کے این واصف

سعودی عرب میں بسے غیر ملکی باشندوں کے اطراف گھیرا تنگ کرنے کا عمل پچھلے تین سال سے کافی سخت کردیا گیا ۔ سعودائزیشن پروگرام کے تحت غیر ملکیوں کو فارغ کرنے کا سلسلہ تو برسوں سے جاری تھا لیکن پچھلے تین سال سے نطاقات قانون کی عمل آوری کے بعد لاکھوں تارکین وطن سعودی عرب کو خیر باد کہہ کر اپنے اپنے ملک چلے گئے ،لیکن یہ وہ تارکین وطن تھے ، نوکری پیشہ تھے ۔ ویسے مقامی قانون کی رو سے یہاں آنے والا ہر غیر ملکی ملازمت کے ویزا پر ہی آتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ بعد میں وہ کسی سعودی کی کفالت میں کاروبار شروع کردے اور ایسے ہزاروں غیر ملکی ہیں جو کسی کفیل کے نام پر اپنا کاروبار چلاتے ہیں۔اس کاروبار میں سعودی کفیل کا کوئی عملی رول نہیں ہوتا۔ گوکہ اس قسم کا کاروبار سعودی قوانین کے مطابق غیر قانونی ہے ۔ کاروباری دستاویزات پر غیر ملکی کی حیثیت ایک ملازم کی ہوتی ہے جبکہ حقیقتاً وہ کاروبار کا مالک ہوتا ہے ۔ لہذا کاروبار سے ہونے والا نفع بھی وہی حاصل کرتا ہے جو ایک خطیر رقم ہوتی ہے اور ظاہر ہے وہ یہ رقم اپنے ملک روانہ کرتا ہے اور غیر ملکی اپنے سعودی کفیل کو ایک مقررہ طئے شدہ رقم ماہانہ سالانہ ادا کرتا ہے ۔

اس غیر قانونی طریقۂ کاروبار اور بھاری رقوم کا ملک سے باہر بھیجے جانے پر قدغن لگانے کیلئے حکومت کی ہدایت پر کئی سعودی بینکوں نے تنخواہ سے زیادہ مالی لین دین کرنے والے تارکین وطن کے کھاتے منجمد کرنے شروع کردئے ہیں۔ تین ماہ قبل سعودی کابینہ نے فیصلہ کر کے تمام بینکوں کو اس امر کا پابند بنایا تھا کہ وہ غیر ملکی کارکنان کے ہاتھوں میں ہونے والی تبدیلیوں اور مالی لین دین پر نظر رکھیں اور ایسے کھاتے داروں کی بابت وزارت تجارت کو مطلع کریں جن کا مالی لین دین ان کی آمدنی اور مقررہ تنخواہوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ مقامی بینکوں نے سعودی کابینہ کے اس فیصلے پر عمل درآمد کا آغاز کردیا ہے ۔ کئی تجزیہ نگاروں اور مالی معاملات پر نظر رکھنے والوں نے کہا کہ تنخواہوں سے زیادہ مالی لین دین کرنے والے تارکین کے کھاتے منجمد کرنے کا اقدام دور رس نتائج کا حامل ہوگا۔ اس کے ذریعہ ایسے تارکین وطن قانون کے شکنجے میں کس جائیں گے جو مشکوک سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ مملکت میں لاکھوں تارکین ایسے ہیں جواپنے کفیل کی اور سعودی کے نام سے اپنا کاروبار کر رہے ہیں۔ ریکارڈ پر وہ معمولی ملازم کی حیثیت رکھتے ہیں، لیکن حقیقت میں کاروبار کے مالک ہوتے ہیں۔ یہ لوگ بینکوں کے ذریعہ درآمدات و برآمدات کی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ اسی تناظر میں ترسیل زر بھی آمدنی سے بہت زیادہ بڑھ کر کرتے ہیں۔ ایک ماہر اقتصادیات کے مطابق سعودی معیشت کو کئی تجارتی سرگرمیوں پر غیر ملکیوں کی اجارہ داری سے کروڑوں ریال کا سالانہ نقصان ہورہا ہے۔ ضمیر فروش سعودی شہری اس سلسلے میں تارکین وطن کا دست و بازو بنے ہوئے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایسے تارکین وطن کے کھاتے منجمد کرنے کے اقدام سے یہ پیغام جارہا ہے کہ سعودی مالیاتی ایجنسی ساما (SAMA) اور وزارت تجارت کے اعلیٰ عہدیدار تارکین کی غیر قانونی سرگرمیوں کو کنٹرول کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ ا یک اور اقتصادی تجزیہ نگار نے کہا کہ آخری سرکاری اعداد و شمار میں بتایا گیا تھا کہ سعودیوں کے نام سے غیر قانونی کاروبار کرنے والے تارکین 236.5 ارب ریال سے کھیل رہے ہیں۔

