کیوں چاہئے پارلیمنٹ کیلئے نئی عمارت ؟

غضنفر علی خان
سال گزشتہ پارلیمنٹ میں جو سب سے عجیب و غریب اور بھونڈا مذاق ہوا  وہ یہ ہے کہ اواخر 2015  میں بشمول اسپیکر موصوفہ کئی ارکان پارلیمان نے جن میں اپوزیشن کانگریس بھی شامل ہے، مطالبہ کیا ہے کہ ’’پارلیمنٹ کی موجودہ تاریخی اور پرشکوہ عمارت کے بجائے ایک نئی پارلیمنٹ تعمیر کی جائے ۔ اس مطالبہ کی بعض گوشوں سے مخالفت بھی کی جارہی ہے لیکن ارکان کی اکثریت ’’نئی عمارت‘‘ تعمیر کرنے کی تائید میں ہے ۔ ہندوستان جیسے غریب ملک میں اتنی شاندار اور کشادہ عمارت کی تعمیر کے لئے درکار سرمایہ بھی قابل غور ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک کی معیشت اس گراں بار مصارف کی متحمل ہوسکتی ہے ؟ کیا حقیقت میں یہ ضروری ہے ؟ پھر سب سے اہم اور متعلقہ سوال یہ ہے کہ عمارت کے نئے یا پرانے ہونے سے ارکان کی کارکردگی کا کیا تعلق ہے، اس مطالبہ نے سینکڑوں سوال کھڑے کردیئے ہیں ۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ اپنی اس غیر اطمینان بخش کارکردگی کے باوجود کس بنیاد پر سیاسی پارٹیاں تاریخی عمارت کے استعمال کو ترک کر کے ایک نئی عمارت تعمیر کرنا چاہتے ہیں ، جس عمارت میں موجودہ پارلیمنٹ کام کر رہی ہے ، اس میں ا رکان کی ناعاقبت اندیشی اور ’’اختلاف برائے اختلاف‘‘ کی وجہ سے نہ تو ڈھنگ سے کوئی کارروائی ہوتی ہے اور نہ منتخبہ عوامی نمائندے ہی قومی عوامی یا کسی اور نوعیت کا کوئی مسئلہ حل کرتے ہیں۔ سال گزشتہ کے سرمائی اجلاس ہی کو لیجئے اس میں کوئی اہم مسودہ قانون نہ تو مباحث کے مراحل طئے کرسکا اور نہ کوئی کارروائی ہوسکی۔ ایسے کئی سیشن پارلیمنٹ کے ضائع ہوتے رہے ۔ سال 2015 ء ہی کی بات نہیں ہے ، گزشتہ کئی بار ایسا ہوا ہے کہ کبھی اپوزیشن نے اپنی ضد کی وجہ سے ایوان کی کارروائی نہیں ہونے دی تو کبھی حکمراں پارٹی کی ہٹ دھرمی نے رکاوٹ پیدا کردی ۔ ہماری عظیم الشان جمہوریت کی یہ ٹریجڈی رہی ہے کہ اپوزیشن جماعت یا جماعتیں حکمراں پارٹی یا پارٹیوں کو اپنا دشمن سمجھتی ہیں اور حکمراں پارٹی اپوزیشن کو اپنا عد و مطلق مانتی ہیں ۔ حالانکہ اصل جمہوریت میں ان دونوں کی ہم خیالی سے ہی حکومت چلتی ہے لیکن ہمارے ملک میں دونوں میں ازلی اختلاف پایا جاتا ہے ۔ پارلیمنٹ کے اجلاس برائے نام ہوتے ہیں بلکہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کا مرکز بن گئے ہیں۔ اس مسئلہ میں کسی ایک فریق کو ہی ذمہ دار نہیں قرار دیا جاسکتا۔ جو بھی اپوزیشن میں ہوتا ہے مخالفت کرنے اورحکومت کے ہر فیلہ پر نکتہ چینی کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ موجودہ پارلیمنٹ میں کانگریس سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی ہونے کے ناطے اپوزیشن کی نمائندگی کر رہی ہے ۔ ہر معاملہ میں اپوزیشن حکومت کو گھیرتی رہتی ہے لیکن یہ طر یقہ ماضی میں بھی رہا ہے کہ بی جے پی اپوزیشن میں تھی اور کانگریس کی قیادت میں یو پی اے حکمراں تھی ۔ بی جے پی اگر آج اپوزیشن کانگریس پر اعتراض کرتی ہے تو اس کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ’’جیسا اس نے بویا تھا ویسے ہی وہ اب فصل کاٹ رہی ہے ۔ قدرت کا اٹل قانون ہے کہ اسی چیز کی فصل اگتی ہے جس کو بویا جاتا ہے جو کہ جو بوکر گندم کی فصل کی امید نہیں کی جاسکتی۔ آم کے درخت کو سوائے آم کے اور کوئی پھل نہیں لگ سکتا۔

