روہنگیا مسلمان… کس طرح ملک کیلئے خطرہ
خواتین تحفظات… مودی پر سونیا کا سیاسی وار
رشیدالدین
انسان تو سارے ایک ہوتے ہیں لیکن اگر کوئی تعصب اور عناد کا چشمہ پہن لیں تو اسے انسانوں میں بھی فرق دکھائی دیتا ہے ۔ کوئی عام آدمی اگر عصبیت کی بنیاد پر انسانوں کو تقسیم کرے تو کوئی بات نہیں لیکن اگر حکومت اور اس سے وابستہ افراد مذہب اور رنگ و نسل کے زاویہ سے سوچیں اور انسانوں کی تفریق کرنے لگیں تو سماج اور ملک کی صحت کیلئے اچھی علامت نہیں ہے۔ ظلم کا شکار افراد کا تعلق بھلے ہی کسی علاقہ سے ہو، عالمی قوانین کے تحت وہ قابل رحم و ہمدردی ہیں۔ اس طرح کی کئی مثالیں موجود ہیں کہ جنگ زدہ علاقوں سے نکلنے والے افراد کو مختلف ممالک نے پناہ گزین کے طور پر قبول کیا ہے۔ روہنگیائی مسلمانوں کے بارے میں ہندوستان کا موقف انسانیت کا جذبہ رکھنے والوں کیلئے تکلیف کا باعث بنا ہے۔ میانمار فوج اور بدھسٹوں کے ظلم کا شکار ہزاروں خاندان پڑوسی ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔ بنگلہ دیش نے تباہ حال مسلم خاندانوں کیلئے اپنی سرحدیں کھول دی ہیں۔ پانچ تا سات لاکھ افراد وہاں پناہ گزین ہیں جبکہ ہندوستان میں ان کی تعداد 40,000 بتائی جاتی ہے ۔ پناہ گزینوں کو راحت و امداد پہنچانے کا مسئلہ درپیش ہوا تو مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں حلفنامہ داخل کرتے ہوئے روہنگیائی پناہ گزینوں کو ملک کی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دیا۔ مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے یہاں تک کہہ دیا کہ یہ لوگ پناہ گزین نہیں بلکہ غیر قانونی تارک وطن ہیں جنہیں ملک بدر کیا جائے گا ۔ راجناتھ سنگھ سے اس طرح کے بیان کی امید نہیں تھی۔ دراصل وزارت داخلہ میں سنگھ پریوار ذہنیت کے حامل عناصر نہیں چاہتے کہ روہنگیائی مسلمانوں کو پناہ دی جائے ۔ وزارت داخلہ نے سپریم کورٹ میں جو حلفنامہ داخل کیا ہے ، اس کی سماعت 2 اکتوبر کو مقرر ہے۔
ہندوستان میں پناہ گزینوں کا مسئلہ نیا نہیں ہے اور بنگلہ دیش، سری لنکا ، پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے پناہ گزین پہلے ہی سے موجود ہیں۔ حکومت کی جانب سے انہیں سہولتیں بھی فراہم کی جارہی ہیں لیکن روہنگیائی باشندوں کو قبول کرنے تیار نہیں۔ شاید اس لئے کہ وہ مسلمان ہیں اور یہی ان کا جرم بن چکا ہے۔ دوسرے ممالک سے آنے والے غیر مسلم پناہ گزینوں کا استقبال اور روہنگیائی مسلمانوں سے عداوت دراصل حکومت کے تعصب کو ظاہر کرتا ہے۔ ہندوستان کو پاکستان اور بنگلہ دیش کے گستاخانِ رسولؐ اور اسلام دشمن تسلیمہ نسرین ، طارق فتح جیسے مردود عناصر کو پناہ دینے میں کوئی عار نہیں بلکہ فخر ہے کیونکہ وہ ہندوستان میں رہ کر سنگھ پریوار کے ایجنڈہ کی تکمیل کر رہے ہیں۔ اپنے موقف کو حق بجانب قرار دینے عالمی قوانین کا سہارا لیا جاتا ہے لیکن یہ قوانین مسلمانوں پر لاگو کیوں نہیں؟ ماہرین کے مطابق اگر کسی کو اس کے ملک میں جان کا خطرہ ہے تو وہ کسی دوسرے ملک میں بطور پناہ گزین رہ سکتا ہے اور اس کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ روہنگیائی پناہ گزینوں کے پاس اقوام متحدہ ہائی کمشنر برائے رفیوجیز کے جاری کردہ شناختی کارڈس موجود ہیں۔ اگر عالمی قوانین کو ماننے سے انکار کیا جائے تب بھی ہندوستان کی تہذیب ، روایات اور اقدار سے انحراف نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ پریشان حال پناہ گزینوں کی مدد کیلئے دست تعاون دراز کرنا ہندوستان کے خمیر میں ہے۔ ترکی کے صدر طیب اردغان نے کیا خوب تبصرہ کیا کہ آنکھوں کا رنگ بھلے ہی الگ ہوسکتا ہے لیکن آنسو کا رنگ ایک ہی ہوگا۔ مصیبت اور غم کی اس گھڑی میں مظلومین کا ساتھ دینا ہر کسی کا فریضہ ہے۔
