کے این واصف
سوشیل میڈیا پر پچھلے ہفتہ ایک مختصر سا نصیحت آمیز ویڈیو کلپ جاری کیا گیا جو روزہ سے متعلق تھا۔ یہ پیام ہمارے پڑوسی ملک کے کسی سوشیل میڈیا گروپ نے بھیجا تھا جس میں ایک چھوٹا واقعہ فلم بند کیا گیا تھا جس میں دکھایا گیا تھا کہ دو نوجوان ایک عمر رسیدہ شخص کو کسی سنسان پارک میں بیٹھا کچھ کھاتے ہوئے دیکھتے ہیں اور قریب جاکر اس شخص سے پوچھتے ہیں چچا جان کیا آپ نے روزہ نہیں رکھا ؟ بوڑھا جواب دیتا ہے ’’کیوں نہیں‘‘ میں نے روزہ رکھا ہوا ہے مگر میں دن میں صرف پانی پیتا ہوں اور کھانا کھاتا ہوں۔ یہ سن کر نوجوان ہنس پڑتے ہیں اور کہتے ہیں ’’کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے ؟ ‘‘ بوڑھا مزیدکہتا ’’ہاں میں جھوٹ نہیں بولتا، کسی کا دل نہیں دکھاتا ، کسی سے حسد نہیں کرتا ، اپنے محسن کی ناشکری نہیں کرتا ، مال حرام نہیں کھاتا، اپنی ذمہ داریاں اور فرائض منصبی دیانتداری سے انجام دیتا ہوں ، اپنے ذمہ حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کرتا، کسی سے دشمنی نہیں پالتا، دل میں بغض و کینہ نہیں رکھتا، اعزا و احباب سے تعلق نہیں توڑتا چونکہ مجھے ایک عارضہ لاحق ہے ، اس لئے میں اپنے معدے کو لمبا عرصہ خالی نہیں رکھ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ میں اس وقت آپ کو کچھ کھاتا نظر آگیا۔ پھر وہ بوڑھا شخص ان نوجوانوں سے پوچھتا ہے ’’کیا آپ لوگ بھی روزہ دار ہیں‘‘؟ تب ان میں سے ایک نوجوان نے سر جھکائے ہوئے آہستگی سے جواب دیا‘‘ نہیں ہم صرف کھانا نہیں کھاتے۔
قارئین WhatsApp پر جاری اس پیام کو ہزاروں ، لاکھوں مسلمانوں نے دیکھا ہوگا لیکن کیا ہم نے اس پیام کی روشنی میں اپنا محاسبہ کیا ؟ کیا اس پیام کے سامعین نے اپنے آپ سے سوال کیا کہ کیا ہم نے بھی ایسا روزہ تو نہیں رکھا اور اگر سوال کیا ہے تو ہماری اکثریت متذکرہ نوجوان کی طرح یہی کہے گی کہ ’’ہم صرف کھانا نہیں کھاتے۔ حضرات اگر ایسا ہے تو یہ بہت ہی افسوسناک صورتحال ہے ۔بھلا سوچئے ہم سخت ترین موسم میں بھی 15 گھنٹے سے زیادہ کا روزہ رکھتے ہیں۔ ماہ رمضان میں ہم نہ صرف فرائض بلکہ نفل عبادتوں کی پابندی کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ روزہ کی حالت میں طاقت رکھنے کے باو جود خلوت میں بھی کچھ کھانے پینے کا تصور تک نہیں کرتے۔
یعنی ماہ رمضان میں یہ ہمارے تقوے کا عالم ہوتا ہے ۔ مگر کیا ہم کبھی ان اعمال کی پابندی کی طرف بھی غور کرتے ہیں جو اوپر اس بزرگ شخص نے نوجوانوں سے کہیں تھیں۔ روزہ اپنے نفس پہ قابو پانے کی عملی تربیت ہے ۔ روزہ ایک ایسا قالب یا سانچا ہے جس میں ڈھل کر انسان کو ایک ایسا بندے مومن ہوجانا چاہئے جس کی توقع ہم سے ہمارا رب کرتا ہے ۔ مسلمان کے بنیادی اخلاق جس کی پابندی کی تعلیم و ہدایت ہمارا مذہب دیتا ہے و نیز حقوق العباد کی ادائیگی کے بغیر صوم و صلوۃ اور دیگر عبادت کی پا بندی کرنے کی مثال کسی نے یوں دی ہے کہ جیسے کوئی بندہ اپنی عبادت کے پھوٹے ہوئے مٹکے میں اجر و ثواب کا پانی بھرنے کی کوشش کر رہا ہو۔
