کیا ہندوستان ایمرجنسی کی طرف بڑھ رہا ہے؟

مارکنڈے کاٹجو
سابق آنجہانی وزیراعظم اندرا گاندھی کی جانب سے 1975ء میں نافذ کردہ ایمرجنسی آزاد ہندوستان کی تاریخ کا سیاہ باب ہے جس میں انسانی بنیادی حقوق کے علاوہ صحافت کی آزادی کو ختم کرلیا گیا تھا اور عوام پر ان گنت تحدیدات عاید کردی گئی تھیں۔
آج بیروزگاری میں اضافہ، کسانوں کے مسائل، پٹرول اور ڈیزل کی بڑھتی قیمتیں جس سے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے۔ حکومت کے خلاف بڑھتے ہوئے احتجاج میں مزید اضافہ ہی ہوگا۔ ملک بھر میں کسانوں کا احتجاج جن میں دہلی کا حالیہ احتجاج بھی شامل ہے جو کہ قیمتوں میں اضافے کے خلاف تھا، کانگریس کی جانب سے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کے خلاف بھارت بند جس کی دیگر کئی جماعتوں بائیں ، آر جے ڈی، این سی پی اور ڈی ایم کے وغیرہ نے بھی حمایت کی تھی، یہ احتجاج ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ اور روپئے کی قیمت میں گراوٹ کے ساتھ مزید بڑھ جائیں گے۔ علاوہ ازیں ڈیزل اور پٹرول کی قیمتوں کے ساتھ روپئے کی قدر بھی سنچری بنانے کے قریب ہے۔ ان سب حالات میں ہمارے حکمراں کیا کریں گے ؟
تاریخ گواہ ہے کہ جب حکمرانوں اور حکومت کے خلاف شورواحتجاج، اور مظاہرے ہوتے ہیں اور امن درہم برہم ہوتا ہے تو انہیں اپنا اقتدار خطرے میں دکھائی دیتا ہے۔ جس پر وہ عوام کو خاموش کرنے کے لیے ان سے اظہار خیال کی آزادی چھین لیتے ہیں۔ صحافت کی آزادی کو ختم کردیتے ہیں اور زندگی کے کن شعبوں پر تحدیدات عاید کرتے ہیں۔

