حکومت سعودی عرب کی جانب سے تارکین وطن کو اصلاح حال کیلئے دی گئی مہلت کی مدت کے اختتام (3 نومبر 2013 ء) کے بعد سے مملکت بھر میں ایسے خارجی باشندے جن کے پاس مملکت میں قیام یا کام کرنے درست اور باضابطہ دستاویزات موجود نہیں ہیں، سیکوریٹی اہلکاران کا تعاقب کر رہے ہیں اور گرفتار کر کے مملکت سے بے دخل کر رہے ہیں۔ یہ سلسلہ بلا کسی امتیاز کے مملکت کے سارے علاقوں میں جاری ہے۔ مملکت کے دارالحکومت ریاض کے کچھ محلے ایسے ہیں جہاں کثیر تعداد میں غیر ملکی آباد ہیں جن میں منفوحہ ، غبیرہ ، العزیزیہ، خالدیہ اور حیی الوزارات وغیرہ شامل ہیں۔
ریاض میں غیر قانونی تارکین وطن کی گرفتاریوں کا سلسلہ علاقہ منفوحہ سے شروع ہوا۔ اس علاقے میں ایریتھریا کے باشندوں کی کثیر تعداد آباد ہے۔ خبروں کے مطابق ان ایریتھیری باشندوں کی اکثریت ایسی ہے جو مملکت میں غیر قانونی طریقہ سے داخل ہوئی تھی وہ نہ صرف غیر قانونی طور پر آئے اور برسوں سے قیام پذیر ہیں بلکہ وہ مجرمانہ سرگرمیوں میں بھی ملوث ہیں۔ جب پولیس نے اس علاقہ پر دھاوا کیا تو ان ایریتھیری باشندوں نے سیکوریٹی اہلکاروں پر جواباً ہلا بول دیا اور سارے علاقے میں ایک افرا تفری اور جنگ جدال کا ماحول پیدا کردیا جس کی خبریں کئی دن تک میڈیا کی سرخیوں میں رہیں۔ گرفتاریوں کا سلسلہ مملکت بھر میں ہنوز جاری ہے۔
حکومت کی جانب سے اصلاح حال کی چھ ماہ کی مہلت میں لاکھوں تارکین وطن نے اپنا اصلاح حال کرلیا اور لاکھوں کی تعداد میں غیر ملکی مہلت کی مراعات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اور بھاری جرمانوں کی ادائیگی سے بچتے ہوئے اپنے اپنے سفارت خانوں کے تعاون سے اپنے وطن واپس بھی ہوگئے ۔ جنوری کے پہلے ہفتہ میں جاری سرکاری اعداد و شمار کے مطابق غیر قانونی تارکین کے خلاف سیکوریٹی مہم میں 23890 افراد گرفتار کئے گئے اور ان تین ماہ کے عرصہ میں 79972 در اندازوں کو بھی پکڑا گیا ۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ سیکوریٹی مہم آخری غیر قانونی فرد کی مملکت سے بے دخلی تک جاری رہے گی ۔ ایک اور تازہ اطلاع کے مطابق ریاض پولیس نے سیکوریٹی فورسس کو مطلوب 16 افراد سمیت 700 غیر قانونی تارکین کو گرفتار کیا جن میں زیادہ تریمنی اور پاکستانی تھے ۔ خبر کے مطابق ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ ان میں 16 ایسے غیر ملکی بھی تھے جو مختلف جرائم میں پولیس کو مطلوب تھے ۔ یہ گرفتاریاں الریان کے علاقے اور اس سے متصل مملون میں پہلی تفتیشی مہم کے دوران عمل میں آئیں۔ اس سے قبل حیی الوزارات (حارہ) محلے میں چھاپے مارے گئے تھے اور اس مہم کے دوران 2360 سے زیادہ غیر قانونی تارکین وطن پکڑے گئے۔ گرفتار شدگان میں بنگلہ دیشی، مصری ، سوڈانی اور ہندوستانی شہری شامل ہیں۔
