کچھ ایسے معمے ہیں کبھی حل نہیں ہوتے

رشیدالدین
مرکز میں نریندر مودی زیر قیادت این ڈی اے حکومت ایک ہفتہ بعد اقتدار کا ایک سال مکمل کرلے گی عوام کی بھلائی اور اچھے دن کے وعدوں کے ساتھ برسر اقتدار آنے والی اس حکومت کو خواب غفلت سے بیدار ہونے کیلئے ایک سال کا وقت لگ گیا۔ عنان حکومت سنبھالنے کے بعد نریندر مودی نے ان تمام وعدوں کو بھلادیا جن پر اعتبار کرتے ہوئے عوام نے ووٹ دیا تھا۔ غریبوں کو خوشحال بنانے اور اقتدار کے 100 دن میں بیرون ملک سے کالا دھن واپس لاکر ہر شہری کے اکاؤنٹ میں 15 لاکھ روپئے جمع کرنے کا لالچ دیا گیا۔ الغرض عوام کو ہتھیلی میں جنت دکھانے والے نریندر مودی جیسے ملک کو ہی بھلا بیٹھے تھے۔ عوامی مسائل کی یکسوئی اور وعدوں کی تکمیل کے بجائے سکون کی تلاش میں بیرونی ممالک کے دورہ پر نکل پڑے۔ ظاہر ہے کہ جب وعدے ناقابل عمل ہوں تو فرار کا بہترین راستہ یہی تھا۔ ایک سال کے عرصہ میں حکومت اور مودی کی مقبولیت کا گراف جب تیزی سے گرنے لگا تو انہیں ’’گھر واپسی‘‘ کا خیال آیا اور حکومت کے ایک سال کی تکمیل کے ساتھ ہی عوام کے درمیان جانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اکثریت اور اقتدار کے نشہ میں نریندر مودی اور ان کی سرکار عوام کو محض ووٹ بینک تصور کرنے لگی تھی۔ یو پی اے کی 10 سالہ کارکردگی سے مایوس ہوکر اور بی جے پی کے خوش کن وعدوں پر اعتبار کرتے ہوئے عوام نے اس لئے اقتدار عطا نہیں کیا کہ سیر و تفریح میں مشغول ہوجائیں۔ وزیراعظم چونکہ حکومت کے سربراہ ہوتے ہیں، اگر وہی ذمہ داریوں سے فرار اختیار کرلیں تو عوام کی ناراضگی فطری ہے۔ عوامی ناراضگی اور بے چینی محسوس کرنے میں حکومت کو ایک سال کا وقت لگ گیا۔

ایک سال کی تکمیل پر حکومت اور بی جے پی ’’جن کلیان پروو‘‘ کے عنوان سے بنیادی سطح تک عوام سے رجوع ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ 26 مئی سے 3 دن تک وزیراعظم، مرکزی وزراء اور پارٹی کے تمام قائدین عوام سے رجوع ہوکر حکومت کی فلاحی اسکیمات سے واقف کرائیں گے۔ 100 سے زائد ریالیوں کے انعقاد کا فیصلہ کیا گیا تاکہ مواضعات کی سطح تک یہ پیام پہنچے کہ حکومت ان کی خیر خواہ اور مسائل کی یکسوئی کا جذبہ رکھتی ہے۔ حالانکہ دہلی اسمبلی انتخابات میں بدترین شکست کے بعد مودی اور بی جے پی کو خواب غفلت سے بیدار ہوجانا چاہئے تھا لیکن بیرونی ممالک میں مقبولیت سے متعلق میڈیا پروپگنڈہ نے عوامی جذبات اور احساسات سے ہم آہنگ ہونے سے روکے رکھا۔ اب جبکہ بی جے پی کو عوام سے دوری کا احساس ہونے لگا ہے تو سوٹ بوٹ کی سرکار خود کو غریبوں کی سرکار ثابت کرنا چاہتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک سال کی تکمیل پر آخر حکومت کے کیا کارنامے عوام کے سامنے پیش کئے جائیں گے ؟ مودی سرکار نے وعدوں کے سواء کیا کام کیا، جسے کارنامے کی طرح پیش کیا جاسکے۔ عوامی رابطہ اور عوامی بھلائی کے نام پر شروع کی جانے والی مجوزہ مہم دراصل عوام سے اظہار معذرت اور وعدوں کی عدم تکمیل کیلئے اظہار ندامت کے طور پر چلائی جائے۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس اور تمام طبقات کی یکساں ترقی کے وعدے صرف کاغذ پر باقی رہ گئے اور عوام نے اچھے دن کے بارے میں جو خواب سجائے تھے، وہ بکھر گئے۔ بار بار خود کو چائے گی فروخت کرنے والا ظاہر کرتے ہوئے عوامی ہمدردی لوٹنے والے نریندر مودی نے لاکھوں روپئے مالیتی ڈیزائنر سوٹ زیب تن کیا جسے کروڑہا روپئے میں ہراج کیا گیا۔ اس طرح نریندر مودی نے ہندوستان کے غریبوں کا مذاق اڑانے کی کوشش کی ہے۔ یہی مرحلہ تھا جب ہندوستان کا غریب بی جے پی اور مودی کے اصلی چہرہ سے روبرو ہوا۔ اپنی غربت بھری ابتدائی زندگی کے تذکرہ سے ہمدردی حاصل کرنے والے نریندر مودی نے صرف چند کارپوریٹ گھرانوں کے مفادات کو ترجیح دی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صنعتوں کے قیام کیلئے زرعی اراضیات جبراً حاصل کرنے کا قانون تیار کرلیا گیا لیکن راجیہ سبھا میں شکست کے خوف سے پیش نہیں کیا جاسکا۔

