پابندی نہیں ہے مگر جامع مسجد دہلی کو گولے دستیاب ہونے میں کچھ دشواری پیش ہے اس لئے رمضان المبارک میں گولے دغے نہیں ہارہے ہیں۔

جیسہ ہی گولے دسیتاب ہوں گے یہ روایت پھر سے قائم کردی جائے گی۔ اس بیان کے بعد لوگوں میں امید جاگی کہ عنقریب ہی گولے دستیاب ہوجائیں گے او رسحر وافطار کے وقت پھر سے شاہجہاں آباد میں روایتی گولوں کی آواز گونے گی ۔ مگر افسوس ایسا نہیں ہوا۔اب ایک سال گذر جانے کے بعدبھی 2018رمضان المبارک کے مہینہ میں عوام کو صرف او رصرف مایوسی ہی ہاتھ لگی ہے۔

مسرور الحسن صدیقی( ایڈوکیٹ)نے کہاکہ نومبر2016میں عائد خرید وفروخت پر پابندی کے باوجود دہی واین سی آر میں پٹاخوں کی خرید پرپابندی کے باوجود دہلی این سی آر میں پٹاخوں کی خریدی جاری رہی اور شادی بیاہ‘ الیکشن‘ کرکٹ میاچ ‘ دسہرہ دیوالی یا یوں کہیں کہ ہر موقع پر آتش بازی اور پٹاخوں کا کھل کر استعمال ہوا‘ اسی طرح 15اگست اور 26جنوری کے دن قومی پرچم کو 21توپوں کی سلامی دی جاتی ہے جس کی دھمک اور آواز بہت دور تک محسوس کی جاتی ہے یہ ایک دن کا پروگرام ہوتا ہے مگر مشق پورے تیس دنوں پہلے سے شروع ہوجاتی ہے

توپھر جامع مسجد دہلی میں گولے داغے جانے پر رخنہ کیوں؟ستمبر2017میں سپریم کورٹ نے پٹاخوں کی خرید وفروخت سے پابندی بھی ہٹالی اور موجودہ وقت میں پٹاخوں کی خرید وفروخت ا ور استعمال کی پابندی نہیں ہے۔

جامع مسجدمیں گولے داغنا سپریم کورٹ کی لگائی گئی کسی بھی پابندی کے دائرے میں نہیںآتا‘ اسی طرح2008ایکسپلوسیو رول کے تحت ذاتی استعمال کے لئے سوگلوگرام تک پٹاخے اور پانچ کلو تک بارود رکھنے کے لئے کسی قسم کی لائسنس کی ضرورت نہیں ہے‘ ہاں صرف یہ شرط ضرور ہے کہ یہ کسی بھی لائسنس شدہ دوکان سے ہی خریدے گئے ہوں۔ تو پھرکیا وجہہ ہے کہ جامع مسجد دہلی انتظامیہ نے گولوں کی فراہمی کے لئے کوئی پیش رفت نہ کی او رنہ ہی کسی قسم کی دلچسپی ظاہر کی۔دہلی کے قرب وجوار میں بہت سے ایسے شہر ہیں جہا ں سے گولے باسانی دستیا ب ہوسکتے ہیں۔

بشرط کے انہیں خریدنے کا منشا ہو۔ مسٹر صدیقی نے کہاکہ جامع مسجد دہلی ایک وقف جائیداد ہے اور اسکے انتظام اور انصرام کی تمام تر ذمہ داری دہلی وقف بورڈ کی ہے۔ دہددہلی کی عوام‘ دہلی وقف بورڈ او رجامع مسجد منیجنگ کمیٹی سے اپیل کرتی ہے کہ وہ شاہجہاں آباد کی مسلم عوام کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے گولے داغے جانے کی قدیم روایت کو پھر سے قائم کریں تاکہ عوام کے دلوں میں بھری ہوئی عدم مایوسی دور کیاجاسکے