یہ بھی پتہ چلا کہ غیر قانونی تارکین کی تعداد میں اوسط اضافہ 1.2 ملین کا ہورہا ہے۔ انہوں نے توجہ دلائی کہ سعودیوں کے نام سے غیر ملکیوں کے کاروبار کا خطرہ بڑھتا جارہا ہے ۔ یہ لوگ ریٹیل شعبہ میں بہت زیادہ پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کو کنٹرول کرنے کیلئے مزید ٹھوس اور مضبوط اقدامات کرنے ہوں گے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ مالیاتی ایجنسی ساما کو کئی تجارتی سرگرمیوں پر تارکین کی اجارہ داری ختم کرنے کیلئے ضابطہ سازی کرنی ہوگی ۔ سرکاری طور پر وزارت تجارت کو اس امر کا پابند بنایا گیا ہے کہ وہ تجارتی سرگرمیوں پر تارکین کے تسلط کو کنٹرول کرنے کیلئے تین جائزے تیار کرے ۔ ا ول تجارتی رجسٹروں کا نظام متعارف کرائے ، دوم چیمبر آف کامرس رجسٹریشن ، سوم کثیر اداروں والی کمپنیوں میں فنی خدمات کو ایک دوسرے میں ضم کرنے کی تجویز کا جائزہ لیا جائے ۔ ہدایت یہ بھی کی گئی ہے کہ یہ کام وزارت بلدیات و دیہی امور اور وزارت محنت کے ساتھ تال میل پیدا کر کے انجام دیا جائے۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ سعودی عرب کے ریٹیل کاروبار پر غیر ملکیوں کا تسلط ہے ۔ ان میں ایک بڑی تعداد ہندوستانیوں کی بھی ہے ۔ حکومت کے ان اقدامات سے ریٹیل کاروبار کرنے والوں پر کاری ضرب لگے گی۔ وہ ریٹیلرز جن کے کاروبار کا حجم بڑا ہے، وہ اپنے کاروبار کو ’’سعودی عربین جنرل انویسٹمنٹ اتھاریٹی ‘‘ کے تحت لائسنس حاصل کر کے بچاسکتے ہیں، مگر چھوٹے ریٹیلرز جن کی تعداد بہت زیادہ ہے، ان کے آگے بظاہر بچنے کا کوئی راستہ نہیں، سوائے اس کے کہ وہ اپنے کاروبار بند کرلیں۔ حکومت جو کچھ کر رہی ہے، وہ عین قانون کے مطابق ہے ۔ لہذا ان ریٹیلرز کے پاس احتجاج یا اپیل کی بھی کوئی گنجائش نہیں اور حکومت کا یہ ا قدام ملک کی معیشت اور مقامی افراد کو ملازمتیں فراہم کرنے کے حق میں ہے اور کسی حکومت کیلئے ملک کی معیشت کو استحکام فراہم کرنا اور مقامی باشندوں کو روزگار فراہم کرنا حکومت کی ذ مہ داری ہے ۔ نیز غیر قانونی آمدنی کی روک تھام کیلئے بینک کھاتوں کی نگرانی ضروری ہے ۔ اس سے صرف وہی لوگ متاثر ہوں گے جن کی آمدنی ملکی قوانین کے مطابق نہیں ہے ۔ رہے وہ لاکھوں غیر ملکی باشندے جو مملکت کے قوانین کا احترام کرتے ہوئے یہاں برسرکار ہیں، انہیں ان کے بینک کھاتوں کی نگرانی سے کوئی نقصان یا پریشانی نہیں ہوگی۔

