رام پنیانی
پرگیہ ٹھاکر جو مالیگاؤں دھماکہ کیس کی ملزمہ اور صحت کی بنیاد پر ضمانت پر رہا ہے، وہ ناتھو رام گوڈسے کے بارے میں موجودہ ہنگامہ کا مرکزی کردار ہے۔ اس معاملے کی شروعات بھوپال لوک سبھا حلقہ کیلئے اُس کے کاغذات نامزدگی کے ادخال سے ہوتی ہے۔ ایسی تنقید ہونے لگی کہ کس طرح دہشت گردانہ حرکت کی ملزمہ انتخابات میں امیدوار ہوسکتی ہے۔ نریندر مودی اس تنازعہ میں کود پڑے اور بیان کرنے لگے کہ پرگیہ کو دہشت گرد قرار دینا پانچ ہزار سال قدیم شاندار تہذیب کی توہین ہے اور یہ کہ کبھی کوئی دہشت گردانہ عمل میں ملوث نہیں ہوا ہے۔ اُن کے اور اُن کی پارٹی کے مطابق 2006-08ء کے درمیان پیش آئے سلسلہ وار دھماکوں کے تناظر میں ہندو دہشت گردی اور زعفرانی دہشت گردی کی اصطلاح کا اختراع ہوا جو ہندوؤں کو بدنام کرنے کیلئے کیا گیا۔
اس سارے تنازعہ میں اگلی کڑی نامور فلم اسٹار سے سیاستدان بننے والے کمل ہاسن کی طرف سے ظاہر ہوئی، جنھوں نے بیان کیا کہ ناتھورام گوڈسے آزاد ہندوستان کا پہلا دہشت گرد تھا۔ جب اُن کے اس بیان کیلئے لفظی حملے ہوئے، ایک جلسہ عام میں چپلیں بھی پھینکی گئیں، انھوں نے مزید تشریح کردی کہ ہر مذہب میں اس کے اپنے چند دہشت گرد ہوتے ہیں۔ بی جے پی میں نئی نئی شامل پرگیہ ٹھاکر نے اپنی دلی بات زبان پر لاتے ہوئے بیان کیا کہ ناتھو رام گوڈسے قوم پرست تھا، قوم پرست ہے اور قوم پرست رہے گا۔ اس بیان نے بی جے پی میں ہلچل مچا دی اور اسے معذرت خواہی کیلئے کہا گیا۔ پرگیہ واحد نہیں جو گوڈسے کی تعریف میں آگے آئی اور اپنے حقیقی اور گہرے نظریاتی موقف کا اظہار کیا۔ اننت کمار ہیگڈے موجودہ مرکزی وزیر جو دستور میں تبدیلی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں، انھوں نے بیان کیا کہ گوڈسے کے تعلق سے معذرت خواہانہ موقف اختیار کرنے کی اب کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ایک اور کرناٹک بی جے پی لیڈر نلین کمار کتیل بھی گوڈسے کے دفاع میں سامنے آئے۔ ان سب کے بعد بی جے پی مدھیہ پردیش میڈیا انچارج انیل مومترا نے کہا کہ مہاتما گاندھی بابائے پاکستان تھے۔ بی جے پی نے سومترا کو معطل کیا ہے جبکہ دیگر سے معذرت خواہی کیلئے کہتے ہوئے ان کے خلاف نوٹسیں جاری کی ہیں۔ نریندر مودی مکر و فریب کو کہیں پیچھے چھوڑ گئے جب انھوں نے کہا کہ یوں تو پرگیہ نے معذرت خواہی کرلی، لیکن وہ اسے کبھی معاف نہیں کرپائیں گے! پرگیہ کی اس طرح سرزنش تو ہوئی مگر وہ بدستور بھوپال حلقہ سے بی جے پی امیدوار ہے۔ کیا بی جے پی واقعی گوڈسے کی تائید و حمایت کرنے والوں کے خلاف کارروائی میں سنجیدہ ہے؟ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ گوڈسے کو حق بجانب ٹھہرایا جارہا ہے۔ ماضی میں کئی مرتبہ بی جے پی ۔ آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والے قوم پرستوں نے گوڈسے کی تعریف میں اظہار خیال کیا ہے۔ شاید بعض قارئین کو یاد ہوگا کہ آر ایس ایس سرسنگھ چالک راجیندر سنگھ عرف راجو بھیا نے بیان کیا تھا کہ گوڈسے کے ارادے درست تھے، وہ اکھنڈ بھارت (وسیع تر ہندوستان جس میں افغانستان، میانمار، سری لنکا وغیرہ شامل ہوں) پر یقین رکھتا تھا۔ پھر ہم نے موجودہ بی جے پی ایم پی ساکشی مہاراج کو بھی سنا ہے، جنھیں دوبارہ الیکشن لڑنے کیلئے پارٹی ٹکٹ ملا، انھوں نے گوڈسے کو نیشنلسٹ قرار دیا ہے۔ اس طرح کے خیالات رکھنے کے باوجود وہ بی جے پی کا حصہ ہیں۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران گوڈسے کی تعریف و ستائش، میرٹھ میں اُس کے نام سے مندر، اس کی یادگار اور مجسمے بنانے کیلئے اراضی کے مطالبے ملک میں زور پکڑے جارہے ہیں۔
