گا تلنگن گا، بانکی تلنگن گا

کے این واصف
قارئین کرام!
ہم پچھلے سال اپنی سالانہ چھٹی گزار کر اپریل کے تیسرے ہفتہ میں متحدہ آندھراپردیش سے اپنے وطن ثانی ریاض سعودی عرب لوٹے تھے ۔ اُس وقت صرف توقع تھی کہ شاید آئندہ جب چھٹی پر وطن اول آئیں گے تو نئی ریاست ’’تلنگانہ‘‘ وجود میں آچکی ہوگی ۔ ویسے یہ امید تو پچھلے کئی سال سے تھی، بلکہ علحدہ ریاست کی توقع میں تقریباً ربع صدی پردیس میں گزر گئی۔ تلنگانہ جدوجہد کی تو ایک لمبی تاریخ ہے جس کی کڑیاں مخدوم محی الدین اور ان کے ساتھیوں کی جدوجہد آزادی، علاقہ تلنگانہ کے غریبوں اور بے زمین کسانوں کیلئے انصاف کے حصول کی جنگ سے جا ملتی ہے ۔

مخدوم نے قوم سے کہا تھا کہ ’’جانے والے سپاہی سے پوچھو وہ کہاں جارہا ہے‘‘۔ 70 سال سے یہ سپاہی غریبوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی اور ان کے حقوق کیلئے لڑتا رہا ہے۔ اس طویل عرصہ میں اس سپاہی نے اپنے چولے ضرور بدلے مگر اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ اس کے دل کے الاؤ کی آتش کبھی دھیمی تو کبھی تیز ہوئی مگر اس جدوجہد کی مخالفت کرنے والے کبھی اس آگ کو پوری طرح ٹھنڈی نہ کرپائے۔ مخدوم نے نہ صرف تلنگانہ کے نوجوانوں کو ہی متحرک نہیں کیا بلکہ انہوں نے ’’تلنگن‘‘ کو بھی انقلاب کا نعرہ لگانے کی تلقین کی اور تلنگن سے کہا
اجنبی کو دیکھ کر
خاموش مت ہو، گائے جا
ہاں تلنگن گائے جا
بانکی تلنگن گائے جا
قارئین ! ہم نے مخدوم محی الدین کو دیکھا ضرور ہے۔ مگر ان کی اس جدوجہد کے ہم شاہد نہیں ہیں جس کا اوپر ہم نے ذکر کیا ہے ۔ یہ تفصیلات تو ہم کو علی سردار جعفری صاحب کے ٹی وی سیریل ’’کہکشاں‘‘ سے حاصل ہوئیں جس کو ہم گاہے ماہے دیکھتے رہتے ہیں۔

خیر بات شروع ہوئی تھی تلنگانہ ریاست کے قیام سے ۔ جس میں ہم پچھلے پیر (18 مارچ) کی صبح داخل ہوئے۔ ویسے ابھی تو علحدہ ریاست قائم کئے جانے کا اعلان ہوا ہے۔ اس کے قیام کا باضابطہ اعلان تو 2 جون 2014 ء کو ہوگا ۔ تب تک تو ہم یہاں سے واپس ہوچکے ہوں گے۔ ویسے اعلان ریاست تلنگانہ کے مخلوط صدر مقام حیدرآباد میں داخل ہوکر ہم نے بظاہر تو کوئی ایسی تبدیلی محسوس نہیں کی ۔ وہی پرانے معمولات یعنی وہی دن میں دو مرتبہ ڈیڑھ دو گھنٹے بجلی کا چلا جانا ، محدود بلکہ ناکافی پانی کی سپلائی۔ ہمہ منزلہ اپارٹمنٹ بلڈنگس میں رہنے والوں کاپانی کیلئے حیران و پریشان رہنا ، بستیوں میں پانی سپلائی کے ٹینکرز پر ہجوم کی مارا ماری، وہی بے ہنگم ٹریفک ، وہی صوتی و فضائی آلودگی ، وہی آسمان سے باتیں کرتیں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں، یہ فہرست تو مزید طویل ہے مگر ہمیں اپنے کالم کیلئے محدود جگہ کا بھی خیال رکھنا ہے۔