بتایا گیا کہ اب بھی ایسے بہت سے افراد ہیں جو اپنے کفیلوں کے ساتھ اپنے معاملات ٹھیک نہیں کرسکے، ان پر جو بھاری جرمانے عائد تھے انہیں ادا نہیں کرپائے اور اب وہ بے یار و مددگار ہوگئے ہیں۔ کچھ میدانوں میں ، کچھ پارکوں یا خالی پڑی بلڈنگوں میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ ان کے سفارتخانوں نے مہلت کے ایام میں لاپروائی برتنے والے ان تارکین وطن کی مدد سے معذرت کرلی ہے ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر و ستائش ہے کہ لاپروائی برتنے والے پریشان حال تارکین وطن میں ہندوستانی باشندے برائے نام ہیں۔
اس میں ہندوستانی باشندوں کی قانون کا احترام کرنے کی عادت اور ہمارے سفارت خانے کی اچھی کارکردگی کا دخل ہے ۔ ہندوستانی باشندوں کی اکثریت نے بروقت اپنے سفارت خانے اور قونصل خانہ جدہ سے رجوع کیا اور ان ہندوستانی اداروں نے مستعدی اور محنت سے کام کرتے ہوئے سارے ہندوستانی باشندوں کی مدد کی جس سے وہ اپنے تمام دستاویزات بروقت مکمل کرنے میں کامیاب ہوئے اور اب بھی چند سو ہندوستانی باشندے جن کی کارروائی مکمل نہ ہوپائی، سفارت خانہ اور قونصلیٹ کے رابطہ میں ہیں اور ہمارے یہ سرکاری ادارے ان کے دستاویزات مکمل کر کے انہیں وطن واپس بھیجنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
حیی الوزارات (حارہ) ریاض کا ایک ایسا علاقہ ہے جہاں بھاری تعداد میں ہندوستانی، پاکستانی اور بنگلہ دیشی باشندے آباد ہیں۔ ڈسمبر کے آخری ہفتہ سے اس علاقہ میں تفتیشی مہم کا آغاز کیا گیا اور تھوڑے تھوڑے وقفہ سے سارے علاقے کی ناکہ بندی کر کے اقامہ اور لیبر قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کی باریک بینی سے تفتیش کی جارہی ہے ۔ ہر دھاوے میں بھاری تعداد میں تارکین وطن گرفتار کئے جارہے ہیں۔ سرکاری بیان کے مطابق اس علاقے میں پکڑے جانے والوں میں جعلی دستاویز اور نشے کرنے والے بھی شامل تھے ۔ ان گرفتاریوں کے سلسلے میں تارکین وطن میں یہ شکایتیں ہیں کہ سیکوریٹی اہلکار ایسے تارکین کو بھی گرفتار کر رہے ہیں جن کے اقامے تجدید کیلئے گئے ہوئے ہیں اور انہیں اس کے ثبوت کے طور پر ان کی کمپنی کی جانب سے باضابطہ خطاب (Letter) دیا گیا ہے ۔
یہ طریقہ ہمیشہ سے رائج ہے اور جسے سیکوریٹی اہل کار قبول بھی کرتے تھے لیکن بتایا جارہا ہے کہ اب تفتیش کے دوران ایسے لیٹر رکھنے والوں کو بھی گرفتار کرلیا جارہا ہے اور اسی طرح کی کچھ دیگر شکایتیں بھی تارکین میں عام ہیں۔ مگر یہ سب باتیں فقط کہی اور سنی جارہی ہیں یا صرف سینہ بہ سینہ پھیل رہی ہیں۔ اس بارے میں اب تک کوئی بات مقامی اخبارات میں شائع نہیں ہوئی اور نہ ہی کسی اور ذریعہ سے اس کی تصدیق ہوئی۔ لہذا یہاں ان پر پوری طرح یقین کیا جاسکتا ہے نہ کوئی تبصرہ یا تنقید کی جاسکتی ہے ۔ جن افراد کے ساتھ ایسا کچھ ہوا ہے وہ اگر پورے ثبوت کے ساتھ میڈیا خصوصی عربی میڈیا سے رجوع ہوں تو شاید یہ بات ارباب مجاز تک جاسکتی ہے۔