پھر بھی یہ نکتہ برقرار ہے کہ گوڈسے کو حق بجانب ٹھہرانے والے تمام لوگ اپنی دلی بات کھلے عام نہیں کہہ سکتے ہیں۔ یہ ابھی بی جے پی کیلئے ’سیاسی طور پر درست نہیں‘ ہے۔ فی الحال بی جے پی کا یہی موقف ہے کہ گوڈسے کی قوم پرستی کی داخلی طور پر تائید کی جائے مگر کھلے عام کچھ نہ کہا جائے۔ اس کی وجہ ہے کہ گاندھی جی پر اس ملک میں تنقید نہیں کی جاسکتی اور انھیں نظرانداز کرتے ہوئے آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔ جدید ہندوستان بنانے میں اُن کا حصہ؛ مذہب، علاقہ اور زبان سے قطع نظر بھائی چارہ پیدا کرنے میں اُن کا مرکزی کردار اس قدر عمیق ہے کہ نظرانداز نہیں کرسکتے۔ جو راہ انھوں نے دکھائی، وہ عدم تشدد پر مبنی ہے جس نے نہ صرف ملک بلکہ ساری دنیا کی توجہ حاصل کی ہے۔ چھوت چھات کے خلاف اُن کی مہم کا زیادہ گہرا اثر ہے۔ اس ضمن میں ان کا عمل اسی طرح کا ہے جو بی آر امبیڈکر چاہتے تھے۔ فرقہ وارانہ تشدد کے ماحول میں ’ون مین آرمی‘ کے طور پر اُن کی سرگرمی ہندوستان اور دنیا کی تاریخ میں سنگ میل رہی ہے!
لہٰذا، بی جے پی کو ہندو قوم پرستی پر عمل پیرا رہتے ہوئے مہاتما گاندھی کے احترام کا مظاہرہ بھی کرنا ہوگا۔ بڑی سہولت سے اُس نے انھیں ’سوچھ ابھیان‘ (صفائی مہم) کی علامت بنادیا، مگر گاندھی جی کے ہندو مسلم اتحاد کے مرکزی مشن اور ان کی ہندوستانی قوم پرستی کی راہ کو نظرانداز کردیا۔ ہمیں جو تضاد دیکھنے میں آرہا ہے وہ انتخابی میدان میں بی جے پی کے تضادات اور اس کے طویل مدتی مقاصد ہیں۔ انتخابی میدان میں کامیابی کیلئے بی جے پی کی مجبوری ہے کہ گاندھی جی کے موقف کی تائید کریں جبکہ اس کے تمام بڑے قائدین اور ورکرز کی تربیت اس کے شاکھاؤں اور ٹریننگ کیمپس میں ہندو قوم پرستی کے اقدار کے ساتھ ہوئی ہے۔ اپنے ٹریننگ کے نمونہ میں ساورکر جو ہندوتوا ہندو قوم پرستی کی اختراع کرنے والوں میں سے ہے، اس کا فخریہ مقام ہے جبکہ گاندھی جی کو مسلمانوں کی خوشامد کرنے والا اور ملک کی تقسیم کے ذمے داروں میں سے بتایا گیا ہے۔ گوڈسے ، ساورکر کا پُرجوش حامی تھا۔ ساورکر بھی گوڈسے کے ساتھ قتل کا ملزم رہا لیکن کوئی تائیدی ثبوت نہ ہونے پر سزا سے بچ گیا۔
ہندوتوا نظریہ کے اکثر حامیوں میں ساورکر۔ گوڈسے جوڑی کو آئیڈیل سمجھا جاتا ہے۔ اسی سے وضاحت ہوجاتی ہے کہ ساکشی مہاراج، اننت کمار ہیگڈے اور پرگیہ ٹھاکر جیسے قائدین کے فطری بیانات سامنے آتے ہیں۔ بی جے پی ان کے خلاف ظاہر طور پر بولنے پر مجبور ہے، اور اس کو انتخابی اور عالمی مجبوریوں کے آگے جھکنا پڑتا ہے، جبکہ انھیں پارٹی میں مختلف حیثیت سے پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
ram.puniyani@gmail.com