بی جے پی نے یو پی اے حکومت کو پارلیمنٹ میں ہر مسئلہ پر اسی طرح گھیر رکھا تھا جس طرح سے آج کانگریس بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت کے ساتھ کر رہی ہے، دونوں ہی غلط ہیں۔ اختلاف صرف سیاسی ہوتا ہے اسکو شخصی سطح تک لے آنا جمہوریت کی اصل اسپرٹ کو ہی ختم کردیتا ہے ۔ آج یہی صورتحال ہندوستانی جمہوریت میں تیزی سے پیدا ہورہی ہے۔ جس پارلیمنٹ میں سارا اجلاس بے نتیجہ ثابت ہوتا ہے اور الزام در الزام کا بازار گرم ہوتا ہے ۔ پارلیمنٹ میں بنیادی Iecorum کو تک ملحوظ نہیں رکھا جاتا، جہاں پر سیشن میں ہنگامہ آرائی کی وجہ سے خیال واقع ہوتا ہے ۔ ایوان میں مارشلس کو متحرک ہونا پڑتا ہے، وہاں شخصی حملے ہوتے ہیں۔ اختلاف کے اظہار کیلئے مرچ پوڈر کی پچکاریاں ماری جاتی ہیں ، جہاں عوامی مسائل پر کوئی غیر سنجیدہ بحث تک نہیں ہوسکتی وہاں کسی نئی عمارت کی تعمیر سے کیا ہمارے پارلیمانی نظام میں پیدا شدہ یہ نقائص  دور ہوجائیں گے ۔ کیا ارکان ڈسپلن کے پابند ہوجائیں گے ۔ اختلاف رائے کو شخصی اختلاف سمجھنے کا چلن ختم ہوجائے گا۔ اسپیکر کے شہ نشین تک اہم کاغذات اور دستاویز کو پرزے پرزے کرنے کی روش ختم ہوجائے گی ، ایسے کئی سوالات ہیں جو ملک کے عوام اپنے ان منتخبہ ارکان پارلیمان سے کرسکتے ہیں ، جن کے ادا کردہ ٹیکس سے ایوان کے بھاری اخراجات کی پابجائی کی جاتی ہے ۔ اگر ارکان پارلیمنٹ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے جمہوری نظام میں صرف وہی مراعات کا حامل طبقہ Privileged Class ہے تو یہ عوام کے ساتھ سراسر زیادتی ہوگی۔ اگر مراعات کاحامل طبقہ ہے بھی تو اسے ہرطبقہ کی زائد ذمہ داریاں بھی ہوتی ہے ۔ صرف مراعات کا حاصل کرنا کسی طبقہ کو ممیز نہیں کرتا ۔ ارکان عوامی خدمت گزار ہوتے ہیں اور ہر سیشن میں ان کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ عوامی مسائل کا شائستگی اور سنجیدگی سے جائزہ لیں، ، انہیں حل کریں۔ اجلاس ہوتے ہیں کروڑ ہا روپئے کے مصارف  سے، حکومت کو اور عوام کو برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ ارکان کو اس کی کوئی فکر کیوں نہیں ہے۔ انہیں فکر ہے تو صرف اس بات کی کہ ان کی تنخواہیں ان کے الاؤنسس بڑھائے جائیں۔ ان کے لئے مزید کشادہ اور آرام دہ پارلیمنٹ ہاؤس بنایا جائے ۔ بے حد دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ہر عوامی مسئلہ پر باہمی اختلاف کے شکار یہی ہمارے معزز ارکان ہیں ، کبھی اس بات پر اختلاف رائے پیدا نہیں ہوتا کہ ان کی تنخواہوں میں اور ان کے الاؤنسس میں اضافہ ہونا چاہئے ۔ جب بھی پارلیمنٹ میں ارکان کو ملنے والے معاوضہ ، سہولتوں اور مراعات کی بات ہوتی ہے تو اپوزیشن اور حکمراں پارٹی ’’جسد واحد‘‘ کی طرح کھڑی ہوکر نمائندگی کرتی ہیں۔ اس وقت انہیں خیال نہیں رہتا کہ ان کے درمیان کئی مسائل پر عداوت کی حد تک اختلاف ہے ۔ ان ساری باتوں کے باوجود اگر آج ارکان پارلیمنٹ نئی عمارت کی خواہش کرتے ہیں تو بے حد تعجب کی بات ہے ۔ انعام اور مراعات کارکردگی کے بدلے ہی حاصل ہوتے ہیں ۔ فرائض نبض کی ادائیگی پر ملتے ہیں اور اس کسوٹی پر ہماری پارلیمنٹ کھری نہیں اترتی۔ عوام ٹیلی ویژن پر ایسے افسوسناک مناظر دیکھتے ہیں کہ انہیں اس بات کا اندازہ کرنے میں تک دشواری ہوتی ہے ۔ ہماری قابل حد احترام پارلیمنٹ ہے یا کسی اسکول کی طلبہ یونین کا اجلاس ہے ۔ ان تمام چیزوں کے باوجود آخر کس وجہ سے نئی عمارت کا مطالبہ کیا جارہا ہے ۔ کیا ہمارے معزز ارکان اس بات کا تیقن دے سکتے ہیں کہ نئی عمارت میں ان کا طریقہ بدل جائے گا اور پورے انہماک اور کامل خلوص نیت کے ساتھ ایوان میں عوامی مسائل پر بحث مباحثہ ہوگا۔ ایسے اختلافات کو عوامی اور قومی مسائل پر حاوی نہیں ہونے دیا جائے گا ۔ اوقات کا غلط استعمال نہیں ہوگا ۔ نئی عمارت میں نئے انداز سے داخل ہوں گے ۔ عمارتوں سے ذہنوں کے بدلنے کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ کہیں بھی خوبصورت اور کشادہ عمارت ہو ، خواہ اس میں جدید ٹکنالوجی کی ہر سہولت موجد ہو کچھ کام نہیں کرے گی۔ جب تک کہ اپوزیشن اور حکمراں جماعت اپنی ذمہ داری کو پورا نہ کریں۔ عمارتوں کے بدلنے سے کچھ حاصل نہیں کیا جاسکتا ، یہ تمنائے خام ثابت ہوگی۔ اصل نیا پن تو اذہان میں ہونا چاہئے ۔ اصل کشادگی تو دلوں میں اور ذہنوں میں ہونی چاہئے ۔ عمارتوں کا تعمیری میٹریل خواہ کتنا ہی اچھا ہو عمارت میں بیٹھنے والوں کی فکر پر کوئی اثر مرتب نہیں کرتا ۔ اصل خرابی تو ہمارے ا رکان کے ذہنوں اور دلوں میں ہے ، ہماری موجودہ پارلیمنٹ کی عمارت کا اس میں کوئی قصور نہیں ہے کہ یہاں صرف وقت ضائع ہورہا ہے ۔ یہی پارلیمنٹ کی عمارت ہے جس میں ہمارے ملک کے عظیم لیڈروں نے کئی اہم مسائل حل کئے تھے ، اس عمارت میں کبھی مولانا حسرت موہانی جیسے نمائندے بھی ہوا کرتے تھے جو ارکان کو ملنے والے Sitting Allowance کو یہ کہہ کر لینے سے انکار کرتے تھے کہ رکن پارلیمنٹ کو جو ماہانہ تنخواہ مقرر ہے تو اس الاؤنس کو لینے کا کوئی جواز نہیں۔ اگر ان تمام حقائق کے باوجود ہمارے ارکان اور ہماری سیاسی پارٹیاں ’’نئی عمارت‘’ کی تعمیر پر اڑے رہتے ہیں تو انہیں یہ مشورہ بھی قبول کرنا چاہئے کہ اس مسئلہ پر ایک ریفرینڈم کیا جانا چاہئے کہ موجودہ پارلیمان کی عمارت کی جگہ دوسری نئی عمارت تعمیر کی جانی چاہئے یا نہیں ، کی جانی چاہئے تو ارکان پارلیمنٹ کو یہ اقرارنامہ بھی پارلیمنٹ ہاؤس کے دفتر میں اپنی اپنی پارٹیوں کے لیڈروں کے حوالے کرنا چاہئے کہ وہ خود کو پابند ڈسپلن بنائیں گے۔ وقت ضائع نہیں کریں اور قومی و عوامی مسائل پر نتیجہ خیز اور مثبت بحث کریں گے تاکہ ضروری صورتوں میں عوام دوست قانون سازی ہوسکے۔ اگر ارکان اقرارنامہ تحریک پیش کریں تو ملک کے عوام ریفرینڈم میں اپنی رائے کا اظہار کرسکتے ہیں اور اگر غالب اکثریت پارلیمنٹ کیلئے نئی عمارت کی تائید کرتی ہے تو پھر اس پر بلا پس و پیش عمل کیا جاسکتا ہے۔