تاہم آرڈیننس کے ذریعہ اس مخالف کسان قانون کو لاگو کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ عوام کے ووٹ سے برسر اقتدار آنے والی بی جے پی حکومت صرف خواص کے مفادات کی نگہبان بن گئی۔ ایک سال کے عرصہ میں حکومت کی امیج جب بگڑنے لگی تو مودی کو گھر واپسی کا خیال آیا لیکن اب کافی دیر ہوچکی ہے۔ جس وقت مودی کو حرکت میں آنا تھا، وہ اقتدار کے نشہ میں چور تھے اور جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کو کھلی چھوٹ دیتے ہوئے ناگپور کو حکومت کا ریموٹ کنٹرول تھما دیا تھا۔ وزیراعظم نے اندرون ملک مسائل کو نظرانداز کرتے ہوئے بیرونی دوروں کا ریکارڈ قائم کیا ہے ۔ 11 ماہ میں 16 ممالک اور 12 ویں ماہ چین سمیت مزید تین ممالک کا دورہ کرتے ہوئے 19 ممالک کا احاطہ کرلیا۔ سال کے 365 دنوں میں وزیراعظم تقریباً 68 دن ملک سے باہر رہے۔ اس قدر زائد بیرونی دوروں نے سیاسی تجزیہ نگاروں کو یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ نریندر مودی مختصر قیام کیلئے ہندوستان آرہے ہیں۔ ایک سال کے اس عرصہ میں وزیراعظم نے ملک کی 19 ریاستوں کا دورہ نہیں کیا۔ تاہم عوامی سطح پر منفی رجحان نے مودی کو ریاستوں کا رخ کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ چھتیس گڑھ میں نکسلائٹس سے متاثرہ علاقہ دنتے واڑہ کا دورہ کرتے ہوئے مودی نے یقیناً جرأت مندانہ اقدام کیا ہے۔ 30 برس کے عرصہ میں اس علاقہ کا دورہ کرنے والے مودی پہلے وزیراعظم ہیں۔ دیر آید درست آید کے مصداق وزیراعظم نے بیرونی دوروں کے بارے میں میڈیا کی تنقیدوں پر آخر کار توجہ دی ہے۔

نریندر مودی نے اپنی حکومت کے ایک سال کی تکمیل سے عین قبل چین کا دورہ کیا۔ معاشی اور تجارتی سطح پر مختلف معاہدات کئے لیکن دونوں ممالک کے درمیان سرحدی تنازعہ کا حل تلاش کرنے میں کوئی خاص پیشرفت نہیں ہوسکی۔ 1962 ء سے دونوں ممالک کے درمیان سرحدی تنازعہ چل رہا ہے اور متواتر مذاکرات کے باوجود چین کے موقف میں کوئی نرمی دکھائی نہیں دی۔ اروناچل پردیش کے علاقہ پر چین کی دعویداری اور چینی افواج کی ہندوستان کے حدود میں سرگرمیاں تشویش کا باعث ہیں۔ وزیراعظم نے سرحدی تنازعہ کے علاوہ پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں چین کی جانب سے 46 بلین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا لیکن پاکستان سے چین کی قربت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اور کشمیر کو ہندوستان کا اٹوٹ حصہ تسلیم کرنے میں بھی چین کو تامل ہے۔ چین کے سرکاری ترجمان نے واضح کردیا کہ سرحدی تنازعہ کی راتوں رات یکسوئی ممکن نہیں ہے۔ 8 ماہ قبل چین کے صدر زی جن پنگ نے گجرات سے اپنے دورہ ہند کا آغاز کیا تھا اور وزیراعظم مودی نے احمد آباد پہنچ کر ان کا استقبال کیا تھا۔ ٹھیک اسی طرح مودی نے چین کے صدر کے آبائی مقام زیان سے چین کے دورہ کا آغاز کیا اورجوابی خیرسگالی کے طور پر چین کے صدر بھی مودی کے استقبال کیلئے وہاں پہنچ گئے۔ مودی کسی ملک کے پہلے سربراہ حکومت ہیں جن کا بیجنگ کے باہر استقبال کیا گیا۔ اس دورہ میں مودی کافی بحال نظر آئے۔ ویسے بھی وہ ملک سے زیادہ بیرون ملک زیادہ بحال اور چاق و چوبند دکھائی دیتے ہیں ۔