انسانی بنیادوں پر روہنگیائی مسلمانوں کو سہارا دینے میں بنگلہ دیش نے مثال قائم کی ہے۔ اوسط معیشت کے حامل اس ملک نے 7 لاکھ پناہ گزینوں کی امداد کا بیڑہ اٹھایا ۔ اقوام متحدہ میں امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات کے دوران پناہ گزینوں کے مسئلہ پر امریکہ کی بے اعتنائی نے شیخ حسینہ کو حیرت زدہ کردیا ۔ وزیراعظم بنگلہ دیش نے کہا کہ پناہ گزینوں کے مسئلہ پر ٹرمپ کا ذہن جاننے کے بعد وہ خاموش ہوگئیں۔ ٹرمپ روہنگیائی پناہ گزینوں کو قابل رحم و ہمدردی نہیں سمجھتے ۔ شیخ حسینہ نے کہا کہ بنگلہ دیش 16 کروڑ کی آبادی کے ساتھ ایک غریب ملک ہے۔ 16کروڑ عوام اپنی غذا میں 7 لاکھ افراد کو حصہ دار بنانے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ ہندوستان کو اس غریب ملک سے سبق لینا چاہئے ۔ بنگلہ دیش سے چکمہ اور سری لنکا سے ٹامل شہری ہندوستان آئے تو انہیں پناہ دی گئی لیکن اعتراض تو صرف مسلمانوں سے ہے۔ ٹرمپ ہو کہ راجناتھ سنگھ مذہب کی عینک سے روہنگیائی پناہ گزینوں کو دیکھ رہے ہیں۔ لفظ مسلمان آتے ہی ان کے تیور بدل گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ نے اقوام متحدہ میں میانمار حکومت کے موقف کی تائید کی اور یہاں وزارت داخلہ نے سپریم کورٹ میں پناہ گزینوں کے خلاف حلفنامہ داخل کیا۔ پناہ گزین ملک کی سلامتی کیلئے خطرہ دکھائی دے رہے ہیں اور راجناتھ سنگھ نے انہیں ملک بدر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سری لنکا اور بنگلہ دیش سے آئے ہوئے پناہ گزینوں کو راجناتھ سنگھ ملک دشمن تصور کیوں نہیں کرتے۔ بی جے پی حکومت کے لئے شاید وہ وطن پرست اور ہندوستان کے دوست ہیں کیونکہ وہ اکثریتی طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ میانمار سے پناہ گزین طویل عرصہ سے آرہے ہیں لیکن وہ کبھی بھی ملک کی سلامتی کو خطرہ بننے والی سرگرمیوں میں ملوث نہیں رہے۔ جس کا سب کچھ لٹ چکا ہو۔ بے یار و مددگار ہو ، وہ بھلا دوسروں کیلئے کس طرح خطرہ بن سکتا ہے۔ اگر وزارت داخلہ کے پاس ثبوت ہوں تو ملک کے سامنے پیش کئے جائیں۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق کن علاقوں میں روہنگیائی افراد کے خلاف دہشت گردی اور ملک دشمنی کے مقدمات درج کئے گئے ؟ کونسے بم دھماکوں میں وہ ملوث ہیں؟ اگر وہ ہندوستان کے خلاف کارروائیوں میں ملوث تھے تو کب اور کہاں ان کے خلاف کارروائی کی گئی ۔ کشمیر کی چیف منسٹر محبوبہ مفتی نے خود بیان دیا کہ جموں کشمیر میں مقیم روہنگیائی پناہ گزین کسی بھی دہشت گرد کارروائی میں ملوث نہیں ہیں۔ یہ وہی چیف منسٹر نے ہیں جن کی تائید بی جے پی کر رہی ہے۔ دراصل انسانیت سے جڑے سنگین مسئلہ پر راجناتھ سنگھ انتخابی جلسوں کی طرح بیانات دے رہے ہیں۔ اس معاملہ میں راجناتھ سنگھ کا کوئی قصور نہیں بلکہ قصور اس ذہن و فکر کا ہے جو حکومت پر حاوی ہوچکی ہے جس کی پابندی راجناتھ سنگھ کی مجبوری ہے۔ راج ناتھ سنگھ اپنی نہیں بلکہ سنگھ پریوار کی زبان میں بات کر رہے ہیں۔
