کے سی آر کی بصیرت پر سوالیہ نشان

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری      خیر اللہ بیگ
تلنگانہ کا محنت کش طبقہ مزدور، کسان اس ریاست کا اثاثہ ہیں۔ حکمرا ں طبقہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ ان  کے روزگار  کے دروازے بند نہیں ہونے چاہئیں، لیکن یہ کیا اقتدار کے ڈھائی سال میں ہی کے سی آر حکومت نے مزدوروں، محنت کشوں اور کسانوں کی روٹی روزی کے دروازے بند کرنے والی پالیسیوں پر عمل شروع کیا ہے۔ تلنگانہ حکومت کی خرابیوں کا تذکرہ ان دنوں میرے کالم میں ہی نہیں ہے بلکہ اس ریاست کی کئی ثقافتی اور سماجی تنظیموں کی زبانی بھی حکومت کی خرابیاں بیان ہونی شروع ہوگئی ہیں۔ چائے کی پیالی میں طوفان جب دیکھا گیا تب ملنا ساگر پراجکٹ کے لئے کسانوں کی اراضی دھوکے سے ہڑپنے اور اس اراضی کو رئیل اسٹیٹ کیلئے استعمال کرنے کی سازش کا انکشاف ہوا۔ حکمراں پارٹی تلنگانہ راشٹرا سمیتی پر اقتدار سے قبل عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل میں ناکامی کا الزام شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی تقاریر سے مدہوش ہوکر تلنگانہ عوام نے انہیں ووٹ دیا تھا مگر اب وہی لوگ کہہ رہے ہیں کہ کے سی آر نے ہمیں دھوکہ دیا ہے اور نئی ریاست بن جانے کے بعد وہ غریبوں کو بھول چکے ہیں۔ کئی ثقافتی تنظیموں کے لیڈروں نے چیف منسٹر کی خرابیوں کی نشاندہی کرنا شروع کیا ہے۔
تلنگانہ سے قبل شہر حیدرآباد اور تلنگانہ کے اضلاع کی کیفیت کیا تھی، اور مابعد تلنگانہ کی حالت کیسی ہے یہ ہر روز مشاہدہ ہورہا ہے۔ ریاست کے ایسے علاقے حکومت کی نظر میں ہیں جہاں سے دولت کمائی جاتی ہے، جن کے پاس دولت ہے ان کو مصروف رکھا جاسکتا ہے۔ ریاست کی اراضیات اور آبی وسائل کے علاقے ان دنوں ٹی آر ایس حکومت کیلئے پسندیدہ مقامات بنے ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ کے سی آر غریب کی ترقی کے اپنے آئیڈیا کو بالائے طاق رکھ کر فنڈس خرچ کرنے والی لابی کو ترقی دینے کی پالیسی پر عمل کرنے پر بضد نظر آرہے ہیں۔ جی او 123 کی پرزور وکالت کی جارہی ہے جبکہ حصول اراضی قانون 2013 میں اراضی حاصل کرنے کا بہترین راستہ بنایا گیا ہے لیکن ٹی آر ایس حکومت کے کئی وزراء کو تلنگانہ کے دیہاتوں میں پہنچ کر جی او 123 کے بارے میں عوام کو گمراہ کرتے دیکھا جارہا ہے۔ کے سی آر کے کل تک قریبی سمجھے جانے والے لوگ آج ان کی پالیسیوں سے ناراض ہوکر دور ہوگئے ہیں۔سال 1990 میں کے سی آر کے قریبی ساتھیوں کو آج کھلے عام کے سی آر پر تنقیدیں کرتے دیکھا جارہا ہے۔