ایسا اٹلی اور جرمنی میں بھی ہوچکا ہے جہاں بے روزگاری اور افراط زر کے حالات بدتر ہوئے جس پر عوام نے شدید احتجاج کیا جس کو ختم کرنے کے لیے فاشسٹ طاقتوں کا عروج ہوا اور اس دور میں ہٹلر اور موزولین نے اٹلی اور جرمنی کی تاریخ میں اپنے نقوش چھوڑے ہیں جہاں انہوں نے اپنی عوام کے بنیادی حقوق کو ختم کردیا تھا جس سے عوامی زندگی کا تصور ہی ختم ہوگیا تھا۔ نیز ایسے میں حالات 1975ء میں اندرا گاندھی کی جانب سے پیدا کردیئے گئے تھے جب ان کے خلاف عوامی احتجاج میں شدت پیدا کردی گئی تھی اور الہ آباد ہائی کورٹ کا انتخابات میں بدعنوانی کے خلاف آنے والے فیصلے کے بعد انہوں نے ہندوستان میں ایمرجنسی نافذ کردی تھی۔
ہندوستان میں اس وقت جو پارٹی اقتدار میں ہے اس نے ترقی کے نعرے اور بڑی امیدوں کے ساتھ کرسی سنبھالی تھی اور 2014ء کے انتخابات میں مودی جی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ سالانہ 2 کروڑ ملازمتیں فراہم کریں گے اور کسانوں کے لیے ان کے اجناس کے لیے 50 فیصد اضافی رقم فراہم کرنے کے بلند و بانگ دعوے کیے گئے تھے لیکن جب سے آج تک 4 سال گزرگئے ہیں اور کوئی وعدہ تو پورا نہیں بلکہ اس کے برعکس بیروزگار تشویش ناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ کسانوں کے مسائل انہیں خودکشی کرنے پر مجبور کررہے ہیں۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہیں اور روپئے کی قدر تاریخ میں اپنی گراوٹ کو پہنچ چکی ہے۔ انتخابات کے وقت زور و شور سے لگایا گیا ’’وکاس‘’ کا نعرہ ’’وناش‘‘ میں تبدیل ہوچکا ہے اور عوام میں مایوسی اپنے عروج پر ہے ۔ ان تمام حالات میں عوام کا برہم ہونا فطری عمل ہے۔ اور اپنی برہمی کے اظہار کے لیے حکومت اور حکمرانوں کے خلاف شور و احتجاج رونما ہورہے ہیں اور ان احتجاج میں مزید اضافہ کا خدشہ بھی ہے جس سے ہمارے حکمراں اپنے مطلق العنانیت کو بڑھتے خطرے کو محسوس کررے ہیں اور اس کا حل انہیں ’’اندرونی ایمرجنسی‘‘ دکھائی دے رہا ہے جس پر وہ عمل پیرا ہیں۔
ہندوستانی دستور کے دفعہ 44 کے تحت ایمرجنسی کا باضابطہ اعلان کرنا مشکل ہے لیکن دفعہ 352 جو کہ اندرونی بے چینی کے متعلق ہے اس کے تحت حالات کا جائزہ لیا جاسکتا ہے جیسا کہ ظاہر ہے کہ اعلانیہ ایمرجنسی کا نفاذ مشکل ہے لہذا بی جے پی اور مودی حکومت اندرونی ایمرجنسی کے لیے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے جس کی ایک واضح مثال حالیہ دنوں میں انسانی حقوق کے کارکنوں اور دانشوروں کی گرفتاری اور انہیں گھروں پر نظربند کردینا ہے۔
دستور میں عوام کو جو بنیادی حقوق فراہم کیے گئے ہیں انہیں خاموشی کے ساتھ ختم کرنے کے کئی راستے ہیں، مثال کے طور پر پولیس کی جانب سے فرضی شواہد پیش کرنا جس میں ہماری پولیس پہلے ہی مہارت رکھتی ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں اہل قلم حضرات، ماہر تعلیم اور تو اور وکیلوں کو بھی شہری نکسل یا نکسلائیٹس سے تعلق ہونے کا الزام لگاتے ہوئے گرفتار کیا جانا یہ سب اس کی کڑی ہے۔ گرفتار شدہ افراد کا تعلق نکسلائٹ، لشکر طیبہ، حزب المجاہدین یا اس طرح کے دیگر عسکریت پسند تنظیموں کے ساتھ تو جوڑتے ہوئے انہیں ملک دشمن قرار دیا جارہا ہے اور ان کے خلاف دفعہ 1967 ء کے تحت مقدمات درج کئے جارہے ہیں۔

میڈیا پر دبائو ڈالنے کے لیے بھی حکومت کے پاس کئی حربے موجود ہیں۔ دستور ہند کے دفعہ 19 جس میں شہریوں کو کئی حقوق فراہم کیے گئے ہیں جن میں اظہار خیال کی آزادی بھی شامل ہے جس میں میڈیا بھی آجاتا ہے لیکن اس کی شق 2 اور 6 کے تحت جو جائز تحدیدات عاید ہوسکتی ہے اس سے اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ اندرا گاندھی کے دور ایمرجنسی میں صحافت پر خوف طاری کروایا گیا تھا اس وقت مودی بھگتی اور لالچ کے ذریعہ میڈیا پر نہ صرف کنٹرول کیا گیا ہے بلکہ اس میں وہی نشر کرنے کی ہدایت دی جارہی ہے جو کہ برسر اقتدار حکومت چاہتی ہے۔ عدلیہ کی بات کی جائے تو یہاں بھی حالات کچھ مختلف نہیں کیوں کہ عدلیہ کر بھی کیا سکتی ہے جب اس کے سامنے ناقابل انکار ثبوت پیش کیے جاتے ہیں اور گرفتار شدہ شخص کے نکسلائٹس یا اس طرح کی کوئی اور ممنوعہ تنظیم کے ساتھ اس کے تعلقات کو ثابت کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف ہجومی تشدد اور یوپی میں فرضی انکائونٹر ہوئے اور نہ جانے کتنے ایسے واقعات ہیں جس نے جمہوریت کی آزادی کو ختم کردیا ہے اس کے مقام پر فاشزم اور اندرونی ایمرجنسی نے ہندوستان پر قبضہ کرلیا ہے۔