کیا کانگریس پا رٹی بوڑھی ہوگئی ہے ؟

’’کون پوچھے تمہیں یہ حسن ڈھل جانے کے بعد‘‘

غضنفر علی خان
کانگریس بلا شبہ نہ صرف ملک کی 100 سال سے زیادہ عمر کی پارٹی ہے بلکہ ہندوستانی عوام یہ بھی جانتے ہیںکہ اس پارٹی کی سرکردگی میں ملک نے انگریزوںکی غلامی سے آزادی حاصل کی تھی ۔ یہ بھی صحیح ہیکہ جنگ آزادی میں آج شور مچانے والی پارٹیوں اور خصوصاً سابقہ جن سنگھ موجودہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا کہیں پتہ نہیں تھا ۔ جدوجہد آزادی کی قیادت گاندھی جی جیسی بزرگ اور قابل احترام شخصیت نے کی تھی ۔ انہیں پنڈت جواہر لال نہرو ، مولانا آزاد ، لال بہادر شاستری جیسے صاحب کردار لیڈروں کا مکمل تعاون حاصل تھا ۔ آزادی کے بعد بھی عوام میں کانگریس کا مرتبہ و مقام سب سے اونچا تھا بلکہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ آزادی کے بعد (اگست 1947 ء) کے بعد حال حال تک کانگریس نے اپنا دبدبہ برقرار رکھا تھا ۔ پھر کیا بات ہے کہ آج یہی کانگریس پارٹی رائے دہندوں کے ووٹوں کیلئے ترس رہی ہے ۔ اس کو علاقائی پارٹیوں سے مفاہمت کرنی پڑ رہی ہے ۔ وہ دوسروں کے رحم و کرم پر زندہ رہنے کی کوشش کرر ہی ہے ۔ آج ملک میں جو سیکولرازم ہے جو مضبوط پارلیمانی جمہوریت ہے یہ بھی اس کانگریس کی دین ہے لیکن اب کانگریس کی لائی ہوئی جمہوریت اور سیکولرازم کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں ۔ آج کل انتخابات شخصیت پرستی Personality Cult کی اساس پر لڑے جارہے ہیں اور کانگریس میں ایسی کوئی لیڈر شپ موجود نہیں ہے جو Cult بن سکے جس کے نام پر یا جس کو دیکھ کر ہی عوام ووٹ دینے لگیں۔ یہ سوال کانگریس سے کیا جانا چاہئے کہ آخر اس کی صفوں میں کوئی ایسا لیڈر گزشتہ 25 سال سے پیدا نہیں ہوسکا جو ہندوستان عوام کی نظر میں دوسروں سے بہتر ہو جسے دیکھ کر یا جسے سن کر عوام جوق در جوق ووٹ دیں۔ پارٹی اپنی جگہ قائم ہے۔ تنظیمی ڈھانچہ بھی برقرار ہے ۔ کانگریس کی سیاسی فکر بھی قائم ہے لیکن عوام ہیں کہ اس کی طرف راغب نہیں ہورہے ہیں۔ پے در پے کانگریس کو شکست در شکست ہورہی ہے ۔ کیا صرف قیادت کے فقدان ہی کو اس کا واحد سبب سمجھا جاسکتا ہے ۔ راقم الحروف کی رائے میں اگر یہ واحد سبب نہیں ہے تو سب سے بڑا سبب ضرور ہے ۔ پارٹیاں محض اپنے پروگرام ، اپنی فکر و نظریہ سے نہیں چلتیں بلکہ ان کو چلانے والی کوئی فعال شخصیت ہی مناسب چیزوں کے پس پردہ کام کرتی ہے ۔ پنڈت نہرو ، اندرا گاندھی کے بعدا یک ایسا خلاء قیادت کا کانگریس پارٹی میں پیدا ہوگیا ہے جو آج تک پر نہ ہوسکا ۔ قیادت کی جگہ مورثیت نے لے لی۔ جواہر لال کے بعد ان کی صاحبزادی اندرا جی نے پارٹی اور حکومت کی قیادت سنبھالی ، اس کے بعد راجیو گاندھی نے جو پنڈت جی کے نواسے تھے کچھ کرنے کی کوشش کی لیکن نہرو اور اندراجی کی یہ کمزوری تھی کہ وہ ’’بڑ کے درخت ‘‘ کی طرح تھے جو گھنا اور سایہ دار ہوتا ہے لیکن بڑ کے درخت کے نیچے یا اس کے اطراف کوئی دوسرا درخت یا پودا نہیں اُگ سکتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جیسے ہی قیادت کے یہ پیڑ گرے ، کانگریس رفتہ رفتہ سیاسی یتیم بنتی گئی ۔ مورثیت کے رجحان نے اس کمی کی خوب آبیاری کی۔ آج کئی سیاسی پارٹیوں میں بھی سیاسی وراثت کا رجحان پایا جاتا ہے ۔ سماج وادی پا رٹی میں اکھلیش یادو لڑ جھگڑ کر اپنے والد ملائم سنگھ یادو کے لاڈ و پیار میں پارٹی کا بیڑا غرق کرچکے ہیں۔ لالو پرساد یادو نہ جانے اپنے دونوں بیٹوں میں وہ کیا خوبیاں دیکھی کہ دونوں کو بہار کابینہ میں وزیر بنادیا ۔ خود ہماری ریاست میں وزیر اعلیٰ کے سی آر اپنے صاحبزادے اور صاحبزادی کے سیاسی ارمانوں کو پروان چڑھا رہے ہیں ۔ بات صرف ایک یا دو سیاسی لیڈروں کی نہیں ہے بلکہ آج (کمیونسٹ پارٹیوں کو چھوڑ کر) تمام پارٹیوں میں ’’وراثت کا مرض‘‘ ناقابل علاج بن گیا ہے۔ کانگریس میں قیادت نہیں ہے تو اس کے لئے پارٹی کسی اور کو ذمہ دار نہیں قرار دے سکتی ۔ وراثت کے چلن نے نہرو ، گاندھی خاندان کے علاوہ کسی اور کو کبھی ابھرنے نہ دیا۔ آج یہ عالم ہے کہ پارٹی اپنے سو سال سے طویل عرصہ پارٹی قیادت کے لئے ترس رہی ہے۔ نہرو گاندھی خاندان کا طلسم بھی اب ختم ہوگیا جس کا ثبوت یہ ہے کہ پچھلے دس سال سے اندرا گاندھی کے پوتے اور ان کی بہو سونیا گاندھی پارٹی کی  ہر انتخابات میں قیادت کر رہے ہیں۔ خاص طور پر پوتے راہول گاندھی نے پورا زور لگادیا ۔ گاہے ماہے ہی کامیابی ملی بیشتر تو ہزیمت اور ناکامی ہی ہاتھ آئی ۔ پچھلے کئی الیکشن سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ کانگریس پر بڑھاپا طاری ہوگیا ہے ، اس کے اعضاء و جوارح انتہائی کمزور ہوگئے ہیں۔ اسی سال یو پی میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں راہول گاندھی نے خوب زور لگایا ، کہنے کو اترپردیش میں سے وہ اور ان کے بزرگ منتخب ہوتے رہے لیکن اب اس ریاست کے عوام پر نہ تو بزرگوں کا اثر باقی رہا اورنہ خود راہول گاندھی اثر انداز ہوسکے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ پنجاب میں کانگریس پارٹی نے شاندار کامیابی حاصل کی ہے تو اس کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ پنجاب میں وہاں کی سابق حکومت بی جے پی۔ اکالی دل کے خلاف عوامی جذبات تھے ، ایک مخالف حکومت  تھی تو ہوا کا رخ ہی بدل گیا ۔ اس کامیابی پر نہ تو کانگریس خوش ہوسکتی ہے اور نہ جشن مناسکتی ہے ۔ یہ کامیابی اصل میں اترپردیش میں ہوئی ہزیمت کے مقابل کچھ بھی نہیں ہے ۔ کانگریس پا رٹی اپنی ضعیف العمری  اپنی ندامت کے بھروسے پر انتخابات نہیں جیت سکتی کیونکہ پارٹی اور اس کی لیڈرشپ میں کوئی دم نہیں رہا ۔ بے شک کانگریس کا سیاسی فلسفہ اس کی سیاسی فکر آج بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی پہلے تھی لیکن پار ٹی خود اپنا Relavence کھوتی چلی جارہی ہے۔ عوام کا رجحان بدل رہا ہے اور بڑی تیزی سے بدل رہا ہے ۔ اس ملک میں آج بھی سیکولر ووٹ بینک بی جے پی یا سنگھ پریوار  کے بینک سے زیادہ ہے کیونکہ 2014 ء کے انتخابات میں اتنی عظیم الشان کامیابی کے باوجود اس کو صرف 39 فیصد ووٹ ہی ملے تھے ۔ آج بھی رائے دہندوں کا 61 فیصد حصہ بی جے پی کو پسند نہیں کرتا ۔ اگر یہ زائد از 60 فیصد سیکولر ووٹ منظم و متحد ہوجائے تو پھر سیکولرازم کا  بول بالا ہوسکتا ہے ۔ اس کیلئے کوئی ایسے قائد کی ضرور ہے جو عوام کے دل و دماغ پر حکومت کرسکے ۔ کانگریس کو کم از کم اب اپنے اس زعم کو ختم کردینا چاہئے کہ وہ فرقہ پرستی کے خلاف کھڑی ہونے والی واحد بڑی پارٹی ہے ۔ سیکولرازم اور فرقہ پرستی کے درمیان آئندہ بہت جلد ایسی آر پار کی لڑائی ہونے والی ہے کہ اس کی فتح و شکست کے نتائج ملک کے مستقبل پر اثر انداز ہوں گے ۔ کانگریس کو اگر بوڑھی نہ کیا جائے تو کم از کم اس پارٹی کو از خود یہ کہنا چاہئے کہ پارٹی کی قیادت وراثت کے دائرے سے نکل کر کسی اور کے ہاتھ دی جائے گی۔ یہاں موجودہ حالات میں کانگریس یہ سوچ کر اس کا مستقبل خطرہ میں ہے ، صحیح نہیں ہوگا کیونکہ صرف پا رٹی کا نہیں بلکہ سارے ملک کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے ۔ کانگریس میں یا تو نئی قیادت ابھرنی چاہئے یا پھر اپنے بڑھاپے  پر خود رحم کرنا چاہئے ۔
آگئی سر میں سفیدی چل بسا حسن و شباب
کون پوچھے گا تمہیں یہ حسن ڈھل جانے کے بعد