ٹی آر ایس امیدوار وِدیا ساگر راؤ کی امکانی شکست کے سبب محمد محمود علی اور دیگر اہم قائدین کے دورے
کورٹلہ ۔ یکم نومبر (محمد عبدالسلیم فاروقی کی رپورٹ) کورٹلہ ٹائون کے مسلمانوں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ 94, 1999, 2004, 2009کے انتخابات کے موقع پر کورٹلہ کے مسلمانوں نے جس پارٹی کی تائید کی اُس پارٹی کے امید وار نے کامیابی حاصل کی۔1992میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہوئے 1994کے الیکشن میں مسلمانوں کی بھر پور تائید کے سبب شکاری وشواناتھم تلگو دیشم اُمیدوار نے کانگریس آئی پارٹی اُمیدوار جواڈی نرسنگ رائو پر کامیابی حاصل کی ۔1999کے الیکشن میں مسلمانوں کی بھر پو ر تائید کے سبب کانگریس آئی پارٹی اُمیدوار جواڈی رتناکر رائو نے تلگو دیشم پارٹی اُمیدوار شکاری وشواناتھم کو شکست دی ۔ 2009کے اسمبلی الیکشن میں پہلی مرتبہ حلقہ اسمبلی کورٹلہ کے ٹی آر ایس کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیتے ہوئے کلوا کنٹلہ ودیاساگر رائو نے کانگریس آئی امیدوار ریاستی وزیر جواڈی رتناکر رائو پر کامیابی حاصل کی ۔ جناب محمد عبدالغفار سابق چیرمین مجلس بلدیہ کورٹلہ جو کانگریس آئی پارٹی کے ٹکٹ پر وارڈ نمبر 16سے کونسلر منتخب ہو کر بعد ازاں چیرمین منتخب ہوئے تھے ۔ سابق ریاستی وزیر جواڈی رتناکر رائو سے بغاوت کرتے ہوئے آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لینے پر ووٹوں کی تقسیم کے سبب کلواکنٹلہ ودیاساگر رائو ٹی آر ایس اُمیدوار نے کانگریس آئی پارٹی جواڈی رتنا کر رائو کو شکست دیکر کلوا کنٹلہ ودیاساگر رائو پہلی مرتبہ حلقہ اسمبلی کورٹلہ سے ایم ایل اے منتخب ہوئے ۔2010کے ضمنی انتخابات میں ٹی آر ایس پارٹی کے ٹکٹ پر حصّہ لیتے ہوئے کلواکنٹلہ ودیا ساگر رائو نے کانگریس آئی پارٹی کے سابق ریاستی وزیر جواڈی رتنا کر رائو پر بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی ۔ اس وقت کورٹلہ کے مسلمانوں نے کلوا کنٹلہ ودیا ساگر رائو کی بھر پور تائید کی2014کے اسمبلی انتخابات جبکہ تلنگانہ ریاست میں ٹی آر ایس پارٹی کی لہر چل رہی تھی ۔ کورٹلہ کے مسلم ووٹرس منتشر ہونے کی وجہ سے کورٹلہ ٹائون میں جواڈی نرسنگ رائو آزاد اُمیدوار کلواکنٹلہ ودیا ساگر رائو ٹی آرایس اُمیدوار کے درمیان کانٹے کا مقابلہ دیکھا گیا ۔ جواڈی نرسنگ رائو جو کانگریس پارٹی کے ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد اُمیدوار کی حیثیت سے حلقہ اسمبلی کورٹلہ میں اپنی قسمت آزمائی کی جبکہ کانگریس پارٹی ٹکٹ پر جناب کومی ریڈی راملو نے انتخابات میں حصہ لیا ۔ معتصم خان ویلفیر پارٹی آف انڈیا نے حلقہ پارلیمنٹ نظام آباد سے انتخابات میں حصہ لیا۔ معتصم خان ویلفیر پارٹی آف انڈیا اور جواڈی نرسنگ رائو آزاد اُمیدوار جن کا انتخابی نشان آٹو تھا کراس ووٹنگ کے سبب کلواکنٹلہ ودیاساگر ائو ٹی آر ایس اُمیدوار خوش قسمت ثابت ہوئے اوراس الیکشن میں کلواکنٹلہ ودیا ساگر رائو نے آزاد اُمیدوار جواڈی نرسنگ رائو کو بیس ہزار پانچ سو چھ ووٹوں سے شکست دے کر حلقہ اسمبلی کورٹلہ کے ایم ایل اے منتخب ہوئے۔اب جبکہ کلوکنٹلہ ودیاساگر رائو ٹی آر ایس اُمیدوار جو چوتھی مرتبہ حلقہ اسمبلی کورٹلہ سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں جواڈی نرسنگ رائو کو کانگریس پارٹی کا ٹکٹ دیئے جانے کے قوی امکانات کے پیش نظر حلقہ اسمبلی کورٹلہ سے جواڈی نرسنگ ائو اور کلوا کنٹلہ ودیا ساگررائو ٹی آر ایس اُمیدوار کہ درمیان انتخابی مقابلہ کافی دلچسپ رہے گا۔حلقہ اسمبلی بگارام جو کانگریس آئی پارٹی کا مضبوط گڑھ ر ہ چکا ہے اس حلقہ کے کورٹلہ ٹائون میں جناب جواڈی رتناکر رائو سابق ریاستی وزیر نے جو ترقیاتی اقدامات کئے ہیں آج بھی حلقہ اسمبلی کورٹلہ کی عوام میں جواڈی خاندان کا کافی اثرپایاجاتاہے ۔ اگر حلقہ اسمبلی کورٹلہ کا کانگریس پارٹی کا ٹکٹ جواڈی نرسنگ رائو کو دیا جاتاہے تو جناب کلواکنٹلہ ودیاساگر ائو کی چوتھی مرتبہ حلقہ اسمبلی کورٹلہ سے ایم ایل اے منتخب ہونے کے امکانات موہوم دکھائی دے رہے ہیں ۔ جناب کلواکنٹلہ ودیا ساگر رائو جو اپنے 9سالہ دور میں مسلمانوں اورخصوصاً ٹی آر ایس پارٹی کے اقلیتی قائدین کو مکمل نظر انداز کرتے رہے آج اپنی امکانی شکست کے خوف سے مسلمانان کورٹلہ کو اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ جناب محمد محمود علی نگران ڈپٹی چیف منسٹر تلنگانہ جنھوں نے ٹی آر ایس پارٹی کے ساڑھے چار سالہ دور اقتدار میں کبھی بھی حلقہ اسمبلی کورٹلہ کا دورہ نہیں کیا۔آج حلقہ اسمبلی کورٹلہ میں ٹی آر ایس اُمیدوار جناب کلواکنٹلہ ودیا ساگر رائو کی امکانی شکست کے مدنظر مسلمانوں کو ٹی آر ایس پارٹی سے قریب کرنے کے لئے کورٹلہ میں اقلیتی ٹی آر ایس پارٹی کے زیر اہتمام منعقدہ جلسہ میں مسلمانان کورٹلہ سے ٹی آرایس پارٹی کے حق میں ووٹ استعمال کرنے کی اپیل کی ۔ دیکھنا یہ ہے کہ جناب محمدمحمود علی نگران ڈپٹی چیف منسٹر کے دورہ سے ٹی آر ایس پارٹی کو کس قدر فائدہ پہنچتا ہے یہ تو وقت ہی بتا ئے گا۔ واضح رہے کہ حلقہ اسمبلی کورٹلہ میں مسلمانوں کو بادشاہ گر کا موقف حاصل ہے لیکن صحیح رہنمائی ضروری ہے ، ورنہ انتشار اور ووٹوں کی تقسیم پر نقصان کا اندیشہ ہے۔