کیا ای وی ایم مشین کو چھیڑا جاسکتا ہے ؟

دیپانش دگل
تلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) کے سربراہ نے دعویٰ کیا ہے کہ ای وی ایم سے چھیڑ چھاڑ (یا اس کے میکانزم میں تبدیلی لانا) کرنا نہایت آسان ہے ۔ یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے فون کو ٹیاپ tapp کرنا ۔ چیف منسٹر اے پی چندرا بابو نائیڈو اس بات پر قوی یقین رکھتے ہیں کہ ای وی ایم کے ساتھ مختلف فریکونسیز کا استعمال کرتے چھیڑ چھاڑ کرنا نہایت واضح ہے۔ تمام وزراء ملک میں اس ای وی ایم چھیر چھاڑ پر ان کے بھی کان کھڑے ہوچکے ہیں اور وہ بھی ای وی ایم کی کارکردگی پر اپنے شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں اور ہمارے وزیراعظم مودی کی عجیب و غریب منطق کہ جس میں کلاوڈ راڈر، کی بے تکی بات بحث کا موضوع بن گئی ہے ، اس تناظر میں آیئے ، ہم دیکھتے ہیں کہ ای وی ایم سے متعلق خدشات کتنے صحیح ہیں ۔ منگل کو ٹوئیٹر پر کئی ویڈیوز اپلوڈ کئے گئے جس میں بتایا گیا کہ ای وی ایمس کواسٹوریج روم میں اسٹورکیا گیا یا پھر انہیں پہنچایا گیا۔
سماج وادی پارٹی نے استفسار کیا کہ ان مشینوں کو ایک دن بعد کیوں ٹرانسفر کیا گیا ، الیکشن کمیشن نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ای وی ایم کو رائے شماری کے مراکز پر اتارا گیا تھا اور وہاں سے یہاں منتقل کرنے میں کئی ایک ’لاجسٹل مسائل‘ تھے ۔
اسی طرح کا ایک مسئلہ یو پی کے دومریا گنج میں پیش آیا جہاں بی ایس پی اور ایس پی کے کارکنان نے اسٹوریج کمپاؤنڈ سے منتقل ہوئے پکڑلیا ۔ اس معاملہ کو اتنا اچھالا گیا کہ آخرکار ڈسٹرکٹ عہدیدار کو الیکشن باڈی کو بلانے پر مجبور ہونا پرا اور فون کو اسپیکر پر رکھتے ہوئے ورکرس کو بتایا گیا کہ یہ منتقلی الیکشن کمیشن کے احکامات کے مطابق ہے۔ اسی طرح دوسرے واقعہ میں غازی پور ، یو پی میں رپورٹ کیا گیا جہاں سے افضل انصاری اور ان کے حلیف نے مشترکہ طور پر دعویٰ کیا کہ ای وی ایم کو ایک گاڑی میں رکھ کر اس میں تبدیلیاں لانے کیلئے دوسری جگہ منتقل کیا جارہا تھا، جسے الیکشن کمیشن نے یکسر مسترد کردیا ۔ اس میں دلچسپ بات نوٹ کرنے کی یہ ہے کہ سوشیل میڈیا ہینڈلس نے ان ویڈیوز کو بی جے پی کی کارستانی بتایا جہاں پر یہ ویڈیوز بنائے گئے تھے تاکہ ای وی ایم سے چھیڑ چھاڑ کی جاسکے ۔ حالانکہ ان ویڈیوز سے ایسا کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا۔
تاہم سوال ابھی بھی جوں کا توں باقی ہے ۔ کیا واقعی ای وی ایم میں تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں یا پھر چھیڑ چھاڑ کا واقعی امکان موجود ہے ؟ زوہیر دیسائی اور الیگزینڈرلی ، دونوں بھی اکیڈیمک ہیں، جنہوں نے ایک تحقیقاتی مقالہ بعنوان ’’ٹکنالوجی چوائس اور فراگ مینٹیشن: ہندوستان میں الیکٹرانک ووٹنگ کے سیاسی اثرات‘‘ میں انہوں نے لکھا کہ ای وی ایم میں ڈرامائی طور پر مسترد ووٹ پڑتے ہیں، مشین کام کرنے سے انکار کردیتی ہے اور یہ معاملہ کم عمر امیدواروں کا ہونے پر اس کی حساسیت مزید بڑھ جاتی ہے اور اس بات کا نہایت ہی کمزور امکان ہے کہ ای وی ایم کا ’ٹرن آؤٹ‘ کم ہوجائے ، اور نہ ووٹر کے ساتھ غلطی یا فراڈ میں اضافہ ممکن ہے اور اس بات کا بھی کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ جس میں مشینوں کو ’پیپر ٹرائل‘ کے ذریعہ جانچنے پر ای وی ا یمس کے علاوہ دیگر مشینوں سے الگ کارکردگی یا بہتر کارکردگی دکھائیں‘‘۔
اخبار ’ہندو‘ میں شائع شدہ آرٹیکل کے بموجب ای وی ایم ایک ’سنگل چپ یونٹ‘ ہے جوپہلے سے پروگرامڈ کیا ہوا ہوتا ہے جس میں احکامات کا تسلسل ہوتا ہے جسے صرف مخصوص مشین ہی جو وائر کنکشن سے مربوط ہو ، پڑھ اور سمجھ سکتی ہے ۔ اس آرٹیکل میں مزید کہا گیا کہ احکامات کو کبھی وہ ٹھکرا بھی دیتی ہے ، تاہم عہدیدار اس غلطی کو فوری پہچان کرتے ہوئے اسے درست بھی کردیتے ہیں۔ اس میں مزید بتایا گیا کہ اندرونی سرکٹ کو تبدیل کئے جانے کے امکانات ہیں تاہم یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ جیسا کہ الیکشن کمیشن نے کہا اس صورت میں وہ مشین (ای وی ایم) کو مکمل طور پر بدل دیں گے جس کی وجہ سے اس میں کوئی چھیڑ چھاڑ کا امکان باقی نہیں رہے گا ۔ اب آیئے اس امکان کی طرف کہ جس میں ای وی ایم مشینوں کو ’’ہیک‘‘ کرنے کی بات کہی گئی ہے جو وائی فائی ، بلو ٹوتھ یا فریکونسیز کا استعمال کرتے ہوئے کرنے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ۔
سال 2017 ء میں گجرات اسمبلی انتخابات کے دوران ، کانگریسی امیدواروں نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے 3 ای وی ایم کو ’’بلو ٹوتھ‘‘ سے جوڑ دیا ہے ۔ سنجیو کمار ، چیف الیکٹورل آفیسر نے وضاحت کی کہ ’’ای وی ایم میں بلو ٹوتھ سے جڑنے کی کوئی صلاحیت رکھی گئی ہے یا پھر وائی فائی اور انٹرنیٹ سے وہ متصل ہوسکتا ہے ۔ علاوہ ازیں چپ یا مشین کو کوئی بھی اور کسی قسم کا وائرس متاثر نہیں کرسکتا۔ ایپکس سائنٹسٹ کمیٹی نے ان مشینوں کی اسکریننگ کی ہے قبل اس کے کہ انہیں ’’مینو فیکچرنگ یونٹس کو تیاری کیلئے بھیجا جائے ‘‘۔ مزید برآں ، الیکشن کمیشن نے ٹوئیٹر پر بھی اس بات کی وضاحت کی کہ ای وی ایم ’اسٹرانگ رومس‘ میں مکمل طور پر محفوظ ہیں۔
آخر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ای وی ایم کو اس انداز میں تخلیق کیا گیا ہے کہ جس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کو اگر مکمل طور پر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