رے حنانیہ
کئی ہفتوں سے جنگجو تنظیم حماس نے بار بار اعلان کیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تصادم کو بڑھاوا دینا نہیں چاہتی تاکہ دونوں جانب ہلاکتوں سے بچا جاسکے لیکن دوسری جانب اسرائیل کی انتہا پسند حکومت حالات کو بد سے بد تر بنانے پر مصر ہے ۔ غزہ کی اسرائیل کے ساتھ سرحد پر تصادم اور ہلاکتوں کے خلاف تمام گوشوں سے نہ صرف مذمت کی جارہی ہے بلکہ تناؤ میں کمی پر زور دیا جارہا ہے ۔ اسی اثناء تل ابیب نے اتوار کو چند خفیہ آفیسرز کو عرب شہریوں کے لباس میں جس میں خواتین بھی شامل تھیں، غزہ میں داخل کیا۔ اب تک کی لڑائی میں جملہ سات فلسطینی بشمول شہری اور ایک حماس کا سینئر کمانڈر نور برکی ہلاک ہوگئے اور اسرائیل کا ایک لیفٹننٹ کرنل بھی اس تصادم میں ہلاک ہوگیا ۔ اسرائیل کی جانب سے اس تازہ محاصرہ اور حملہ کا کوئی جواز نہیں بتایا گیا لیکن ماہرین کی رائے ہے کہ اس کا مقصد امن کے وقفہ میں خلل اندازی کرنا ہے۔ حالیہ عرصہ میں حماس نے واضح طور پر کہا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ کوئی تصادم نہیں چاہتے اور حکومت اسرائیل نے غزہ میں زائد مقدار میں ایندھن اور برقی سربراہی پہنچانے کا انتظام کیا ہے تاکہ 1.8 ملین فلسطینی عوام جو اسرائیلی محاصرہ میں ہے ، راحت پہنچائے۔
مصر، قطر اور اقوام متحدہ سعی کر رہے ہیں کہ معاہدہ کو قطعیت دی جائے تاکہ دونوں جانب کے اور غزہ سرحد ہلاکتوں پر قابو پایا جاسکے ۔ رپورٹس کے مطابق قطر نے حماس کو کئی ملین ڈالر کی رقم روانہ کی ہے تاکہ غزہ کے عوام کو معاشی راحت ملے۔ غزہ کی نصف آبادی غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور امریکہ کی جانب سے یو این ریلیف اور ورکس ایجنسیز کو فنڈز کی کٹوتی کے باعث فلسطینی عوام پر مزید غربت کا بوجھ بڑھ جائے گا۔ ستمبر میں ورلڈ بینک نے انتباہ دیا تھا کہ غزہ کی مکمل معیشت تباہی کے دہانے پر ہے ۔ 30 مارچ کو شروع ہوئے لینڈ ڈے کے موقع پر سے آج تک غزہ سرحد پر فلسطینی شہریوں کے قتل عام پر بھی بات چیت جاری ہے ۔ ان احتجاجی مظاہروں کا مقصد 2005 ء سے نافذ العمل غزہ ناکہ بندی کو ختم کرنا ہے جس کے نتیجہ میں 2001 ء کے آغاز میں مصر کی مدد سے اسرائیل نے اپنے کچھ نو آبادیات اور سپاہیوں سے دستبرداری اختیار کی تھی ۔ اسرائیل اپنی حفاظتی چوکی کے اطراف و ا کناف اپنی فوج کواعلیٰ قسم کے ہلاکت خیز ہتھیاروں کے ساتھ تعین کیا ہے تااکہ نہتے فلسطینیوں کو جو صرف اپنے 51 سالہ قبضہ کو ختم کرنے کیلئے مظاہروں ، نعروں میں مشغول ہوتے ہیں ، کو فائرنگ کر کے ہلاک کردیا جائے ۔ ان سینکڑوں ہلاکتوں میں نہ صرف معصوم شہری شامل ہیں بلکہ رپورٹرز ، نرسس ، جہد کار اور کم عمر لڑ کے شامل ہیں جو حماس کے احتجاج میں مدد کیلئے آئے تھے ۔ کوئی وجہ نہیں ہے کہ اسرائیل کی در پردہ مہم جوئی کے نتیجہ میں نیا تصادم پھوٹ پرے گا ۔ کئی اور جانیں بھی ضائع ہوں گی۔ اسرائیل کی نئی مہم جوئی کے چند گھنٹے کے اندر ہی اسرائیلی لڑاکا طیارے غزہ پر دندناتے ہوئے بمباری کرنے لگے اور اس کے نتیجہ میں کئی مکانات اور بلڈنگس منہدم ہوگئے اور اس جارحیت کے جواب میں حماس نے بھی اسرائیل کے اندرونی علاقوں میں اندھا دھند راکٹوں کی بارش کردی جس کے باعث اسرائیل کو یہ جواز مل گیا کہ حماس اسرائیل کی بقاء کیلئے خطرہ ہے، لہذا ان پر بے تحاشہ بمباری کی جائے۔ اس تبدیلی کے ساتھ ہی حماس اور فلسطینی اتھاریٹی کے درمیان جو مقبوضہ اسرائیل ویسٹ بینک میں حکومت چلاتی ہے ، تناؤ کی کیفیت پیدا ہوگئی ۔ اس اچانک تبدیلی پر فلسطینی پی اے صدر محمود عباس نے غصہ کا اظہار کیا اور حماس پر الزام لگایا کہ وہ مملکت فلسطین کے قیام بشمول ویسٹ بینک اور غزہ کے خطرہ میں ڈال دیا ہے ۔ فلسطینی صدر اور ہیرو یاسر عرفات کی چودھویں برسی کے موقع پر محمود عباس نے بیان دیا کہ وہ سازشوں کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں اور انہوں نے امریکہ اسرائیل اور حماس پرالزام لگایا کہ وہ امن میں رکاوٹ پیدا کرنے کی مسلسل کوشش میں ہیں۔ نہ صرف غزہ بلکہ فلسطینی سوسائٹی میں جاری بحران کے باعث نہ صرف غزہ بلکہ مکمل فلسطینی سوسائٹی اس کی مدد میں امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے امن میں رکاوٹ کے باوجود حماس فلسطینی مملکت کے قیام میں رکاوٹ کا سبب بنے ہوئے ہیں ۔ اسرائیل کی جانب سے مکمل فوجی قبضہ اور جھڑپوں کے باعث جس میں کئی ہزار فلسطینی اور کئی سو اسرائیل اپنی جان گنواں بیٹھے ہوئے ہیں، کے باوجود حماس ایک ناقابل تسخیر فوجی طاقت کے طور پر برقرار ہے لیکن اس تنازعہ کی ذمہ داری اسرائیل کے کاندھوں پر جاتی ہے جس نے رملہ میں موجود فلسطینی اتھاریٹی کو نظر انداز کرتے ہوئے حماس کو مستحکم بنانے میں مشغول ہے۔ وائیٹ ہاؤز کی جانب سے مالی امداد کو روک دینے کے باعث فلسطینی اتھاریٹی مزید کمزور ہوگئی ہے جس سے عوام میں غم و غصہ اور ما یوسی کے نتیجہ میں حماس کو مز ید استحکام ملا ہے ۔ حالیہ تشدد سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل کس آسانی سے زیادہ سے زیادہ فلسطینیوں کو اور کم از کم اسرائیلی افراد کو ہلاک کرنے کا باعث بن گیا ہے لیکن جو کچھ بھی ہو اس سے صاف ظاہر ہے کہ اسرائیل کی دانست میں امن کوئی نام کی چیز ہی نہیں ہے ۔ اسرائیل اگر اس علاقہ میں امن چاہتا ہے تو سب سے پہلے غزہ ناکہ بندی ختم کر کے مغربی پٹی میں فوجی مہم جوئی کو روک دے اور ساتھ ساتھ غزہ اور ویسٹ بینک کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرکے دونوں علاقوں میں ایک ہی حکومت کے قیام کی راہ ہموار کرے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل تمام امن کوششوں کو ختم کردینا چاہتا ہے کیونکہ اگر وہ اس معاملہ میں سنجیدہ ہوتا تو غزہ میں خفیہ آپریشن ٹیم کو روانہ نہ کرتا جس کے باعث یہ اشتعال انگیزی ہوتی اور نہ ہی ایک معمولی جھڑپ بڑے تصادم کا باعث بنتی۔