گجرات ہوسکتا ہے سب کو اس بار حیرت میں ڈال دے۔ یوگیندر یادو

پول سروے بتارہا ہے کانگریس بہت قریب آگئی ہے‘ اور اس سے کچھ زیادہ کے بھی امکانات ہیں۔
کیابی جے پی کو گجرات میں شکست ہوگی؟کیا گجرات کے حساس انتخابات میں وزیر اعظم مودی اپنی آبائی ریاست میں شکست کا منھ دیکھیں گے؟ کیا قومی سیاست کا رحجان میں کوئی تبدیلی متوقع ہے؟اس بات کو چند ماہ قبل میں نے مسترد کردیاتھا۔ بی جے پی صرف گجرات کی برسراقتدار سیاسی جماعت نہیں ہے۔ بی جے پی کا ان ریاستوں میں بھی داخلہ ہوگیا ہے جو بائیں بازو کا مضبوط قلعہ ہے جس کی ایک مثال مغربی بنگال ہے۔سال1991کے لوک سبھا الیکشن کے بعد بی جے پی کو ایک بھی انفرادی الیکشن میں شکست کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔اس کے بعد سے بی جے پی کانگریس پر اپنے دس فیصد ووٹ کی بڑھت کومضبوطی کے ساتھ قائم رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔

بی جے پی کے دور میں نہ صرف گجرات میں کامیابی کو برقرار نہیں رکھا گیا بلکہ گجرات کی سوسائٹی پر بھی ان کا مکمل کنٹرول رہا۔ جس میں صنعت سے لیکر کواپرٹیو ‘ میڈیا سے لیکر دانشوار طبقہ شامل ہے۔جبکہ اس کی کٹر حریف کانگریس سب سے کمزور اپوزیشن مانی جاتی ہے۔لہذا میں گجرات سے کسی قسم کی تبدیل شدہ نیوز کی توقع نہیں رکھتا۔بی جے پی کی ایک او رجیت جبکہ وزیر اعظم گجرات سے تھی یہ پرانے تبصرہ ہوجائے گا۔

قبل ازیں سی ایس ڈی ایس ٹیم کا اگست میں اس سے قبل ایک سروے آیاتھا جس میں بی جے پی کو بھاری اکثریت دی گئی تھی ‘ اب ایسا نہیں لگتا۔جیسا ویسٹ بنگال میں لفٹ فرنٹ کی کامیابی کوئی خبر نہیں تھی۔ اگر دیکھا گیا تو ان کی شکست کسی زلزلہ سے کم نہیں تھی ۔

مگر زلزلہ ہر روز نہیں آتے۔یہ بات تو ہے کہ گجرات میں سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے ۔ ہر کوئی اس بات سے واقف ہے کہ ’’گجرات کا مشہورماڈل ‘‘کچھ حقیقی اور سنکی کامیابیوں کے پیچھے چھپ گیاہے۔ گجرات تعلیمی او رطبی اشاروں درمیانی مظاہرے پر تھا۔ یہ ماڈل بالخصوص کسانوں کے لئے تو ہونا چاہئے تھا۔ ریاست میں جب چیف منسٹر مسٹر مودی تھے اس وقت بھی کسانوں کا ایک بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرہ کیاگیا۔ دو متواتر قحط سالی کے بعد بھی حکومت ان کسانو ں کی موثر انداز میں مدد کرنے میں پوری طرح ناکام رہی۔

پچھلے سال بھی گجرات کی حالت خراب رہی۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ برسراقتدارپارٹی کو انتخابی شکست کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ مگر گجرات بلکل الگ ہے جو میں سمجھتاہوں۔ یہ لوگوں کے لئے کافی نہیں ہے بی جے پی کو الیکشن ہرانے کے لئے۔اگر کوئی مجھ سے کہے گا اس بار گجرات کی عوام بی جے پی سے ناخوش ہے اور کانگریس کو جتنا چاہتی ہے تو اس بات کو عوام کی خوشی نہیں بلکہ برہمی سے تعبیر کروں گا۔ کیونکہ لوگ چاہتے ہیں بی جے پی کو ہرانا اور اس کیلئے وہ کانگریس کو بھی ووٹ دینے کے لئے تیار ہیں۔میںیہاں پر اس بات کی وضاحت میں عجلت کرونگا کہ میری رائے نہیں ہے اور میرا سیاسی نظریہ نہیں ہے ۔

میں یہاں پر کچھ ویب سائیڈس کے سروے کے اعداد وشمار کے مطابق بات کرنے کو ترجیح دونگاجس لوک نیتی ‘۔ سی ایس ڈی ایس کی ٹیم نے اے بی پی نیوز کے لئے کیاہے۔ یہ تینوں سروے نہایت سنجیدگی اور عوامی رائے پر مشتمل ہیں جو پچاس اسمبلی حلقہ جات کے 3500لوگوں سے بات چیت کے بعد تما م ریاست میں پھیلائے گئے ہیں۔

میں ان اعداد وشمار کاصرف اس لئے استعمال نہیں کررہاہوں کیونکہ یہ معیاری ہے بلکل صحیح ثابت ہوئے ہیں( سوائے اترپردیش انتخابات کو چھوڑ کر) بلکہ سروے عوام کا ہے اور تمام حقائق شفافیت کے ساتھ پیش کئے گئے ہیں ۔

اس ٹیم نے اگست میں سروے کرتے ہوئے بی جے پی کو تیس فیصد ووٹ میں اضافہ کی بات کہی تھی جبکہ اکٹوبر میں کئے گئے سروے میں چھ فیصد ووٹ شیئر کرنے والی پارٹی قراردیا ہے ۔ کیاایسا ممکن ہے؟ اس سوال پر تیسرے مرحلے کے سروے رپورٹ یہ بات صاف ہوگئی کہ دونوں سیاسی پارٹیاں 43فیصدشیئر کریں گے۔

سی ایس ڈی ایس نے بی جے پی کی شکست کا تذکرہ نہیں کیاہے۔ ان کا کہنا ہے 91-99سیٹیں بی جے پی کو ملیں گی۔رائے دہی کے دن کیاہوتا ہے؟اس کا جواب کوئی نہیں دے سکتا۔اس رحجان سے بی جے پی کی شکست صاف طور پر دیکھائی دیتی ہے۔

یہ صاف رحجان الیکشن کے آخری ہفتہ میں تبدیل نہیں ہوسکتا۔ عموما یہ اسی طرح قائم رکہے گا۔کانٹے کے اس مقابلے میں چار نمبر کی بڑھت کانگریس کی صاف طور پر جیت کا سبب بن سکتی ہے۔ انتخابات کے بعد کیاجانے والا سروے برسراقتدار پارٹی کے اندازہ کے اگے ہوسکتا ہے لہذا یہاں پر کسی بڑی بڑھت کے متعلق بات نہیں کی جاسکتی۔سروے کے علاوہ گجرات میں بار انتخابی ریالیوں میں مودی کا جادو بھی دیکھائی نہیں دے رہا ہے۔

جہاں پر گجرات کا صنعت کار ‘ اور کاروباری پریشان ہیں وہیں پر کپاس کی زراعت کرنے والا کسان طبقے بھی بدحالی کاشکار ہے۔ جوبھی ہو گجرات میں اس باروی وی پی اے ٹی مشین کا استعمال کیاجارہا ہے جس کی حفاظت اور نگرانی بھی ضروری ہے۔