کہاں تھے یہ لوگ اور کہاں گئے وہ لوگ

غضنفر علی خان
ملک کی آزادی کے بعد بلکہ حالیہ عرصہ میں دو قسم کے لوگ پیدا ہوئے۔ ایک گروپ جو عددی اعتبار سے کوئی وجود نہیں رکھتا تھا اور نہ آج رکھتا ہے۔ ان فرقہ پرست ہر قسم کے تعصب میں گرفتار ہندو دھرم کو ملک پر مسلط کرنا چاہتا تھا جو ہندو دھرم یا پورے ہندوستان کو قبول نہیں تھا۔ آزادی کی جنگ لڑنے والے قائدین تو رخصت ہوگئے۔ یہ روشن مینار اپنی یادیں اپنی خدمات کی شکل میں چھوڑ گئے۔ اب آزادی کی لڑائی میں سرکشوں کے کارنامے یاد رہ گئے۔ اب ڈھونڈنے پر پتہ چلتا ہے بشرطیکہ موجودہ تاریخ داں اپنی تصانیف اپنی کتابوں اور مواد میں دیانتداری سے کام لیں۔ آج ملک پر حکومت قائم کرنے کی ہرممکن کوشش کرنے والے فرقہ پرست بی جے پی، آر ایس ایس بلکہ سنگھ پریوار کو یہ شرم تک نہیں آتی کہ جنگ آزادی میں انھوں نے ہر قدم پر تحریک کی پیٹھ میں خنجر گھونپا تھا۔ جب مجاہدین آزادی بلا لحاظ مذہب و عقیدہ اور دھرم صرف ایک مقصد ملک کی آزادی کے لئے پھانسیوں پر لٹک رہے تھے۔ ہر طرف ’’انقلاب زندہ باد‘‘ کے نعرے گونج رہے تھے۔ ہندوستان کی مائیں اپنے بیٹوں کو اپنے ہاتھوں سے کفن باندھنا فخر کی بات سمجھتی تھیں۔ یہ آج کے حکمرانی کی خواہش رکھنے والے ہندو دھرم کے نام پر سب کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ہندوستان جس وقت جوئے خون بن گیا تھا یہ لوگ چوہوں کی طرح اپنے بلوں میں چھپے ہوئے تھے۔ ان کا دور دور تک پتہ نہیں تھا۔ ہندوستانیوں کے خون کے پیاسے انگریز گلی گلی چپہ چپہ پر انھیں ڈھونڈتے پھرتے اور جہاں جس طرح چاہے ہلاک کردیتے تھے۔ یہ بزدل لوگ جوکہ آج خود کو ہندوستان پر حکومت کا حقدار سمجھتے ہیں کہیں دستیاب نہیں تھے۔ ان کے آقا گورے انگریز ان کی حفاظت کرتے تھے۔ فرقہ پرست تو یہ بھی نہیں مانتے کہ یہ کون لوگ تھے اور آزادی کی جدوجہد میں کہاں غائب ہوگئے تھے۔ ان کا حکومت کرنے کا دعویٰ کیسے اچانک پیدا ہوگیا کیوں آج کے آزاد اور جمہوری ہندوستان کے عوام کو نہیں معلوم کہ یہ کون لوگ تھے آج ان فرقہ پرست طاقتوں کے لیڈر خود اس بات سے پوری طرح واقف نہیں ہیں۔ آزادی کیسے حاصل ہوئی اس کی کتنی بھاری قیمت ہم کو ادا کرنی پڑی۔ اگر یہ عناصر یہ لوگ جو آزادی کی تحریک میں پس پردہ انگریزوں کی سیوا کرتے تھے یہ جانتے کہ ان کے لیڈروں نے ملک سے کتنی بڑی غداری کی تھی تو کبھی ان کا ساتھ نہیں دیتے۔ لیکن آج بے شرمی سے خم ٹھونک کر آزادی کے لڑائی میں حصہ نہ لینے کے باوجود آزادی کے اور دیش پر حکومت کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ آزادی کی جنگ میں حصہ لینے والے کانگریسیوں اور دوسرے لوگوں نے خود اپنی ذمہ داریوں سے فرار حاصل کرلی ہے۔ نہ صرف آزادی بلکہ اس کے بعد ملک کی تعمیر نو میں آزادی کے ہیرو ملک کے پہلے وزیراعظم پنڈت نہرو نے نیا آزاد ہندوستان تعمیر کیا۔ انھوں نے دیگر قائدین کی طرح ہندوستان کو سیکولر جمہوری ملک قرار دیا۔ یہ آزادی کے لئے لڑنے والے لوگوں کی وہ حقیقی تاریخ ہے جوکہ آئندہ سنہری لفظوں میں لکھی جائے گی۔ اس لئے جواہرلال نہرو کو نئے ہندوستان کا معمار کہا جاتا ہے۔ پنڈت نہرو نے ہندوستان سے پہلے ہی سے واقفیت حاصل کرلی تھی ان کی شہرہ آفاق کتاب ’’ہندوستان ایک کھوج‘‘ نے ہندوستان کے مزاج اس کی فراخدلی کو خوب سمجھ لیا تھا اور ان لوگوں کی طرح منہ چھپائے نہیں بیٹھے تھے جو ہندوستان کے سیکولرازم کے دشمن تھے اور آج بھی اول نمبر کے دشمن ہیں۔ مذہبی رواداری، تحمل پسندی کی اعلیٰ صفت کے حامل ان لیڈروں نے جو سب کچھ قربان کرچکے تھے اور دوسرے عقیدہ کو برداشت کرنے کا وصف خاص اپنے اندر رکھتے تھے، آزادی حاصل کی، ان جیالے اور صاف کردار لوگوں کے ان پاک عزائم کے برخلاف فرقہ پرستی کے علمبرداروں نے آزادی کے کچھ ہی دن بعد قومی رہنما مہاتما گاندھی کا قتل کردیا۔ بھلا ان لوگوں کو ہندوستانی عوام کیونکر حکومت کرنے کا حق دے سکتے ہیں جو نہ صرف گاندھی کے قاتل ہیں بلکہ ان کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کو اپنا ہیرو مانتے ہیں۔ آج اقتدار کی کشمکش ان میں تنگ نظر گاندھی کے قاتلوں اور نئے ہندوستان کی تعمیر کرنے والے سیکولر طاقتوں کے مابین ہونے والی ہے جو اس بات کا فیصلہ کرے گی۔ فرقہ پرست آر ایس ایس، بی جے پی اور سنگھ پریوار کو کامیابی دی جائے یا ملک کے غیر مذہبی حیثیت برقرار رکھی جائے۔ تشویش کی بات تو یہ ہے کہ آزاد ہندوستان کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والوں نے بڑی حد تک اپنے ماضی قریب کے اوصاف کو فراموش کردیا ہے۔ اب اگر کانگریس پارٹی اپنی ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں یہ اعلان کرتی ہے کہ ’’مودی حکومت کے خلاف دوسری جدوجہد آزادی ضروری ہوگئی ہے تو کانگریس کو خود اپنا محاسبہ کرنا پڑے گا۔ کونسی آزادی کی بات کانگریس کررہی ہے۔ ہمارا ملک تو مکمل طور پر آزاد ہے اور اب ساری دنیا میں کوئی طاقت نہیں ہے جو ہم سے ہماری آزادی کو چھین سکے۔ سوال یہ ہے کہ ’’دوسری جنگ آزادی کس کے خلاف لڑی جائے۔ اب تو انگریز یہ ہمت نہیں کرسکتا کہ ہماری آزادی خدانخواستہ ختم کردے عجیب بات یہ ہے کہ ہمیں دوسری جنگ آزادی اپنے ملک کی فرقہ پرست طاقتوں کے خلاف لڑنی پڑے گی کیوں کہ بی جے پی اور مودی حکومت نے آزادانہ سوچنے سمجھنے کے ہمارے بنیادی حق کو ہم سے چھین لیا ہے، ہمارے دستوری حقوق کو مسمار کردیا ہے۔ ہم آزادانہ طور پر اپنا عقیدہ برقرار نہیں رکھ سکتے۔ مودی حکومت بڑی تیزی سے ہندوستان کو ایک ہی دھرم اور عقیدہ والا ملک بنانا چاہتی ہے۔ اگر ان مذموم عزائم کے خلاف سارا ملک کھڑا ہوجاتا ہے تو یہ بھی تنگ نظر اور فرقہ پرست طاقتوں کے خلاف جدوجہد ہوگی۔ آزادی کا مطلب یہ نہیں کہ ہندوستان کو کسی اور قوم کے زیرتسلط کردیا جائے۔ بلکہ اصل مطلب یہ ہے کہ ملک کو تنگ نظر اور فرقہ پرست طاقتوں کے چنگل سے بچایا جائے۔ جس طرح انگریزوں کے خلاف سارا ہندوستان اُٹھ کھڑا تھا اسی طرح آج فرقہ پرستوں کے خلاف عوامی احتجاج اگر کانگریس کی ورکنگ کمیٹی کا ارادہ ہے تو پھر خود کانگریس پارٹی کو اپنے تیور بدلنے پڑیں گے۔ پارٹی کو ملک کی دیگر سیکولر طاقتوں کے ساتھ ہونا پڑے گا۔ ایسے سیکولر اتحاد کے امکانات تو پیدا ہورہے ہیں لیکن ان کی اصلی اور عملی صورتگری کے امکانات ہنوز دہلی دور است کے مصداق ہے۔