تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
اسمبلی انتخابات سے قبل ریاست تلنگانہ کا انتخابی ماحول ذہنی شیطانوں کے مجمعوں کی شناخت کا موقع دے رہا ہے ۔ رائے دہندوں کے اردگرد رقص کرنے والے بدترین گروہ ریاستی سطح سے لے کر قومی سطح تک اپنی بالا دستی چاہتے ہیں ۔ تلنگانہ میں کس پارٹی کا چہرہ روشن ہونے والا ہے اور کس پارٹی کا چہرہ کالا ہوگا ۔ یہ جمہوری طرز کے انتخابات سے پتہ چلے گا ۔ بعض پارٹیاں اپنے ہاتھ میں کالا برش پکڑے کھڑی ہیں جو اس ریاست کے سیکولر مزاج کے چہرے پر زعفرانی رنگ ملنے کی کوشش کررہی ہیں ۔ ٹی آر ایس کی کارکردگی اس کے گھات میں ہے ۔ اگر عوام کو ہوش آجاتا ہے تو یہ انتخابات کا ڈائیناسور ٹی آر ایس کو کھا جائے گا یا ٹی آر ایس اپوزیشن کی جانب اس ڈائیناسور کا رخ کردے گی ۔ صدر ٹی آر ایس چندر شیکھر راؤ نے مرکز کی مودی حکومت سے اچھی دوستی استوار کرلی ہے ۔ اس سے تلنگانہ کے لیے فنڈس ملے یا نہ ملے ٹی آر ایس کو ایک مضبوط سہارا ضرور ملے گا ۔ کل تک ٹی آر ایس نے این ڈی اے حکومت کو اپنی تنقیدوں کے نشانہ پر رکھا تھا ۔ ہر موقع پر این ڈی اے کی نکتہ چینی کی جاتی تھی لیکن جب سے کے سی آر کو اپنی ریاست کے عوام کا مزاج معلوم ہوا ہے وہ بی جے پی سے قربت بڑھا رہے ہیں ۔ اس دوستی کو ناکام بنانے کا اختیار تو عوام کو ہی ہے۔ اسمبلی تحلیل کرنے کے بعد کے سی آر کو ایک کے بعد ایک ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ ان کے لیے ایک بڑی بُری ناکامی دھرنا چوک پر پابندی کو ہائی کورٹ کی جانب سے ہٹالینا ہے ۔ شہر حیدرآباد میں دھرنا چوک برسوں سے سیاسی پارٹیوں کا احتجاجی مقام رہا ہے لیکن ٹی آر ایس حکومت نے اپنے خلاف کسی بھی آواز کو اٹھنے سے روکنے کے لیے دھرنا چوک کو بند کردیا تھا ۔ حیدرآباد ہائی کورٹ نے اس دھرنا چوک کو بند کردینے ٹی آر ایس حکومت کے فیصلہ کو کالعدم قرار دیا ۔ اندرا پارک کا دھرنا چوک شہر کا مقبول مقام ہے ۔ عدالت نے ریاستی حکومت پر شدید برہمی ظاہر کی کہ اندرا پارک برسوں سے موجود ہے ۔ یہاں عوام کی موجودگی بھی برسوں سے جاری ہے ۔ اس علاقہ میں رہائشی مکانات بعد میں تعمیر ہوئے ہیں ۔ یہ ہندوستان ہے آپ عوام کی احتجاجی آواز کو دبا نہیں سکتے ۔ حکومت اپنے خلاف عوام کی احتجاجی آواز کو سننے کے لیے تیار نہیں ہے تو وہ خود کہیں دور چلی جائے احتجاجی عوام کو شہر سے دور کرنے سے اصل مسئلہ حل نہیں ہوگا ۔ دستور ہند نے اس ملک کے شہریوں کو اظہار خیال کی آزادی دی ہے ۔ حکومت اس آزادی کو سلب نہیں کرسکتی ۔ دھرنا چوک برسوں سے کئی سیاسی پارٹیوں کا پسندیدہ مقام رہا ہے ۔ عوامی تنظیمیں ، طلباء تنظیمیں ، سماجی گروپس ، ملازمین ، یونین اور دیگر ادارے گذشتہ دو دہوں سے دھرنا چوک پر جمع ہو کر حکومت کے خلاف آواز اٹھا کر اپنے مسائل پیش کرتے رہے ہیں ۔ گذشتہ سال ہی چیف منسٹر کی حیثیت سے کے سی آر نے دھرنا چوک کے مقام کو شہر کے مضافات میں منتقل کرنے پولیس کی کارروائی کی مدافعت کی تھی اور کہا تھا کہ احتجاج کے نام پر بعض پارٹیاں دانستہ طور پر مسائل پیدا کررہی ہیں جب کہ کے سی آر کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ انہوں نے خود تلنگانہ تحریک کے موقع پر دھرنا چوک کا کئی مرتبہ استعمال کیا تھا ۔ سیاسی لیڈر کی انا کی خراب شکلیں انسانیت کی بڑی اذیتوں میں سے ایک ہیں ۔ جس کے پاس اختیار ہوتا ہے وہ خود کو طاقتور اور عقل کل سمجھتا ہے ۔ 2014 کے انتخابات میں پورے آب و تاب کے ساتھ اقتدار حاصل کرنے والے لیڈر نے یہ نہیں کہا تھا کہ وہ ایک دن فرقہ پرستوں سے ہاتھ ملا لیں گے ۔ وہ تلنگانہ عوام کے درمیان رہ کر جنگلیوں اور جاہلوں والی سیاست نہیں کرنا چاہتے لیکن انہوں نے اب یہ دکھا دیا ہے کہ کس قسم کی سیاست کرنے جارہے ہیں ۔ حقیقت کو مان لینا زیادہ بہتر ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹی آر ایس نے بی جے پی سے انتخابی ساجھے داری کرلی ہے ۔ اب اس ریاست کو سنبھال کر رکھنے کی بات آرہی ہے جب کہ مرکز سے ہاتھ ملانے کے بعد ریاست کو سنبھالنے کا سوال نازک ہوچکا ہے ۔ کیوں کہ بی جے پی نے تلنگانہ میں سقوط حیدرآباد کی تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہوئے 17 ستمبر 1948 کے واقعہ میں سردار ولبھ بھائی پٹیل کو ہیرو بتاکر ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ کے سی آر کو عصر حاضر کا نظام قرار دے کر بی جے پی نے ظاہری طور پر ریاست کے پارٹی کیڈرس کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ وہ ٹی آر ایس کی مخالف ہے جب کہ بی جے پی نے ایک طرف ٹی آر ایس کو دوسری طرف مجلس کو نشانہ بنایا ہے ۔ مجلس کو عصر حاضر کے رضاکار قرار دیا ہے کیوں کہ مجلس کے رکن اسمبلی نے چیف منسٹر کے عہدہ کی خواہش ظاہر کی تھی یعنی تلنگانہ میں بھی پڑوسی ریاست کرناٹک کی کمارا سوامی حکومت کا احیاء ہوسکتا ہے تو چھوٹی جماعت کو اقتدار مل جائے گا اور مجلس کا لیڈر چیف منسٹر بن جائے گا ۔ کے سی آر کی تائید کرنے کا مقصد یہی ہے کہ اگر معلق اسمبلی وجود میں آتی ہے تو مجلس کو اقتدار حاصل کرنے کا موقع ملے گا اور کے سی آر اس اتحاد کی حمایت کرتے ہوئے کرناٹک کی طرح چھوٹی جماعت کی تائید کریں گے ۔ کرناٹک میں جنتادل ایس کی تائید کرتے ہوئے کانگریس نے کمارا سوامی کو چیف منسٹر بننے میں مدد کی تھی ۔ یہی طریقہ تلنگانہ میں بھی دہرایا جاسکتا ہے ۔ اس لیے بی جے پی کو یہ کہنے کا موقع مل گیا ہے کہ تلنگانہ میں پھر سے رضاکاروں کا دور آئے گا ۔ اپنے ووٹ مضبوط کرنے کے لیے بی جے پی عصر حاضر کے رائے دہندوں کو تلنگانہ یا حیدرآباد کے ماضی میں گھسیٹ کر لے جارہی ہے ۔ کے چندر شیکھر راؤ نے تلنگانہ حاصل کرنے کے بعد حضور نظام کے اس مشہور قول کو اختیار کیا تھا کہ ہندو اور مسلمان میری دو آنکھیں ہیں ۔ کے سی آر نے جب سے ہندو مسلم کو اپنی دو آنکھیں قرار دیا ہے تب سے اپوزیشن کانگریس ان پر نکتہ چینی کررہی ہے کہ یہ ہندو اور مسلم کی دو آنکھیں دراصل مجلس اور بی جے پی ہیں ۔ اس وقت کے سی آر کے دو آنکھیں یہی دو پارٹیاں بنی ہوئی ہیں ۔ بہر حال تلنگانہ میں اسمبلی انتخابات کی تواریخ کا اعلان ہونے تک الزامات کی سیاست بہت گرم ہوتے رہے گی ۔ تلنگانہ کے عوام بہت جذباتی ہیں اور جلد بازی کا بھی مظاہرہ کرتے ہیں وہ اس مرتبہ تبدیلی کے خواب کی تعبیر چاہتے ہیں تو انہیں بہت کچھ کرنا پڑے گا ۔۔
kbaig92@gmail.com