اب یہاں جیسے جیسے موسم کا پارہ اوپر کی طرف بڑھ رہا ہے، ویسے ہی سارے ملک میں الیکشن کے پیش نظر سیاسی پارہ کی سطح بھی اونچی ہوتی جارہی ہے۔ ویسے ابھی جلسے جلوس، الیکشن کی ہنگامہ آرائیاں تو شروع نہیں ہوئی ہیں مگر دل بدلیاں، پرانے رشتے ٹوٹنا اور نئے رشتے قائم ہونے کے سلسلے زوروں پر ہیں۔ خصوصاً علاقہ تلنگانہ میں، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں علحدہ ریاست تلنگانہ کے اعلان کے بعد کانگریس پارٹی بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی۔ کانگریس چھوڑ کر قائدین دوسرے سیاسی خیموں میں پناہ تلاش کر رہے ہیں۔ اسی طرح دیگر سیاسی پارٹیوں سے بھی سیاستداں اپنے آقا اور ٹھکانے بدل رہے ہیں۔

اپنے مستقبل کو محفوظ کرنے کی خاطر قائدین یہ فیصلے کر رہے ہیں۔ ملکی سطح پر کانگریس پارٹی کا کمزور ہونا اور علحدہ تلنگانہ کے اعلان کے بعد علاقہ تلنگانہ میں تلنگانہ راشٹریہ سمیتی (ٹی آر ایس) کی جیت کی توقعات میں اضافہ ہونا بھی دل بدلیوں کی بڑی وجہ ہے ۔ سیما آندھرا اور تلنگانہ علاقہ میں جو سیاسی پیش گوئیاں کی گئی ہیں اس میں سیما آندھرا میں وائی ایس آر کانگریس اور علاقہ تلنگانہ میں ٹی آر ایس کو سرفہرست بتایا جارہا ہے ۔
جہاں انفرادی حیثیت میں سیاسی قائدین بساط سیاست پر اپنی چالیں چل رہے ہیں، اسی طرح علاقائی پارٹیاں بھی اپنے لئے نئے سیاسی آقاؤں کے انتخاب میں لگے ہیں۔ ہر علاقائی پارٹی کا جھکاؤ اس قومی پارٹی کی طرف ہے جس کے مرکز میں اقتدار حاصل کرنے کے قوی امکانات ہیں۔ ٹی آر ایس بھی کانگریس کے ساتھ اپنے وعدے سے انحراف کر کے دیوار پر اسی انتظار میں بیٹھی ہے کہ انتخابی نتائج کے بعد جدھر اقتدار ہوگا ، ادھر چھلانگ لگائی جائے تاکہ اقتدار کے شیر کی بچائی ہوئی کچھ ہڈیاں اسے بھی حاصل ہوجائیں لیکن ٹی آر ایس کو یہ فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہئے کیونکہ اقتدار سے اہم عوام کا اعتبار ہوتاہے ۔ اسے تلگو دیشم کی جلی ہوئی انگلیوں کو دیکھ کر حاصل کرنا چاہئے۔

