تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
سال 2009 کے دھرنے و احتجاجی مظاہروں سے لے کر 2014 کے تلنگانہ اسمبلی انتخابات تک یا چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے حالیہ دورہ آندھرا پردیش اور رائلسیما کی سیاست پر دلچسپی کے اظہار سے یہ توثیق ہونی چاہئے کہ کے چندر شیکھر راؤ کے اندر ایک اور اقتدار حاصل کرنے کی خواہش جاگ رہی ہے ۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے گذشتہ اتوار کو آندھرا پردیش کی وزیر پریٹالہ سنیتا کے فرزند سری رام کی شادی میں شرکت کے لیے ضلع اننت پور گئے تھے ۔ جہاں ان کی پرانی یادیں تازہ ہوگئیں کیوں کہ سال 1995 اور 1999 کے درمیان جب وہ غیر منقسم آندھرا پردیش میں تلگو دیشم حکومت کا حصہ تھے تو انہیں ضلع اننت پور کا انچارج بنایا گیا تھا ۔ تلگو دیشم سے علحدہ ہو کر تلنگانہ راشٹرا سمیتی قائم کرنے سے قبل تک وہ تلگو دیشم کے ایک وفادار لیڈر تھے اور ضلع اننت پور اور رائلسیما کی سیاست سے وہ اچھی طرح واقف تھے خاص کر رائلسیما کے لیڈر پریٹالہ روی سے ان کی گہری دوستی تھی ۔ پریٹالہ روی کو 24 جنوری 2005 کو ہلاک کیا گیا تھا ۔ چندر شیکھر راؤ کے دورہ رائلسیما سے سمجھا جارہا ہے کہ انہیں حیدرآباد اور تلنگانہ ریاست میں موجودہ طاقتور کما طبقہ کے عوام کی زبردست تائید حاصل ہوگی ۔ چیف منسٹر تلنگانہ کا آندھرا پردیش کے اس پسماندہ ضلع میں زبردست خیر مقدم کیا گیا ۔ چیف منسٹر آندھرا پردیش این چندرا بابو نائیڈو کو بھی کے چندر شیکھر راؤ کے استقبال کے لیے کچھ دیر تک انتظار کرنا پڑا تھا ۔ پریٹالہ روی کے فرزند کی شادی میں شرکت اور نئے جوڑے کو مبارکباد دینے کے فوری بعد چندر شیکھر راؤ نے رائلسیما کی سیاسی صورتحال پر مقامی قائدین سے تبادلہ خیال کیا ۔ تلنگانہ میں مقبولیت کے بعد آندھرا پردیش خاص کر رائلسیما میں اپنی شہرت کا مشاہدہ کرتے ہوئے شائد کے چندر شیکھر راؤ کے دل میں سیاسی خواہشوں کا طوفان ٹھاٹھیں مارنے لگا ہو ۔ تلنگانہ سے باہر اپنی پارٹی کی سیاسی ساکھ کو مضبوط بنانے کی ان کی حکمت عملی کے بارے میں ابھی واضح طور پر کچھ کہا نہیں جاسکتا ، البتہ وہ تلنگانہ میں ٹی آر ایس کی قوت کو آزمانے کے لیے سنگارینی کالریز یونین انتخاب میں ٹی آر ایس کی حمایت والی یونین کی کامیابی کو یقینی بنانا چاہتے ہیں تاکہ تلنگانہ میں 2019 کے اسمبلی انتخابات سے قبل ٹی آر ایس کی مقبولیت اور عوامی تائید کی آزمائش یا امتحان سے گذر سکیں ۔ اگر سنگارینی کالریز یونین انتخابات میں ٹی آر ایس کو خاص کامیابی نہیں ملتی ہے تو وہ نلگنڈہ لوک سبھا حلقہ کے لیے زبردستی ضمنی انتخاب کروائیں گے ۔ پارٹی کے وفادار لیڈر جی سکھیندر ریڈی کو مستعفی ہوجانے کی ہدایت دیتے ہوئے ریاست میں پارٹی کی مقبولیت کا امتحان لیں گے ۔ وہ یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ آیا ریاست کے عوام 2014 کی طرح اب بھی ٹی آر ایس کے ساتھ ہیں یا ان کا کانگریس کی جانب جھکاؤ بڑھ رہا ہے ۔ دراصل جی سکھیندر ریڈی کے 2014 کے لوک سبھا انتخاب میں کانگریس ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی تھی اور زائد از دو لاکھ ووٹ لیے تھے، بعد ازاں ٹی آر ایس میں شامل ہوئے ۔ اب انہیں چیف منسٹر کی ہدایت پر استعفیٰ دینا پڑے تو یہاں ضمنی چناؤ یقینی ہوگا ۔ کے چندر شیکھر راؤ کو یہ یقین ہے کہ ان کی پارٹی ریاست کے کسی بھی حصہ سے بھاری اکثریت کے ساتھ منتخب ہوگی ۔ تحریک تلنگانہ کی ابتداء میں انہوں نے خود اپنے سیاسی وزن کا اندازہ کرنے کے لیے لوک سبھا سے استعفیٰ دیا تھا اور حلقہ کو تبدیل کرتے ہوئے دوبارہ مقابلہ کیا تھا ۔ انہوں نے ثابت کردیا تھا کہ ریاست میں ٹی آر ایس کو زبردست مقبولیت حاصل ہے اسی طرح کا گیم پلان 2019 کے اسمبلی انتخابات کے لیے تیار کیا گیا ہے ۔ اپنے دورہ رائلسیما اور آندھرا پردیش کے نندیال اسمبلی حلقہ کے ضمنی انتخاب میں تلگو دیشم کی کامیابی سے متاثر ہو کر کے چندر شیکھر راؤ چاہتے ہیں کہ تلنگانہ میں بھی ٹی آر ایس کا سیاسی وزن معلوم کرنے ضمنی انتخاب کروایا جائے ۔ سر عام سیاسی ٹکراؤ کا میدان سجایا جائے گا ۔ ٹی آر ایس کو سربازار لانے میں کوئی پس و پیش نہیں ہے ۔ لیکن ڈر اتنا ہے کہ ٹکراؤ نے کانگریس کی ساکھ مضبوط کردی تو ٹی آر ایس پر آتش فشاں پہاڑ پھٹے گا کیوں کہ کانگریس اپنی صورت حال سنوارنے کی سعی کررہی ہے ۔ پارٹی کے کارکنوں کو پارٹی کا اطاعت شعار اور فرمانبردار بنایا جارہا ہے ۔ کانگریس پارٹی میں سیاسی بالا دستی کے حصول میں کوشاں لیڈروں کی وجہ سے اس پارٹی کو نقصانات سے دوچار ہونا پڑا ہے ۔ اب ایسا نہیں ہونا چاہئے ۔ ٹی آر ایس کو اپنی کارکردگی اور ماضی میں کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے پر دھیان دینے کے بجائے ضمنی انتخاب کے ذریعہ اپوزیشن سے ٹکرانے کا اعلان پارٹی کی سیاسی بربادی کا اعلامیہ ہی سمجھا جاسکتا ہے ۔ بیواؤں اور طلاق یافتہ ، ڈھلتی عمر کی خواتین میں فریسٹریشن پیدا ہوتا ہے یہی فریسٹریشن ٹی آر ایس قائدین میں پیدا ہوتا دکھائی دے تو پھر اسے دوبارہ اقتدار کی امید بربادی سے منسلک ہوجائے گی ۔ تلنگانہ عوام کا ہر متفقہ اعتماد آج کی اس حکومت سے اُٹھ جائے تو ایسے میں بڑی سیاسی جماعت کانگریس کا موقف مضبوط ہوگا ۔ مگر اس پارٹی کے بعض قائدین میں مفاداتی کرتوت ایسے مستحکم ہیں کہ بہت ساری خوشیاں ، ڈھیروں ہنگامے بھی موجودہ سیاسی طاقت کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گی ۔ تلنگانہ میں 2009 سے آگے سیاسی طاقت کا جاری لامتناہی سلسلہ ریاست کی نبض سے اچھی طرح واقف ہے ۔ اس حقیقت کے باوجود کانگریس قائدین کا ٹی آر ایس فیملی کے خلاف ڈھنڈورا پیٹنا اور گاندھی بھون اور میڈیا کو نقار خانہ بنانا پارٹی کے حق میں بہتر ثابت ہوسکے گا ۔ یہ وقت ہی بتائے گا ۔ فی الحال سنگارینی کالریز انتخاب پر تمام کی نظریں لگی ہوئی تھیں ۔ سری رامپور ، منڈامیری اور بیلم پلی ڈیویژنوں کے ٹریڈ یونین انتخابات حکمران پارٹی ٹی آر ایس ارکان اسمبلی کے لیے ایک کٹھن آزمائش سمجھا جارہا تھا ۔ ان ارکان اسمبلی کو ریاستی سطح کے قائدین سے ہدایت دی گئی تھی کہ وہ تلنگانہ بوگو گنی کرامیکا سنگم کو کامیاب بنانے کی ہر ممکنہ کوشش کریں ۔ پداپلی ایم پی بی سمن ، منچریال رکن اسمبلی این دیواکر راؤ ، بیلم پلی رکن اسمبلی درگم چنیا ، چنور رکن اسمبلی این روڈالو ، آصف آباد رکن اسمبلی کورا لکشمی نے اپنے اپنے حلقوں میں انتھک جدوجہد کے ساتھ مہم چلائی تھی ۔ ورکرس کی تائید حاصل کرنے کی غرض سے گھر گھر مہم میں حصہ لیا ہے ۔ اگر ان کی یہ محنت رنگ لاچکی ہے تو پھر ٹی آر ایس کو 2019 کے اسمبلی انتخابات میں کسی بھی پارٹی سے کوئی خطرہ نہیں سمجھا جائے گا ۔ مگر بدعنوانیوں کے الزامات نے ٹی آر ایس کی حمایت والی یونین کے قائدین کے خلاف ناراضگیاں بھی پائی جاتی ہیں ۔ فنڈس کا غلط استعمال اور داخلی سیاسی گروہ بندیوں کی وجہ سے TBGKS کے خلاف بھی مہم چلائی جارہی ہے مگر اپوزیشن اس میں کامیاب نہیں ہوسکے گی کیونکہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی حکمت عملی نے اپنا اثر دکھادیا ہے ۔ لہذا 2019 ء کے انتخابات کیلئے ٹی آر ایس کو تقویت حاصل ہوچکی ہے۔ اس کے باوجود اگر کانگریس کا خطرہ بڑھتا ہے تو ٹی آر ایس متبادل طریقے پر غور کرسکتی ہے۔
kbaig92@gmail.com