فیضان مصطفی
مذہب کے نام پر اشتعال انگیزی کو کیا جائز قرار دیا جاسکتا ہے؟ یہ بحث اس وقت شدت اختیار کرجاتی ہے جب متاثرہ شخص کا قصور صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ دوسرے مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔ پونے کے نوجوان انجینئر محسن شیخ کی ہلاکت کے کیس میں تین اصل ملزمین کی ضمانت منظور کرتے ہوئے اپنے 6 صفحات پر مشتمل احکام میں جسٹس مریڈولا بھٹکر نے احساس ظاہر کیا ہے کہ متوفی کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ دوسرے مذہب سے تعلق رکھتا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ درخواست گذار؍ ملزم کے حق میں فیصلہ جائے گا کیونکہ درخواست گذار؍ ملزم کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہے اور مذہب کے نام پر جذبات کا شکار ہوتے ہوئے انہیں مشتعل کیا گیا اور انہوں نے قتل کا ارتکاب کیا۔ محسن شیخ کو 2 جون 2014 کو محض اس لئے قتل کیا گیا تھا کیونکہ انہوں نے جج کے ریکارڈ شدہ مواد کے مطابق سبز رنگ کا شرٹ پہن رکھا تھا اور ان کے چہرے پر داڑھی تھی۔ قاتلوں نے محسن شیخ کو اسوقت ہلاک کیا جب وہ ڈِنر کے بعد واپس ہورہے تھے۔ جج کے اس احکام کے بعد ہندوستان کے اندر کسی بھی نفرت پر مبنی جرائم کے خلاف شکایت نہیں کی جاسکتی۔ معزز جج نے کل ہی اپنے متنازعہ احکامات کو درست کرتے ہوئے مذہبی تعصب کا شکار شخص کے بارے میں اشتعال انگیزی کی بنیاد قرار دیا ہے البتہ جج نے مذکورہ بالا حوالہ سے دیئے گئے بیان کو واپس نہیں لیا۔ مقتول کی جانب سے اگر اشتعال انگیزی کی شکایت کی جارہی ہے تو اس سلسلہ میں یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ آیا اس نے اشتعال انگیزی کی ہے یا نہیں جس کی وجہ سے یہ واقعہ رونما ہوا۔ قانون کے پابند مسلمان کے خلاف اشتعال بھڑکانے کا دعویٰ نہیں کیا جاسکتا، صرف سبز رنگ کا شرٹ پہننے اور داڑھی رکھنے سے ہی اشتعال انگیزی متصور کی جائے تو یہ قانون کے مغائر ہے کیونکہ ہندوستان میں سبز رنگ یا داڑھی رکھنے کو غیر قانونی قرار نہیں دیا گیا ہے، ایسے عوامل کیلئے از خود اشتعال انگیزی بھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہاں پر قتل کے مرتکب ملزمین کو یہ اختیار ہے کہ وہ اپنی مرضی سے ہندو راشٹریہ سینا کی تقاریر سننے کیلئے جائیں تو وہ اس کے لئے اپنی مرضی کے مالک ہیں۔ مذکورہ جج کے یہ احکام صدمہ خیز اور سنگین ہیں اور اس سے اشتعال انگیزی کی پوری تشریح ہی اُلٹ پلٹ ہوجاتی ہے اس کو ملزم کے حق میں کسی بھی صورت میں جائز قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ ان لوگوں کو ہندو راشٹریہ منچ سے کی جانے والی تقاریر نے مشتعل کیا تھا کیونکہ یہ لوگ خود تقاریر سننے کیلئے گئے تھے اور ایسا کرنے کی وہ پوری آزادی رکھتے ہیں۔ اس طرح کے جلسوں میں ہی اس نوعیت کی تقاریر ہوتی ہیں۔ اشتعال انگیزی کا قانون ملزم تک ہی محدود ہونا چاہیئے اسے مشتعل ہونا نہیں چاہیئے۔ ہندوستان میں ضمانت کے قوانین بھی مطلب براری کے حصار میں مفقود ہوتے جارہے ہیں جہاں پر متمول شخص کو ضمانت حاصل کرنے کا حق ملتا ہے تو غریب کے نصیب میں جیل کی چاردیواری ہی رہ جاتی ہے۔ موتی رام کیس میں جسٹس کرشنا ایئر نے احساس ظاہر کیا تھا کہ انصاف کی اس مارکٹ میں غریب شخص کو اپنی آزادی کی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔ 1978 کے موتی رام کیس میں ایک غریب مزدور کو 10ہزار روپئے کی ضمانت دینے کی ہدایت دی گئی تھی۔ قانون کے اس درجہ سے نکل کر اب ہم مذہب کے نام پر ہونے والی اشتعال انگیزی کی طرف پیشرفت کررہے ہیں یا یوں کہیئے کہ مذہب کا نیا زمرہ وجود میں آرہا ہے۔