آج جہاں سارے ملک کی نظریں اگلے دو ماہ میں بدلنے والے سیاسی منظر کی طرف لگی ہیں اور وہ اپنی اپنی دانست میں پارٹیوں کی جیت ہار اور نئے سیاسی منظر نامے کے خاکے اپنے ذہنوں میں بنارہے ہیں۔ خلیجی ممالک میں علاقہ تلنگانہ سے تعلق رکھنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد آباد ہے اور صرف سعودی عرب میں کوئی دو لاکھ افراد کا تعلق علاقہ تلنگانہ سے ہے اور ظاہر ہے خلیجی ممالک میں رہنے والوں کے ذہن میں اپنی علحدہ ریاست تلنگانہ کا ایک تصور ہے اور وہ تصور وطن میں رہنے والوں سے کچھ مختلف ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک میں رہنے والے این آر آئیز میں بھی علاقہ تلنگانہ سے تعلق رکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ مگر خلیجی ممالک کے این آر آئیز کا معاملہ دیگر ممالک کے این آر آئیز سے مختلف ہے۔ خلیجی ممالک میںرہنے والے این آر آئیز اپنے وطن سے بہت زیادہ جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہیں کہ وہ صرف جسمانی طور پر ملک سے باہر ہیں۔ ان کا ذہن و قلب وطن میں ہوتا ہے۔ وہ دن رات اپنے وطن کے بارے میں سوچتے اور اسی کی باتیں کرتے ہیں۔ وطن کے ٹی وی چینلز دیکھتے اور وطن سے آنے والے اخبار پڑھتے ہیں اور whats-up کے ذریعہ پل پل کی خبر رکھتے ہیں۔ لہذا ان کے ذہن میں بھی اپنی نئی ریاست تلنگانہ کا ایک نقشہ ہے ۔ تلنگانہ این آر آئیز اپنی ریاست میں جن چیزوں کی مانگ کرتے ہیں یا خواہش رکھتے ہیں اس فہرست میں پہلی چیز امن و امان ہے کیونکہ خلیجی این آر آئیز کی اکثریت یہاں تنہا رہتی ہے۔ ان کے سارے متعلقین وطن میں رہتے ہیں۔ ان کی سلامتی اور امن و امان کے ماحول میں ان کی زندگی این آر آئیز کی پہلی ترجیح ہوتی ہے ۔ این آر آئیز ایک ایسی ریاست کے خواہاں ہیں جو دنگے فساد سے پاک ہو۔ علاقہ تلنگانہ نے پچھڑے ہوئے طبقات کے ساتھ انصاف کی خاطر ا پنی جدوجہد کا آغاز کیا تھا اور اس جدوجہد میں بلا لحاظ مذہب و ملت سب نے اپنا حصہ ادا کیا تھا ۔

لہذا آج جب یہ ریاست ہمیں ملی ہے تو یہاں کسی بنیاد پر بھید بھاؤ اور ذات پات کے نام پر کوئی تفریق نہیں ہونی چاہئے ۔ رہنے بسنے ، تعلیم اور ملازمت وغیرہ حاصل کرنے کے سب کو مساوی مواقع میسر آنے چاہئیں۔ علحدہ ریاست کی مانگ کے بنیادی نکات یہی تھے جن کی اساس پر ٹی آر ایس کی جدوجہد کھڑی ہوئی تھی اور ٹی آر ایس ان نکات کو بار بار دہراتی بھی رہی ہے ۔ سیاسی پیشن گوئیوں کے مطابق ٹی آر ا یس ہی الیکشن میں سب سے بڑی سیاسی پارٹی بن کر ابھرے گی ۔ لہذا ٹی آر ایس کو اپنے عہد و پیمان اور وعدوں سے منحرف ہونے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے ۔ اگر پچھڑے ہوئے طبقات اور اقلیتوں کو انصاف نہ ملا تو پھر علحدہ ریاست کے حصول کیلئے کی گئی جدوجہد بے معنی ہوجائے گی ۔ ا یک پرانی کہاوت ہے’’آسمان سے گرے کھجور میں اٹکے‘‘ ہمارے ساتھ کچھ ایسا نہ ہوجائے ۔ ریاستی انتخابات کے بعد برسر اقتدار پار ٹی اگر علاقہ کے عوام کی توقعات اور علحدہ ریاست کے حصول کی روح پر عمل آور نہ رہی تو پھر اہل تلنگانہ جو پچھلی نصف صدی سے ظلم و ناانصافی کی جاچکی میں پستے رہے ہیں۔ ان کے حالات وہی رہیں گے ۔ صرف ان کے آقا بدل جائیں گے لیکن یاد رہے کہ مظلوموں کا مسیحا بن کر برسوں پہلے جو مخدوم کا سپاہی اٹھا تھا وہ پھر کھڑا ہوسکتا ہے اور تلنگن پھر اپنے آنچ کو پرچم بناسکتی ہے اور پھر ظالم اقتدار کی دھجیاں اڑا سکتی ہے۔ بہتر ہے کہ اس مسیحا یا سپاہی کو اب آرام کرنے دیا جائے اور تلنگن کو انقلابی نہیں بلکہ فصلِ بہار کے گیت گانے دیا جائے۔
knwasif@yahoo.com