کوئی رسوا تو کوئی معتبر ہوتا ہی رہتا ہے

 

رشیدالدین
دنیا کی عظیم جمہوریت ہندوستان کے 14 ویں دستوری سربراہ عہدہ کیلئے حکومت اور اپوزیشن کو موزوں شخصیت کی تلاش ہے ۔ صدر جمہوریہ کے انتخاب کیلئے اعلامیہ کی اجرائی کے بعد سیاسی سرگرمیوں میں شدت پیدا ہوگئی ۔ صدارتی انتخاب 17 جولائی کو ہوگا اور 28 جون تک پرچہ جات نامزدگی داخل کرنے ہیں۔ بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے محاذ کے امیدوار کا پرچہ جات نامزدگی 24 جون سے قبل داخل کیا جاسکتا ہے کیونکہ وزیراعظم نریندر مودی امریکہ کے دورہ پر روانہ ہورہے ہیں۔ صدارتی انتخاب کے سلسلہ میں متفقہ اور تمام جماعتوں کیلئے قابل قبول شخصیت کیلئے برسر اقتدار محاذ بظاہر مساعی کرتا دکھائی دے رہا ہے لیکن ابھی تک ایسا کوئی نام پیش نہیں کیا گیا جو اپوزیشن کیلئے بھی قابل قبول ہے ۔ متفقہ اور قابل قبول امیدوار کی آڑ میں بی جے پی کسی بھی طرح اپنے نظریات کے حامل شخصیت کو دستوری سربراہ کے عہدہ پر فائز کرنا چاہتی ہے۔ پہلی مرتبہ اسے صدر جمہوریہ کے عہدہ پر اپنے پسندیدہ امیدوار کے انتخاب کا موقع ہاتھ آیا ہے جسے غنیمت جان کر مودی اور امیت شاہ سرگرم ہوچکے ہیں۔ ملک کی تاریخ میں اب تک 7 صدر جمہوریہ ایسے رہے جو اس عہدہ پر فائز ہونے سے قبل کسی سیاسی جماعت کے رکن تھے۔ ان میں 6 کا تعلق کانگریس اور ایک کا جنتا پارٹی سے تھا ۔ بی جے پی اتفاق رائے کے لاکھ دعوے کرلے لیکن امیت شاہ نے پہلے ہی اعلان کردیا تھا کہ اگلا صدر بی جے پی کا ہوگا۔ صدر جمہوریہ کو ملک کے پہلے شہری ہونے کے ساتھ دستوری سربراہ اور مسلح افواج کے کمانڈر انچیف کا درجہ حاصل ہوتا ہے لیکن اختیارات کے معاملہ میں یہ عہدہ رسمی نوعیت کا ہے اور زیادہ تر اختیارات وزیراعظم کو حاصل ہوتے ہیں۔ صدر جمہوریہ کے انتخاب کے سلسلہ میں درکار عددی طاقت کی کمی کے باعث بی جے پی نے متفقہ امیدوار اور اتفاق رائے کا شوشہ چھوڑا ہے۔ بی جے پی کے متفقہ امیدوار کا انتخاب ظاہر ہے کہ سنگھ پریوار کی منظوری کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ جو بھی نام بی جے پی پیش کرے گی ، اس پر سنگھ پریوار کی مہر لگنا ضروری ہے بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ سنگھ پریوار کے پیش کردہ نام کو بی جے پی اپنے امیدوار کے طور پر آگے بڑھائے گی ۔