حال ہی میں سی پی آئی ایم کی پولیٹ بیورو رکن برندا کرت نے وزیر اعظم نریندر مودی پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ مختلف ریاستوں کے چیف منسٹروں کی حوصلہ افزائی کررہے ہیںکہ حصول اراضی قانون میں منصفانہ معاوضہ دینے اور شفافیت لانے کی جو بات کہی گئی ہے اس کو نظرانداز کردیاجائے۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ بھی جب سے وزیر اعظم مودی سے ملے ہیں اپنی ریاست کے کسانوں اور غریب عوام کو ترغیب دے رہے ہیں کہ وہ اپنی اراضی حکومت کے حوالے کردیں۔ بعض معاملات میں تو دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ حصول اراضی قانون میں کسانوں، غریبوں اور بے زمین افراد کا تحفظ کیا گیا ہے لیکن تلنگانہ حکومت ریاست میں مختلف پراجکٹس کیلئے جی او 123 کے تحت زبردستی اراضی حاصل کررہی ہے۔ مرکز میں نریندر مودی نے جھوٹ بول کر عوام کو بے وقوف بنایا اور تلنگانہ میں ان کا سایہ بن کر چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ رئیل اسٹیٹ مافیا کیلئے کام کررہے ہیں۔ ہندوستان کا پردھان سیوک کہہ کر مودی عوام کی خدمت کرنے کے بجائے ہندوستان کے کارپوریٹس گھرانوں کے سیوک بن گئے ہیں اور تلنگانہ حکومت میں چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی قیادت میں مودی کے نمائندہ کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔ اس طرح کی کھلی غلطیوں کو دیکھنے کے بعد عوام کے اندر غم و غصہ ضرور پیدا ہوا ہوگا۔ ٹی آر ایس نے شروع میں تو تنہا طور پر کسی پارٹی کا ساتھ لئے بغیر ریاست کا اقتدار حاصل کیا۔ اگرچیکہ چیف منسٹر نے مرکز میں بی جے پی حکومت اور وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرلئے لیکن مرکز نے تلنگانہ کے معاملہ میں کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھائی، مگر اب تازہ صورتحال مختلف ہے۔

چیف منسٹردہلی نے حال ہی میں ریاستی چیف منسٹروں کے ساتھ بین ریاستی کونسل میں شرکت کی اور وزیر اعظم سے ملاقات کرکے آئے ہیں ان کے طرزِ عمل میں تبدیلی دیکھی جارہی ہے۔ اب بی جے پی اور ٹی آر ایس ایک جان دو قالب دکھائی دینے لگے ہیں اس لئے وزیر اعظم بننے کے ڈھائی سال بعد مودی نے تلنگانہ کا دورہ کرنے کا اچانک فیصلہ کیاہے۔ وہ7اگسٹ کو تلنگانہ میںمختلف پراجکٹس کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ آخر اچانک یہ تبدیلی کس طرح ہوئی، گذشتہ دنوں مرکزی وزیر ارون جیٹلی بھی یہاں آئے تو انہوں نے بھی تلنگانہ حکومت کے سربراہوں خاصکر چیف منسٹر کے فرزند کے ٹی آر سے گرمجوشی کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کافی خوشی کا اظہار کیا تھا۔ بھونگیر میں یونیورسٹی کے افتتاح کے موقع پر جیٹلی اور کے ٹی آر میں کافی گہری بات چیت ہوئی ہے اور دونوں نے ایک دوسرے کی زبردست ستائش بھی کی۔ وزیر فینانس کی حیثیت سے ارون جیٹلی کا یہ کہنا دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ انہیں ریاست کی ترقی دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ہے۔ انہوں نے حکومت تلنگانہ کے اقدامات اور ترقیاتی منصوبوں کی بھی زبردست ستائش کی اور بعد ازاں ارون جیٹلی نے کے سی آر سے ان کی رہائش گاہ پر بھی ملاقات کی ، ان کے ہمراہ ریاست کے سینئر بی جے پی قائدین بھی تھے۔