این آر آئیز فیڈریشن کی مرکز سے نمائندگی
فیڈریشن آف کیرالا اسوسی ایشن آف سعودی عربیہ (فوکاسا) ریاض کے عہدیداروں نے وزیر برائے این آر آئیز امور و وزیر خارجہ ہند مسز سشما سوراج سے ملاقات کی اور انہیں این آر آئیز کے مسائل پر مشتمل ا یک میمورنڈم پیش کیا ۔ وزیر خارجہ ہند کے پارلیمنٹ ہاؤز نئی دہلی میں واقع آفس میں ہوئی اس ملاقات میں فوکاسا کے صدر آر مرلی دھرن اور نائب صدر عبدالسلام اور کیرالا کے ایم پی ا یم بی راجیش بھی موجود تھے، جنہوں نے اس ملاقات میں معاونت کی ۔ وزیر خارجہ کو پیش کئے گئے میمورنڈم میں جو مطالبات رکھے گئے ان میں (1) ہندوستانی باشندے جو سعودی عرب کی جیلوں میں قید ہیں ، کو انڈین ایمبسی اورانڈین قونصلیٹ جدہ میں موجود ’’انڈین کمیونٹی ویلفیر فنڈ‘‘ کے ذریعہ قانونی مدد فراہم کی جائے۔ (2) دنیا کے ہندوستانی سفارت خانوں میں ہندوستانی باشندوں کے پاسپورٹ تجدید فیس میں کئے گئے اضافے کو واپس لیا جائے (3) ہندوستان سے سعودی عرب بھیجے جانے والے گھریلو ملازمین کی سہولت کیلئے اگریمنٹ کے ضوابط میں تبدیلی لائی جائے جس کی تفصیلات میمورنڈم میں درج کی گئی ہیں۔(4) ’’مہاتما گاندھی سرکھشا یوجنا انشورنس اسکیم ‘‘ بغیر کسی امتیاز کے تمام این آر آئیز کیلئے عام کی جائے (5) این آر آئیز کی سوشیل سیکوریٹی اسکیم میں ہندوستانی بینکوں پر مالی مدد دینا لازمی قرار دیا جائے (6) این آر آئیز کو انکم ٹیکس کی ادئیگی سے مستثنیٰ رکھا جائے (7) ہندوستان کی ان ساری ریاستوں میں این آر آئیز یونیورسٹی قائم کی جائیں جن ریاستوں میں این آر آئیز کی بڑی تعداد بستی ہے۔

فوکاسا کے صدر کے مطابق وزیر خارجہ مسز سشما سوراج کے میمورنڈم حاصل کرکے اسوسی ایشن کو یہ تیقن دیا کہ وزارت اس پر سنجیدگی سے غور کرے گی اور جلد ان کے مطالبات پورا کرے گی ۔ صدر فوکاسا نے کہا کہ انہوں نے اسوسی ایشن کی جانب سے وزیر خارجہ سے گزارش کی کہ وہ سعودی عرب کا جلد دورہ کریں تاکہ انہیں یہاں برسرکار این آر آئیز کے حالات اور مسائل کا حقیقی طور پر اندازہ ہوسکے ۔ سعودی عرب میں 28 لاکھ ہندوستانی باشندے آباد ہیں۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں اتنی بڑی تعداد میں ہندوستانی باشندے برسرکار نہیں ہیں اور ان میں اکثریت چھوٹے اور متوسط درجہ کے ملازمین کی ہے۔ فوکاسا کے مطابق یہاں جتنی بڑی تعداد آباد ہے، اتنے ہی زیادہ ان کے مسائل بھی ہیں۔