رشیدالدین
پاکستان سے مذاکرات سے انکار…چار ریاستوں کی چناو مہم
موہن بھاگوت کی زہر افشانی… خفیہ ایجنڈہ کا حصہ
کیا ملک کے مفادات پر سیاسی مفادات کو ترجیح دی جاسکتی ہے؟ ظاہر ہے کہ کوئی بھی ذی شعور شخص یہی کہے گا کہ ملک کے مفادات کے آگے سیاسی مفادات کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ جب ملک مستحکم ، طاقتور اور ترقی یافتہ ہوگا تو اسی میں عوام کی بھلائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کبھی ملک کے مفادات کے تحفظ کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو سیاسی جماعتیں اپنے ایجنڈے اور جھنڈے کو چھوڑ کر متحد نظر آتی ہیں لیکن ان دنوں آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کے ریموٹ کنٹرول سے چلنے والی بی جے پی حکومت کا عجب حال ہے۔ سیاسی مقصد براری اور ملک کی تمام ریاستوں پر حکمرانی کا جیسے جنون سوار ہوچکا ہے۔ سیاسی فائدہ کیلئے صرف قومی نہیں بلکہ بین ا لاقوامی مسائل پر بھی سیاست کرتے ہوئے اسے حب الوطنی کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ پاکستان سے رشتوں کو استوار کرنے کا معاملہ ہو کہ فرقہ وارانہ ایجنڈہ کے ذریعہ عوام کو تقسیم کرنے کی کوشش ، بی جے پی کے پیش نظر صرف سیاسی فائدہ ہے۔ پاکستان سے دوستی اور تعلقات بہتر بنانے کے مسئلہ پر گزشتہ تین ماہ کے دوران نریندر مودی حکومت کے کئی رنگ عوام کے سامنے پیش ہوئے۔
پاکستانی ہائی کمشنر کی جانب سے حریت قائدین سے ملاقات پر برہم ہندوستان نے دونوں ممالک کے معتمدین خارجہ کی طئے شدہ ملاقات کو منسوخ کردیا تو دوسری طرف آر ایس ایس سر سنچالک موہن بھاگوت نے ہندوستان کی شناخت کو ہندو توا سے جوڑتے ہوئے اقلیتوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگرچہ یہ دونوں علحدہ نوعیت کے واقعات ہیں لیکن ان کا تعلق یقیناً 4 ریاستوں کے مجوزہ انتخابات سے ہے۔ جموں و کشمیر سمیت ہریانہ ، مہاراشٹرا اور جھارکھنڈ کے مجوزہ انتخابات کی مہم کا بی جے پی نے عملاً آغاز کردیا ہے۔ جس طرح عام انتخابات میں مخالف پاکستان بیانات کے ذریعہ ایک مخصوص طبقہ کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تھی، اب دوبارہ بی جے پی اسی راہ پر گامزن دکھائی دے رہی ہے۔
پاکستان سے مذاکرات کی منسوخی کے فیصلہ کے بعد دنیا یہ سوچنے پر مجبور ہوچکی ہے کہ گزشتہ تین ماہ کے دوران نریندر مودی نے جس خارجہ پالیسی کا مظاہرہ کیا تھا، وہ حقیقی تھی یا آج کا موقف درست ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق پاکستان سے بات چیت نہ کرنے کے پس پردہ سیاسی عوامل کارفرما ہیں ۔ کسی ملک کی خارجہ پالیسی کوئی انتخابی منشور نہیں کہ وقت اور حالات کی نزاکت کے مطابق فائدہ کیلئے استعمال کرتے ہوئے بعد میں ترک کردیا جائے۔ خارجہ پالیسی پر دنیا بھر سے تعلقات اور باہمی تعاون و اشتراک کا انحصار ہوتا ہے۔ اسے جب چاہا اور جیسے چاہا تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ نریندر مودی جو کل تک پاکستان کے بشمول تمام سارک ممالک میں اتحاد کی دہائی دے رہے تھے، اپنے اس جملے کو بھول گئے کہ دوست تبدیل کئے جاسکتے ہیں ، پڑوسی نہیں۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ مودی حکومت کیلئے سفارتی تعلقات اور سفارتی سرگرمیاں T-20 کرکٹ میاچ سے زیادہ کچھ نہیں۔ ہند۔پاک معتمدین خارجہ کی بات چیت کی منسوخی کا فیصلہ جس طرح جلد بازی اور روا روی میں لیا گیا ، اس نے دوسرے پڑوسیوں جیسے نیپال اور بھوٹان کے ذہنوں میں اندیشے پیدا کردیئے ہیں کہ مودی نے ان سے جو معاہدے کئے تھے ، کیا وہ آئندہ برقرار رہیں گے ؟ پاکستان سے مذاکرات منسوخ کرنے کیلئے ہندوستان نے جس وجہ کو بنیاد بنایا ہے وہ باعث حیرت ہے۔ ہندوستان میں مقیم پاکستانی سفارتکاروں اور ہندوستان کا دورہ کرنے والی اہم پاکستانی شخصیتوں کی جانب سے حریت قائدین سے ملاقات کوئی نئی بات نہیں بلکہ گزشتہ ایک دہے سے زائد عرصہ سے یہ روایت چلی آرہی ہے۔ 2001 ء میں آگرہ چوٹی کانفرنس میں آمد کے موقع پر جنرل پرویز مشرف نے بھی حریت قائدین سے بات چیت کی تھی۔