ضمانت کا قانون قدیم قوانین میں سے ایک ہے، یہ قانون 399 قبل مسیح سے دیکھا جاتا ہے جب مچلکہ پر رہائی دی جاتی تھی۔ ضمانت کا قانون ایک بہت بڑے جنگلے کی مانند ہے جہاں پر اپنی مرضی اور شخصیت پرستی کو اہمیت دی جاتی ہے، عوامی معاملات اور انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ لفظ ’ ضمانت ‘ کو ہمارے قوانین کے تحت محدود نہیں رکھا جاسکتا۔ اس قانون کو صرف قابل ضمانت جرم اور ناقابل ضمانت جرائم کے درمیان ہی معلق رکھا گیا ہے۔ ضمانت کو موخر الذکر کا حق قراردیا جاتا ہے اور آخرالذکر کو جج کے رحم و کرم پر رہنا پڑتا ہے۔ اس طرح کی زمرہ بندی کسی خاص محدود آزمائش یا اعتبار کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ عام طور پر کئے جانے والے جرائم 3 سال تک قابل سزا متصور ہوتے ہیں یا کم سے کم جیل کی سزا دیتے ہوئے انہیں قابل ضمانت سمجھا جاتا ہے اور دیگر کیس غیرضمانتی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ اس خصوص میں قانونی پہلو یہ ہے کہ ضمانت اس کیس کو دی جاتی ہے جب تحقیقات معمولی جرائم کیلئے 60 دن کے اندر مکمل نہ ہوں یا سنگین جرائم کیلئے 90 دن کے اندر تحقیقات کی تکمیل نہ ہوپائے۔
ضمانت کی منظوری کے عدالتی اختیار کو وسیع تر نہیں ہونا چاہیئے اور اس کا عجلت پسندی میں فیصلہ نہیں کیا جانا چاہیئے۔ قانونی پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر ہی ضمانت منظور کی جانی چاہیئے۔ ایسے معاملات میں کوئی بھی فیصلہ عجلت پسندی، طرفداری یا تکلیف دہ انداز میں نہیںکیا جاسکتا۔ جج کو کسی بھی کیس کی سنگینی، الزام کی نوعیت اور سزا کی باریکیوں کو ذہن میں رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ کئی کیسوں میں ضمانت کی منظوری کیلئے دی گئی درخواستوں کو مسترد بھی کیا گیا ہے اور ملزم کی بے گناہی کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا ہے، اس سے ملزم کے ارکان خاندان بھی بلا وجہ متاثر ہوجاتے ہیں۔ زیادہ تر معاملات میں ملزم کی ضمانت مسترد کردی جاسکتی ہے کیونکہ مقدمہ کے دوران اس کے دفاع کی تیاری نہیں کی جاتی۔ ضمانت ایک بنیادی سیکورٹی کا معاملہ ہوتا ہے جو زیر التواء مقدمات اور تحقیقات کیلئے ملزم کو حاضر ہونا پڑتا ہے۔ لہذا مجھے محسن شیخ کے قتل کیس میں 3 ملزمین کو دی جانے والی ضمانت پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن ہمیں یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیئے کہ اس’’ ضمانت ‘‘ کی منظوری میں کئی اہم شخصیتوں کو بھی نظر انداز کردیا گیا ہے۔ کئی اہم شخصیتوں کے کیسوں میں ضمانت دینے سے انکار کیا جاچکا ہے۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر بینائیک سین کو بھی برسوں سے ضمانت پر رہا کرنے سے انکار کردیا گیا اگرچہ کہ انہوں نے کسی کا قتل نہیں کیا تھا۔ ان کے خلاف الزام صرف اتنا تھا کہ انہوں نے مبینہ طور پر محروس نکسل لیڈر نارائن سانیال اور تاجر پیوش سنہا کے درمیان خطوط کے تبادلہ کا رول ادا کیا تھا کیونکہ انہوں نے سانیال سے 33 مرتبہ ملاقات کی تھی۔ بلا شبہ ہر وقت جیل حکام کی جانب سے انہیں اجازت دی گئی تھی، ان کے خلاف صرف ایک پوسٹ کارڈ ثبوت بن گیا تھا جو سانیال کی جانب سے لکھا گیا تھا۔ بامبے ہائی کورٹ نے بھی دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر جی این سائی بابا کو ضمانت دینے سے انکار کیا تھا۔ پروفیسر جی این سائی بابا کو رہا نہ کرنے کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی جبکہ وہ 90 فیصد جسمانی طور پر معذور تھے اور صرف وہیل چیر کے سہارے حرکت کرسکتے تھے۔ ان کی عارضی طور پر منظورہ ضمانت بھی واپس لے لی گئی تھی۔ سائی بابا کے تمام شریک ملزمین کو ضمانت پر رہا کردیا گیا تھا۔ اس کیس کی اصل روح کو ہی قبول نہیں کیا گیا۔ اسی طرح ثقافتی تنظیم کبیر کلا منچ پونے کے ارکان کو بھی سماج میں پائی جانے والے عدم مساوات کے خلاف جدوجہد کرنی پڑی۔ اس منچ کو عدم مساوات کے خلاف لڑائی کیلئے ہی قائم کیا گیا تھا۔ منچ نے سماج میں جمہوریت کو فروغ دینے کیلئے کام کیا اور اس نے کوئی پُرتشدد جرم کا ارتکاب ہی نہیں کیا تھا لیکن اپنے گیتوں اور ڈراموں کے ذریعہ نکسلائیٹ کی حمایت کرنے کے الزامات کے باعث ضمانت دینے سے انکار کیا گیا۔ کبیر کلا منچ کی شیتل ساٹھے جو حاملہ تھیں انھیں بھی سیشن عدالت نے دو مرتبہ ضمانت دینے سے انکار کردیا تھا۔ بعد ازاں ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت منظور کی اور ان کے شوہر کو کافی مشکلات کے بعد حال ہی میں ضمانت حاصل ہوئی ہے۔
دہشت گردی کے 19 الزامات کے ملزم عامر کو بھی ضمانت نہیں ملی۔ اس نے دہلی کی جیل میں 12سال گذار دیئے تھے، جب ان کے والد کا انتقال ہوا اور ان کی والدہ فالج سے متاثر ہوئیں تو انہوں نے اپنی ضمانت کیلئے کئی درخواستیں پیش کی۔ والدہ کے میڈیکل ریکارڈ کی بنیاد پر انہوں نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ ضمانت دی جائے لیکن عدالتوں نے ان کی درخواستوں کو خاطر میں نہیں لایا۔ جج کا یہ احساس تھا کہ یہ ایک بہت ہی نازک کیس ہے لہذا ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ انہیں تمام 19 کیسوں میں بعد ازاں باعزت بری کردیا گیا۔ اس کے برعکس فلم اداکار سنجے دت کو کئی مرتبہ سینکڑوں دنوں کیلئے پیرول پر رہا کیا گیا حتیٰ کہ انھیں اپنی دختر کی ناک کی سرجری کے موقع پر بھی پیرول پر رہا کیا گیا اور بیمار اہلیہ کی تیمار داری کیلئے بھی انہیں پیرول دی گئی تھی۔ مدراس ہائی کورٹ نے گذشتہ سال عصمت ریزی کے ملزم کو ضمانت دی تھی تاکہ وہ متاثرہ لڑکی کے ساتھ مصالحت کرسکے۔ پٹنہ ہائی کورٹ نے خطرناک مجرمین جیسے شہاب الدین، پپو یادو اور راکی یادو کو بھی ضمانت پر رہا کیا تھا۔ ان ضمانتوں کو منسوخ کرنے کیلئے سپریم کورٹ کو مداخلت کرنی پڑی تھی۔ مایا کڈوانی جنہیں نریڈا پاٹیہ مسلم کش فسادات کیلئے ماخوذ کیا گیا تھا اس میں زائد از 90 افراد ہلاک ہوئے تھے اور انہیں 28سال کی قید بامشقت بھی سنائی گئی تھی لیکن 30جولائی 2014کو خرابی صحت کی بنیاد پر ضمانت پر رہا کیا گیا۔ اگرچیکہ مجھے پونے کے کیس میں ضمانت دیئے جانے پر حیرانی نہیں ہے کیونکہ متمول اور طاقتور لوگ ہی ضمانت حاصل کرتے ہیں۔ یہ تو معمول بن گیا ہے کہ جو لوگ طاقتور ہوتے ہیں انہیں ہی ضمانت ملتی ہے لیکن ایک خاص مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ضمانت دیئے جانے کا چلن بلا شبہ ہمارے معاشرہ کیلئے خطرناک اور افسوسناک پہلو ہے۔ اگر ہم متنازعہ کیسوں کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہمیں ضمانت کے قانون پر نظر ثانی کی ضرورت ہوگی کیونکہ ہماری جیلوں میں محروس دو تہائی قیدی زیر دریافت ہیں۔ اس لئے ضمانت کے قانون کو فراخدلانہ بنایا جانا چاہیئے تاکہ ضمانت ایک قانونی شکل اختیار کرے اور جیل کو استثنائی حیثیت حاصل ہوسکے۔