گروگرام میں نماز پر کہرام : بقلم : ۔ شکیل شمسی

اسی کالم میں صرف ایک ہفتہ قبل ہم نے ہریانہ کے وزیر اعلی منوہر لال کھٹر کے لئے ستائشی کلمات لکھے تھے ۔ابھی ہمارے قلم کی روشنائی خشک بھی نہیں ہوپائی تھی کہ انھوں نے اس پر خود ہی پانی پھیر دیا ۔واقعہ یہ ہے کہ دہلی سے ملحق ہریانہ کے گروگرام کے شہر کے سیکٹر ۵۳؍ میں ایک خالی پڑے پلاٹ پر کافی عرصہ سے چار پانچ سو مسلمان جمعہ کی نماز پڑھنے کے لئے جمع ہوا کر تے تھے ۔تین ہفتہ قبل ہندو وادی تنظیموں کو ان نمازیوں سے خطرہ محسوس ہوا او رانہوں نے نمازادا نہ کرنے کا حکم دے دیا ۔

مسلمانوں نے صبر سے کام لیا او رچپ چاپ نماز ختم کر کے چلے گئے۔لیکن جب اس معاملہ کی خبر سوشل میڈیا پر عام ہوئی تو کھٹر سرکار کو خفت محسوس ہوئی اور اس نے بہت بے باکی سے اعلان کیا ہے کہ وہ نماز کو روکنے کے جانے کے خلاف ہے اور اس ملک میں ہر شخص کو اس بات کی آزادی ہے کہ وہ اپنی عبادت کوجہاں چاہے انجام دے مگر ان کا بیان جاری ہونے کے بعد بی جے پی ہے کہ وہ اپنی عبادت کوجہاں چاہے انجام دے ۔

مگر ان کا بیان جاری ہونے کے بعد بی جے پی کی نکیل تھا م کراس کو سیاسی راستہ طے کروانے والے سنگھ پریوار کوکھٹر کی بات بہت ناگوار گذری اوراس نے اس بار بڑی تعداد میں فرقہ پرستوں کو مختلف مقامات پو ہونے والی نماز میں خلل ڈالنے کے لئے روانہ کیا۔ جس کے بعد ہریانہ کے وزیر اعلی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ مسلمان اپنے گھروں مسجدوں او رعید گاہوں میں ہی نماز پڑھیں گے سرکاری پلاٹوں یا پارکوں میں ان کو اجازت نہیں دی جائے گی ۔کاش کھٹر صاحب کہتے کہ کسی بھی سرکاری یا پارکوں یا پلاٹوں پر مذہبی او رسماجی پروگرام منعقد کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی ۔لیکن وہ ایسا نہیں کرسکتے تھے کیوں کہ سرکاری پارکوں میںیوگا کیمپ اورآر ایس ایس کی شا کھائیں لگانے کا عام رواج ہے اگر عمومی پابندی لگاتے تو پھر سادھوسنیاسی یوگا کے کیمپ کہا لگائیں گے ۔آر ایس ایس کی شاکھاؤں کا کیاہوتا ؟ شائد اسی لئے نماز کا نام لے کر کہنا پڑا کہ نماز مسجدوں اور عید گاہوں میں پڑھی جائے ۔۔