سابق وزرائے خارجہ سرتاج عزیز اور حنا ربانی کھر نے بھی کشمیری قائدین سے مذاکرات کئے تھے۔ مسئلہ کشمیر کے حل میں کشمیری قیادت کی شمولیت کا پاکستان شروع سے حامی رہا ہے، اگرچہ یہ ملاقاتیں ہندوستان کو پسند نہیں لیکن کبھی بھی اس نے مذاکرات سے علحدگی اختیار نہیں کی۔ ویسے بھی مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلہ میں ہندوستانی حکومت نے بھی رہا حریت قائدین سے کھلے اور خفیہ مذاکرات کئے ہیں۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے کشمیر کے مسئلہ پر باقاعدہ راؤنڈ ٹیبل کانفرنسوں کا اہتمام کیا تھا جس میں کشمیر کے تمام گروپس کو دعوت دی گئی تھی۔ پاکستانی ہائی کمشنر کے اس اقدام پر ناراضگی کافی تھی لیکن مذاکرات کے موقع کو ہاتھ سے گنوانا نریندر مودی حکومت کی تنگ نظری کو ثابت کرتا ہے۔ پارلیمنٹ پر حملہ ، 26/11 کے ممبئی دہشت گرد حملے اور سرحد پر ہندوستانی فوجیوں کی ہلاکت کے باوجود ہندوستان نے کبھی بھی مذاکرات کی میز سے خود کو علحدہ نہیں کیا۔ اٹل بہاری واجپائی کی طرز حکمرانی کا دعویٰ کرنے والے نریندر مودی یہ بھول گئے کہ کارگل لڑائی کے باوجود واجپائی نے پاکستان سے مذاکرات کو ختم نہیں کیا تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ تنازعات کی یکسوئی کیلئے بات چیت ہی واحد راستہ ہے۔ جہاں تک مسئلہ کشمیر کے حل میں کشمیری قائدین کو تیسرے فریق کے طور پر قبول کرنے کا سوال ہے، ہندوستان اس کے خلاف ہے۔ شملہ معاہدہ اور 1999 ء کے لاہور اعلامیہ میں صرف دونوں ممالک کو ہی فریق مانا گیا۔ اقوام متحدہ میں 1948 ء میں منظورہ قرارداد ابھی بھی برقرار ہے جس میں کشمیری عوام کو حق خود اختیاری اور استصواب عامہ کی بات کہی گئی تھی۔ کشمیری عوام چاہتے ہیں کہ تنازعہ کی یکسوئی میں ان کی رائے بھی حاصل کی جائے اور ان کے جذبات و احساسات کا احترام کئے بغیر کسی فیصلہ کو ان پر مسلط نہ کیا جائے۔ حریت قائدین کو تیسرے فریق کے طور پر شامل کرنے پاکستان کا مطالبہ دراصل اس کی مجبوری ہے۔
اپوزیشن میں رہ کر دہشت گردی کے خاتمہ تک پاکستان سے بات چیت کی مخالفت اور سرحد پار دہشت گرد کیمپوں کو تباہ کرنے کا مطالبہ کرنے والی بی جے پی نے اقتدار سنبھالتے ہی نواز شریف کو کیوں مدعو کیا ؟ اگر اسے پاکستان سے مذاکرات میں دلچسپی نہیں تو پھر نواز شریف کی مہمان نوازی کی کیا ضرورت تھی۔ 25 اگست کو معتمدین خارجہ اور پھر ستمبر میں نیویارک میں دونوں وزرائے اعظم کی ملاقات سے بھی اتفاق کیا گیا تھا ۔ مبصرین کا خیال ہے کہ ہندوستان نے جس تیزی سے مذاکرات سے دوری اختیار کی ، دراصل اس کی نظر چار ریاستوں کے چناؤ پر ہے اور پاکستان بھی اس کھیل میں برابر کا شریک ہے۔ شبہ کیا جارہا ہے کہ بی جے پی کی کامیابی میں پاکستان نے بھی اہم رول ادا کیا تھا اور سرحد پر اشتعال انگیز سرگرمیوں کے ذریعہ رائے دہندوں کو کانگریس سے دور کردیا گیا ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ پاکستانی ہائی کمشنر نے ہندوستان کے اشارہ پر ہی حریت قائدین کو بات چیت کیلئے مدعو کیا تاکہ بی جے پی کو ایک اہم انتخابی موضوع مل جائے۔ اگر یہ غلط ہے تو پھر حکومت کو تنگ نظری اور ہر مسئلہ کو سیاسی عینک سے دیکھنے کا رویہ ترک کرنا ہوگا ۔ نواز شریف کو حلف برداری تقریب میں مدعو کرتے ہوئے دوستی کی جو شروعات کی گئی تھی ، ان بنیادوں کو مستحکم کرنا نریندر مودی حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ ایسے وقت جبکہ نواز شریف کو اندرون ملک سیاسی بحران کا سامنا ہے لیکن ہندوستان سے دوستی میں ان کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے ہندوستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ مذاکرات کا عمل جاری رکھے۔