جس حکومت کا سربراہ اپنی شریک حیات کو تسلیم کرنے سے انکار کردے ان کی حکومت سے کسی مظلوم اور وہ بھی مسلمان کی ہمدردی کی امید کرنا عبث ہے۔ جس خاتون کو وزیراعظم کی قیامگاہ میں ہونا چاہئے وہ اپنے ہی ملک میں پناہ گزین کی طرح زندگی بسر کر رہی ہے۔ یوں بھی سنگھ پریوار کے ایجنڈہ پر حکومت کاربند ہے۔ وہ میانمار کے مسلمانوں کو کیونکر گلے لگائے گی۔
بی جے پی اقتدار کے بعد سے ہندوستانی مسلمانوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے ۔ مسلمان اپنے حق کیلئے آواز اٹھائیں تو ملک دشمن ۔ اتنا ہی نہیں دینی مدارس کو دہشت گردی کے مراکز کہا جارہا ہے ۔ جب ملک کے حقیقی باشندوں کو دوسرے درجہ کے شہری کے طور پر دیکھا جائے جنہوں نے ملک کی ترقی میں نمایاں رول ادا کیا اور ان کی حب الوطنی پر جب شک ہو تو ایسی حکومت سے روہنگیائی مسلمانوں کی امداد کی توقع کرنا فضول ہے۔ اس مسئلہ کو گجرات اور کرناٹک اسمبلی انتخابات کی مہم میں ووٹ حاصل کرنے کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کوئی عجب نہیں کہ بعض روہنگیائی باشندوں کو مقدمات میں پھانس کر اس دعویٰ کو سچ ثابت کیا جائے گا کہ یہ لوگ ملک کی سلامتی کیلئے خطرہ ہیں۔ پناہ گزینوں کے معاملہ میں اب آخری امید کی کرن سپریم کورٹ ہے۔ بی جے پی کو اگر گجرات اور کرناٹک کے انتخابات کی فکر ہے تو دوسری طرف کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے بھی بروقت سیاسی وار کرتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی کو مکتوب روانہ کیا۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں بی جے پی کو اکثریت کا حوالہ دیتے ہوئے خواتین تحفظات بل کی منظوری کا مطالبہ کیا۔ یہ بل مارچ 2010 ء میں راجیہ سبھا میں منظور کیا جاچکا ہے جس کے بعد سے لوک سبھا میں مختلف جماعتوںکی رکاوٹوں کے سبب منظور نہ ہوسکا۔ کرناٹک اور گجرات چناؤ سے قبل سونیا گاندھی نے زبردست سیاسی کارڈ کھیلا ہے جس سے بی جے پی دفاعی موقف میں آسکتی ہے ۔ بی جے پی کے انتخابی منشور میں خواتین تحفظات بل کا مسئلہ شامل ہے اور تین سال گزرنے کے باوجود ابھی تک مودی نے اس جانب توجہ نہیں دی۔ اب جبکہ لوک سبھا میں اکثریت حاصل ہے اور صدر جمہوریہ بھی بی جے پی کے ہیں، لہذا بل کی منظوری میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوسکتی۔ لوک سبھا میں 543 ارکان پارلیمنٹ میں خاتون ارکان کی تعداد 62 ہے جو اب تک کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ 2009 ء انتخابات میں پندرھویں لوک سبھا میں یہ تعداد 58 تھی ۔ مودی خواتین سے ہمدردی کے نعرے لگا رہے ہیں ، انہوں نے مسلم خواتین کو انصاف دلانے کا عہد کیا ہے۔ اس کے علاوہ بیٹی بچاؤ ، بیٹی پڑھاؤ اسکیم شروع کی گئی ۔ الغرض مودی خواتین سے ہمدردی اور سیاسی طور پر طاقتور بنانے کے دعوے کرتے رہے ہیں۔ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ خاتون کو وزیر دفاع مقرر کیا گیا لیکن مودی حکومت کیلئے ویمنس ریزرویشن بل کی منظوری آسان نہیں ہے ۔ مودی کو خواتین کو تحفظات سے قبل اپنی گھر والی کو گھر میں تحفظات فراہم کرنا چاہئے۔ ڈاکٹر راحت اندوری نے کیا خوب کہا ہے ؎
گلدستہ پر یکجہتی لکھ رکھا ہے
گلدستہ کے اندر کیا ہے سچ بولو