حضرات آج مہنگائی کا رونا ہر شخص رو رہا ہے۔ موقع پرست تاجر بازار میں اشیاء کی مانگ کو دیکھتے ہوئے قیمتوں میں اچانک اضافہ کر کے خریداروں کا استحصال کرتے ہیں۔ ماہ رمضان منافع خوروں کا خاص ٹارگٹ ہے ۔ بظاہر تو ماہ رمضان میں مسلمان ایک لمبا وقفہ کھانا پینا ترک کردیتے ہیں ، یعنی اس طرح رمضان میں اشیائے مایحتاج کی مانگ میں کمی واقع ہونی چاہئے ۔ مگر حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ ماہ رمضان میں عام طور سے لوگ اپنی خوراک کی مقدار بڑھا لیتے ہیں۔ رمضان کیلئے نئی نئی ڈشس تیار کی جاتی ہیں۔ افطار کی کچھ ڈشس تو ایسی ہیں کہ لگتا ہے اس کے بغیر افطار نہیں ہوگا جس کے سبب غذائی اشیاء کی مانگ میں بے تحاشہ اضافہ ہوجاتا ہے اور اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بازار میں تاجر قیمتیں بڑھا دیتے ہیں ۔ دوسرے معنوں میں عوام خود تاجروں کو استحصال کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ اگر عوام وہ تمام غذائیں جنہیں ہم رمضان میں کھانا ضروری قرار دے رہے ہیں ،ترک کریں یا ہم ایک ہفتہ ہی سہی ان کا استعمال بند کرنے کا ارادہ کرلیں اور صرف کھجور ، پانی اور ایک آدھ دیگر مشروب سے افطار کرلیں اور نماز کے بعد فوری وہی کھانا کھالیں جو عام دنوں میں کھاتے ہیں تو ایک طرف تو منافع خوروں کا دماغ ٹھکانے پر آجائے گا اور دوسرے یہ کہ ہمارا 15 گھنٹے کا روزہ رکھ کر اچانک افطار میں بیسیوں آئٹمس کھانا اس مقصد کی نفی کردیتا ہے جس کیلئے ہم نے روزہ رکھا یا ہمیں روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ روزہ کا حکم تو ایک عملی تربیت ہے کہ ہم ان کے درد کا احساس کریں جن کے چولہوں میں نہیں بلکہ پیٹ میں آگ لگی ہوتی ہے ۔ جن کے پاس اکثر فاقے چلتے ہیں یا انہیں کبھی پیٹ بھر کھانا ہی میسر نہیں ہوتا ۔ ان کم نصیب بندگان خدا کی تکلیفوں کا احساس ہمیں تب ہی ہوسکتا ہے جب ہم 15 گھنٹے کے روزہ کے بعد بھی سادی سی غذا وہ بھی اپنی ضرورت سے کچھ کم کھائیںاور کم از کم رمضان کے اس پورے مہینے میں بھوک کے احساس کو چوبیسوں گھنٹے قائم رکھیں تب ہی جاکر ہم ان مفلس اور بھوکے انسانوں کی مدد کیلئے آمادہ ہوں گے ۔ ماہ رمضان میں جن مرغن غذاؤں کی خصوصی ڈشس کا اہتمام کیا جاتاہے ، سحر اور افطار میں ان کے استعمال سے ہم بھوک کا احساس نہیں کرسکتے۔ نیز ماہ رمضان میں ہم اپنی غذا کے معیار اور مقدار کو بڑھا دیتے اس طرح ہم اغیار کی نظر میں روزے کے اس بے مثال مقصد کی غلط تصویر پیش کرتے ہیں۔ عام غیر مسلم تو ماہ رمضان میں ہمارے کھانے پینے کے معیار اور مقدار کو دیکھ کر یہ سمجھتے ہوں کہ ماہ رمضان بھوکے رہ کر بھوک محسوس کرنے کا نہیں بلکہ اچھا اور زیادہ کھانے کا مہینہ ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اغیار تک ہم یہ پیام پہنچائیں کہ ہمارا دین ہمیں محروموں ، غریبوں اور محتاجوں کے دکھ درد کو عملی طور پر سمجھنے کیلئے ہمیں یہ مبارک مہینہ عطا کیا ہے ۔ اگر ہم روزے کے حقیقی مقصد کو سمجھتے ہوئے روزہ رکھیں تو دنیا کے اربوں غیر مسلموں تک ہم اسلام کی تبلیغ کا ایک خاموش پیام ان تک پہنچائیں گے ۔ ہم اغیار تک یہ پیام پہنچائیں گے کہ دین اسلام صرف زکوٰۃ کے ذریعہ غرباء و مساکین کی مدد کی تلقین نہیں کرتا بلکہ ہمارے دین فطرت نے ہمیں ان کم نصیب لوگوںکی بھوک پیاس کو عملی طور پر محسوس کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں اچھا، سچا اور دردمند مسلمان بنے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کیلئے کرو بیان کچھ کم نہ تھیں
knwasif@yahoo.com