انہوں نے دورہ کا آغاز جنگی یادگار میوزیم اور بودھ مندر سے کیا۔ وہ زعفرانی لباس سے چین میں داخل ہوئے اور ایک ہی دن میں 4 مرتبہ لباس تبدیل کیا ۔ اس طرح مودی نے خوب ماڈلنگ کی اور تاریخی مقامات کے دورے اور عوام سے ملاقات کے وقت اداکاری کے خوب جوہر دکھائے جس کے لئے وہ شہرت رکھتے ہیں۔ کیا اس دورہ سے دونوں ممالک کے رشتوں کی نئی شروعات ہوپائے گی؟ چین کے دورہ میں نریندر مودی نے مہاراشٹرا اور گجرات کے چیف منسٹرس کو شامل رکھا۔ دیویندر فڈنویس دوسری مرتبہ مودی کے ساتھ بیرونی دورہ پر روانہ ہوئے۔ اس طرح وہ مودی کے پسندیدہ چیف منسٹر بن چکے ہیں۔ اسی دوران مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے مسئلہ پر قانون سازی کا نیا شوشہ چھوڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرکز ایودھیا میں مندر کی تعمیر کیلئے قانون سازی اس لئے نہیں کرسکتا کیونکہ راجیہ سبھا میں بی جے پی کو اکثریت حاصل نہیں ہے۔ وزیر داخلہ کی حیثیت سے اس طرح کا بیان قابل مذمت ہے کیونکہ ملک کے وزیر داخلہ پر ملک کی داخلی سلامتی اور یکجہتی کے تحفظ کی ذمہ داری ہے۔ برخلاف اس کے راج ناتھ سنگھ اپنے عہدہ اور ذمہ داری کو فراموش کرتے ہوئے بی جے پی یا سنگھ پریوار کے ترجمان کی طرح اظہار خیال کر رہے ہیں۔ کیا وزیر داخلہ اس بات سے واقف نہیں کہ ایودھیا کا تنازعہ سپریم کورٹ میں زیر دوران ہے

اور کوئی بھی حکومت عدالت کے فیصلہ تک کچھ نہیں کرسکتی۔ ایودھیا تنازعہ چند برسوں سے نہیں بلکہ گزشتہ کئی دہوں سے عدالت میں زیر دوران ہے اور وقفہ وقفہ سے مقدمہ کو طوالت دی جارہی ہے۔ وزیر داخلہ نے راجیہ سبھا میں اکثریت نہ ہونے کا جو بہانہ بنایا ہے دراصل وہ ان کی مجبوری ہے۔ راج ناتھ سنگھ سابق میں اترپردیش کے چیف منسٹر رہ چکے ہیں اور ریاست میں بی جے پی کے موقف کو دوبارہ بحال کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے ایودھیا مسئلہ پر قانون سازی کا اشارہ دیتے ہوئے ہندو ووٹ بینک کو مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے۔ راج ناتھ سنگھ نے اترپردیش کے اسمبلی انتخابات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس طرح کا بیان دیا اور جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں اور ان کے حامیوں تک یہ پیام دینے کی کوشش کی کہ بی جے پی رام مندر کی تعمیر کیلئے کچھ بھی کرسکتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بی جے پی ہو یا کوئی اور حکومت اگر اسے راجیہ سبھا میں دو تہائی اکثریت بھی حاصل ہوجائے تو وہ ایودھیا مسئلہ پر قانون سازی کی جرات نہیں کرسکتی۔ یہ تنازعہ ملک کے سیکولر اور جمہوری اقدار سے جڑا مسئلہ ہے اور کوئی بھی حکومت دستور اور قانون کے برخلاف قدم اٹھاتے ہوئے کوئی جوکھم نہیں مول سکتی۔ احمد فراز نے کیا خوب کہا ہے ؎
کچھ مشکلیں ایسی ہیں آساں نہیں ہوتیں
کچھ ایسے معمے ہیں کبھی حل نہیں ہوتے