کیرامیری منڈل سرکاری مدارس بنیادی سہولیات سے محروم

اردو میڈیم طلبہ کے ساتھ ناانصافی ، اساتذہ کے عاجلانہ تقررات کا عوامی مطالبہ
کیرا میری۔22۔جون(سیاست ڈسٹرکٹ نیوز) ریاست تلنگانہ میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔لیکن ریاستی حکومت کی عدم توجہی کے سبب ضلع عادل آباد کے جینور منڈل میں اردو میڈیم اسکولو ں کے ساتھ بڑے پیمانے پر نا انصافیاں کی جارہی ہیں ۔ اس کی جیتی جاگتی مثال مستقر جینور کے علاوہ منڈل کے مواضعات گوری ، جمگائوں اور پٹناپور کے اسکولوں سے دی جاسکتی ہے ۔ جینور منڈل کی مجموعی آبادی دو لاکھ سے زائد ہے ۔جس میں مسلما نو ں کی آبادی کا تناسب 40 فیصد سے زائد پایا جاتا ہے ۔تعلیمی سال کاپہلا ماہ اختتام پر ہے ۔لیکن جینور منڈل کے کل چار اسکولس میں سے دو مواضعات گوری اور پٹناپور کے اسکو لس مکمل طور پر بند پڑے ہیں ۔ نمائندہ سیاست سروے رپورٹ کے مطابق ان چار اسکولوں میں گذشتہ سال 400سے زائد طلباء زیر تعلیم تھے ۔ امسال مستقر جینور کے گورنمنٹ اپر پرائمری اردو اسکول و موضع جمگائوں کے پرائمری اردواسکول میں مستقل اساتذہ نا ہونے کی بنا ء عارضی طور پر تلگو میڈیم اساتذہ کو رکھا گیا ہے جو طلباء کی مادری زبان سے بھی نا واقف ہیں ان اساتذہ کے ذریعہ دو اسکولس چلائے جارہے ہیں ۔ جس کی و جہ سے منڈل کے اردو میڈیم طلباء و طالبات کے علاو ہ اولیائے طلباء میں ایک قسم کی بے چینی دیکھی جارہی ہے۔ گذشتہ تعلیمی سال میں مستقر جینور کے گورنمنٹ اپر پرا ئمری اردو اسکول میں 160 طلباء زیر تعلیم تھے ۔ جن میںاول جماعت تا ساتویں جماعت میں140طلبہ اور آٹھویںجماعت میں 20 طلباہ زیر تعلیم تھے ۔جنہیں پورا سال دو ء اکیڈمک انسٹرکٹرس کے ذ ریعہ تعلیم دی گئی ۔مستقر جینور کے گورنمنٹ اپر پرائمری اردو اسکول میں نویں جماعت ناہونے کی بناء آٹھویں جماعت کے طلبہ امسال ترک تعلیم پر مجبور ہیں۔واضع رہے کہ جینور منڈل ضلع عا دل آباد کا ایک قبائیلی منڈل کہلاتا ہے۔اور منڈل میں بیشتر عوام کاشت کاری پر مبنی ہونے کی بناء اپنے نونہالوں کو خانگی مدارس میں تعلیم دلانے سے قاصر ہیں ۔حکومت”حق تعلیم ” قانو ن کے تحت 6 سے 14 سال تک طلباء کو مفت تعلیم فراہم کرنے کا وعدہ تو کرتی ہے ۔لیکن موجودہ اردو میڈیم اسکولس بد سے بد تر حالات میں پائے جاتے ہیں ۔جبکہ ان اسکولس میں و ہی طلبا ء تعلیم حاصل کرتے ہیں جو سطح غربت کے نیچے زندگی گزار رہے ہو تے ہیں۔ ان اسکولوں میں تعلیم کا موئثر نظم نا ہونے سے سینکڑوں طلباء کا مستقبل غیر یقینی صورتحال کا شکار بن رہا ہے۔ ان تمام مسائل کو جاننے کے بعدہما رے سامنے اردو میڈیم اسکولس کی خستہ حالت واضع ہوجاتی ہے ۔ جس کے ذریعہ ریاست بھر کے اردو مدارس کا ایک مختصر جائزہ ہمارے سامنے آجاتا ہے ۔ ایک طرف مرکزی و ریاستی حکو متیں تعلیم کو عام کرنے کے بڑے بڑے دعوے کررہی ہے وہیں دوسری طرف جینور منڈل کے ا ن اسکولوں کی یہ خستہ حالت ان دعوئوں کی قلعی کھولنے کے لئے کافی ہے ۔ اردو میڈیم طلباء کے ساتھ ہورہی ناانصافیوں کے سبب جینور منڈل میں اردو داں طبقہ میں شدید ناراضگی کی لہر دوڑ رہی ہے۔منڈل میں گورنمنٹ اردو ہائی اسکول کی اشد ضرورت ہے ۔واضع ر ہے کہ مسلمانان جینور کی جانب سے ہائی اسکول کے لئے کئی مرتبہ منڈل و ضلعی اعلیٰ عہدیداروں سے نمائندگی کی گئی ۔لیکن اعلیٰ عہدیداروں کی جانب سے مسائل کی یکسوئی کے لئے کوئی ٹھوس اقدا مات نہیں کئے جارہے ہیں ۔اردو میڈیم اسکولس کے ساتھ سب سے بڑا المیہ یہ ہیکہ منڈل کے تمام اسکولس میں طلباء کے لئے پینے کا پا نی تک میسر نہیں اس کے علاو ہ طہارت خانے، بیت الخلاء اورکمپائونڈ وال کی سہو لت سے بھی منڈل کے تمام اسکولس محروم ہیں ۔ طہارت خانے اور بیت الخلاء کی سہولیا ت میسر نہ ہونے کی بناء طالبات اپنی ضروریا ت سے فراغت کے لئے اطراف و اکناف کے کھیتوں میں ہو کر آتی ہیں ۔یہاں تک کہ اسا تذہ کے لئے بھی کوئی سہولیات میسر نہیں جس پر ساری کمیونٹی کو غور کرناچاہئے۔ نمائندہ سیاست نے منڈل کے جملہ 4 گورنمنٹ اردو میڈیم ا سکولس کا سروے کرتے ہوئے وہا ں کے مسائل کو عوام اور حکومت کے سامنے لانے کی ایک غیر معمولی کوشش انجام د یں ۔جس کے مطالعہ کے بعد اردو میڈیم اسکولس کی خستہ حالی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ ضلع کلکٹر عا دل آباد جگن موہن و مہتمم تعلیمات عا د ل آباد سے اولیاء طلباء کا یہ مطا لبہ ہے کہ منڈل کے مواضعات گوری، پٹناپور کے اردو اسکولس کو پھر سے کار کرد بنایا جائے۔تاکہ وہاں کے طلباء اپنی مادری زبان سے تعلیم حاصل کر سکے ۔ منڈل کے تمام اردو اسکولس میںمستقل اساتذہ کا جلد ا ز جلد تقرر کرتے ہوئے مستقر کے اپر پرائمری اسکول کو ہا ئی اسکول کا درجہ دیا جائے تاکہ طلباء کو ترک تعلیم سے روکتے ہوئے انکا مستقبل سنوارا جاسکے۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ حکو مت کے اعلیٰ عہدیدار اور ملت کے تمام اعلیٰ قائدین ان ار دو اسکولو ں کی خستہ حالت کو بہتر بنانے کے لئے ٹھوس ا قدامات کریں ۔تاکہ طلباء زیادہ سے زیادہ استفادہ کرسکیں اور ہماری نسلیں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوسکے جو ہماری ملی ودینی ذمہ داری بھی ہے۔