وزیراعظم نریندر مودی ایسا لگتا ہے کہ ابھی انتخابی مہم سے ابھر نہیں پائے ہیں۔ وہ خود کو وزیراعظم کی حیثیت سے ثابت کرنے میں ابھی تک ناکام رہے۔ چونکہ حکومت کا ریموٹ کنٹرول آر ایس ایس کے ہاتھ میں ہے لہذا مودی کو صرف اسٹار کیمپینر کی طرح میدان میں چھوڑ دیا گیا اور حکومت کے فیصلے آر ایس ایس کر رہی ہے۔ ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کے خفیہ ایجنڈہ کے ساتھ آر ایس ایس نہ صرف حکومت بلکہ پارٹی پر اپنی گرفت مضبوط کرچکی ہے۔ اس کا ثبوت قومی صدر کی حیثیت سے امیت شاہ کا انتخاب اور ان کی ٹیم میں آر ایس ایس بیاک راؤنڈ رکھنے والوں کی شمولیت ہے۔ جب کبھی بی جے پی اقتدار میں رہی حکومت اور پارٹی پر آر ایس ایس کا اثر دیکھا گیا ۔ ایک طرف مودی مساوی انصاف اور اتفاق رائے کی سیاست کا ڈرامہ کر رہے ہیں تو دوسری طرف نفرت پر مبنی مہم کی کمان آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے سنبھال لی ہے۔ ملک میں وقفہ وقفہ سے نفرت کے پرچار کے درمیان بھاگوت نے یہ کہتے ہوئے اپنے خفیہ ایجنڈہ کو بے نقاب کردیا کہ ہندوستان کی شناخت ہندو توا سے ہے لہذا ہندوستان میں بسنے والا ہر شخص ہندو ہے۔ موہن بھاگوت کو جان لینا چاہئے کہ ہندوازم ایک دھرم ہے، وہ ملک کی شناخت نہیں ہوسکتی۔ ملک کی تہذیب ہندوستانیت ، مذہبی رواداری اور کثرت میں وحدت ہندوستان کی شناخت ہے۔ مسلمانوں نے اس ملک پر ایک ہزار برس تک حکمرانی اور جہانبانی کی لیکن ان روایات کو برقرار رکھا۔ اگر مسلم حکمراں اپنے مذہب کو عوام پر مسلط کرتے تو شاید موہن بھاگوت کے آبا و اجداد ہندو نہ ہوتے اور وہ خود بھی۔ بھاگوت کا یہ بیان اقلیتوں پر ’’تہذیبی حملہ‘‘ ہے
اور اقلیتوں کی نفسیات پر اثر انداز ہونے کی ایک کوشش ہے۔ اتفاق رائے کی سیاست کے مکھوٹے کے ساتھ مودی کو عوام سے روبرو کر کے آر ایس ایس اکثریت کے غلبہ کے ساتھ حکومت چلانا چاہتی ہے۔ وزیراعظم اور سنگھ پریوار ہرگز نہ بھولیں کہ مسلمان ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہی نہیں بلکہ ملک کی دوسری بڑی اکثریت ہیں۔ 31 فیصد ووٹ سے برسر اقتدار آنے والے یاد رکھیں کہ سیکولر ووٹ کی تقسیم نے انہیں اقتدار تک پہنچایا ۔ سیکولر ہندوؤں کی اکثریت نے بھی بی جے پی کو ووٹ نہیں دیا ۔ مسلمان حکومت اور پارٹی میں حصہ داری نہیں بلکہ ہر شعبہ ہائے حیات میں مساوی انصاف کے خواہاں ہے جو کہ ان کا حق ہے۔ بی جے پی اور اس کی حکومت سے مسلمانوں کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ وہ فاشسٹ نظریات کے حامل اور جمہوریت پر ایقان نہیں رکھتی۔ اس گئی گزری حالت میں بھی ملک کا میزائیل سائنٹسٹ اے پی جے عبدالکلام ہیں۔ کھیل کود اور فلم انڈسٹری پر بھی مسلمانوں کا سکہ ہے۔ مسلمانوں کو ترقی کے فوائد سے محروم کرنے کی باتیں محض خام خیالی ہے اور ایسے لوگ دراصل احمقوں کی جنت میں جی رہے ہیں۔ مسلمانوں کے بغیر ہندوستان کا تصور ادھورا اور بے رنگ ہے۔ مسلم اقلیت کو بھی چاہئے کہ وہ حالات کا رونا رونے کے بجائے اپنی صلاحیتوں سے ہر شعبہ میں ناگزیر بن جائیں تاکہ ان سے ناانصافی کا کوئی تصور بھی نہ کرسکے۔ موجودہ حالات پر ڈاکٹر راحت اندوری کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
سرحدوں پر بہت تناؤ ہے کیا
کچھ پتہ تو کرو چناؤ ہے کیا