ارون جیٹلی کا چیف منسٹر کی رہائش گاہ پہونچنا اور 7اگسٹ کو وزیر اعظم کے تلنگانہ دورہ کا پروگرام یہ ظاہر کرتا ہے کہ بہت جلد بی جے پی اور ٹی آر ایس ایک جان دو قالب ہوں گے۔ تلنگانہ میں اپنی بنیادیں مضبوط کرنے کے لئے کوشاں بی جے پی کیلئے ٹی آر ایس ہی ایک اہم کیمیا ہے۔ حصول اراضی قانون کے من مانی طریقہ سے اطلاق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ٹی آر ایس حکومت کس کے اشاروں پر کام کررہی ہے، اس تلنگانہ میں کے سی آر سے بھی شاطر لیڈر گذرے ہیں، ان شاطر لیڈروں میں سابق چیف منسٹر وائی ایس راج شیکھر ریڈی تھے جنہوں نے بھی اپنے جل یگنم پراجکٹ کے تحت مختلف پراجکٹس کیلئے تلنگانہ میں 6 لاکھ ایکر اراضی حاصل کی تھی اور اس حصول اراضی میں وہ کامیاب ہوئے لیکن کسی نے بھی احتجاج نہیں کیا تھا۔ کسانوں کا ایک قطرہ خون بہائے بغیر راج شیکھر ریڈی نے اراضی حاصل کی تھی۔ صرف پلی چنتلا پراجکٹ کیلئے وائی ایس آر حکومت نے کسانوں کو متاثر کئے بغیر ہزاروں ایکر اراضی حاصل کی مگر کسی بھی پراجکٹ کو شروع نہیں کیا۔ البتہ انہوں نے عوام کو مطمئن کرانے میں کامیابی حاصل کرلی تھی کہ وہ متاثرہ افراد کی بازآبادکاری ضرور کریں گے، یہی ہُنر کے سی آر میں دکھائی نہیں دیتا، ان کے بھی خود ساختہ پراجکٹس ہیں جن میں کوئی معقولیت نظر نہیں آتی اور وہ عوام کو مطمئن کرانے میں بھی کامیاب نہیں ہورہے ہیں۔ تلنگانہ سے قبل وہ عوام کو چٹکی بجاکر مطمئن کرالیتے تھے اب ان کا سحر ٹوٹ رہا ہے، اس کی وجہ کے سی آر سے عوام کی اندر ہی اندر ناراضگی ہے۔ اس سے پہلے کہ عوام کی ناراضگی میں شدت پیدا ہوجائے ، کے سی آر کو اپنے منصوبوں اور پراجکٹس کی عمل آوری میں دیانتداری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ان کے خلاف دیہی عوام کی ناراضگی اور برہمی کے ساتھ سڑکوں پر نکل آنا فال نیک نہیں ہے ۔

جب عوام سڑکوں پر آتے ہیں تو کیا ہوتا ہے اس سے خود کے سی آر واقف ہوں گے۔ ملنا ساگر آبپاشی پراجکٹ کیلئے9,000 کروڑ روپئے کی لاگت آئے گی اس سے میدک، نظام آباد، نلگنڈہ اور رنگاریڈی اضلاع میں 18لاکھ ایکر اراضی سیراب ہوسکے گی۔ اس کے عوض تقریباً 14مواضعات زیر آب آجائیں گے جس کے بعد ہی یہ پراجکٹ اپنی درست شکل اختیار کرسکے گا۔ غریبوں کا گھر اُجاڑ کر پراجکٹ بنانے کا خمیازہ کس حد تک بھگتنا پڑیگا ابھی اس کا اندازہ نہیں ہورہا ہے کیونکہ  متاثرہ عوام گذشتہ 50 دن سے احتجاج کررہے تھے۔ اس احتجاج کو اپوزیشن پارٹیوں نے ہائی جیک کرلیا ہے۔ کے سی آر نے اپوزیشن کو بیٹھے بٹھائے گرم موضوع دے دیا ہے تو اب آئندہ کیا صورتحال ہوگی یہ کے سی آر حکومت کیلئے دیدنی ہوگی، اس کے بعد گھنٹی بج جائے گی۔
kbaig92gmail.com