عددی طاقت کی کمی سے شکست کے اندیشہ میں بی جے پی کو متفقہ امیدوار کا راگ الاپنے پر مجبور کردیا ہے ۔ اگر عددی طاقت واضح طور پر حاصل ہوتی تو بی جے پی کے مزاج میں نہیں کہ وہ اپوزیشن کو خاطر میں لائے ۔ اپنے امیدوار کی کامیابی یقینی بنانے ایک طرف درپردہ طور پر اپوزیشن کو توڑنے اور کئی جماعتوں کی تائید حاصل کرنے کی سرگرمیاں جاری ہیں تو دوسری طرف محض دکھاوے کیلئے تین مرکزی وزراء پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی تاکہ اپوزیشن قائدین سے ملاقات کرے۔ اس کمیٹی نے سونیا گاندھی سے ملاقات کی اور 30 منٹ تک جاری رہی بات چیت میں کوئی اتفاق رائے پیدا نہیں ہوسکا۔ بتایا جاتا ہے کہ بی جے پی کی جانب سے صدارتی امیدار کے طورپر کوئی نام سونیا گاندھی کو تجویز نہیں کیا گیا۔ جب کوئی نام پیش ہی نہیں ہوا تو پھر کس طرح اس پر اتفاق رائے ہوسکتا ہے ؟ دراصل بی جے پی یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ باوقار عہدہ کیلئے وہ ٹکراؤ نہیں چاہتی۔ اگر بی جے پی کو درکار عددی طاقت حاصل ہوجائے تو وہ فوری طور پر متفقہ امیدوار کا ڈھکوسلہ بند کردے گی۔ بی جے پی اور متفقہ امیدوار یہ بات کچھ ہضم نہیں ہوتی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا بی جے پی میں ایک بھی ایسی شخصیت موجود ہے جسے اپوزیشن کیلئے قابل قبول کہا جائے۔ سنگھ پریوار سے وفاداری کے عہد اور سابقہ ریکارڈ کی بنیاد پر ناگپور ہیڈکوارٹر سے کسی بھی نام کا کلیئرنس حاصل ہوتا ہے ۔ کیا ایسا کوئی نام اپوزیشن کیلئے قابل قبول ہوگا؟ جہاں تک تمام جماعتوں کیلئے قابل قبول امیدوار کا سوال ہے ، صرف دو شخصیتیں ایسی ہیں کہ ان میں سے ایک پر بی جے پی راضی ہوجائے تو صدر کا انتخاب مقابلہ کے بغیر ہوسکتا ہے۔ یہ دو شخصیتیں موجودہ صدر پرنب مکرجی اور نائب صدر حامد انصاری ہیں۔

ان ناموں کو بی جے پی شاید ہی قبول کرے گی کیونکہ اس کا مقصد تو راشٹرپتی بھون میں کسی سنگھ پرچارک کو مامور کرنا ہے تاکہ ہندو راشٹرا کے ایجنڈہ کے تحت کئے جانے والے فیصلوں کی منظوری میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ صدارتی امیدوار کے طور پر برسر اقتدار محاذ میں جو نام زیر گشت ہیں، ان میں وزیر خارجہ سشما سوراج ، اسپیکر لوک سبھا سمترا مہاجن اور جھارکھنڈ کی گورنر دروپدی ورمو شامل ہیں۔ بی جے پی کسی ایسی شخصیت کے حق میں ہے جو سرگرم سیاستداں ہو اور ان کی جڑیں سنگھ پریوار میں پیوست ہو۔ سشما سوراج کو سنگھ پریوار کی تائید حاصل ہے اور اگر اپوزیشن ان کے نام پر راضی ہوجائے تو امیدوار وہی رہیں گی۔ اطلاعات کے مطابق بعض دیگر نام ضرورت پڑنے پر برسر عام کئے جاسکتے ہیں ۔ سشما سوراج کیلئے کانگریس کی تائید کا حصول مشکل دکھائی دے رہا ہے کیونکہ وہ اندرا گاندھی اور سونیا گاندھی کے خلاف الیکشن لڑ چکی ہیں اور ان کا شمار کانگریس اور گاندھی خاندان کے کٹر نقادوں میں ہوتا ہے۔ صدارتی دوڑ میں ایل کے اڈوانی ، سیاسی حلقوں میں ہمدردی اور بی جے پی میں عبرت کی علامت بن چکے ہیں ۔ کسی کو ان کا نام زبان پر لانا گوارا نہیں۔ بی جے پی کو لوک سبھا میں دو ارکان سے اقتدار تک پہنچانے رام مندر تحریک کی قیادت کرنے والے اڈوانی آج اپنوں کے درمیان اجنبی محسوس کر رہے ہیں۔ زندگی کے اس آخری حصہ میں جب صدر جمہوریہ بننے کا موقع آیا تو سی بی آئی نے بابری مسجد شہادت مقدمہ میں ماخوذ کرتے ہوئے رکاوٹ پیدا کردی ۔ ایسے وقت جبکہ بی جے پی اور سنگھ سے تعلق رکھنے والوں کے مقدمات ختم کئے جارہے ہیں، سی بی آئی کا اڈوانی کے خلاف اقدام اپنے آپ میں کئی سوال کھڑے کرتا ہے ۔ مودی آخر اڈوانی سے کس بات کا بدلہ لے رہے ہیں۔ شاید وزارت عظمی کے عہدہ کیلئے ان کی مخالفت کو مودی بھولے نہیں ہیں۔

بی جے پی نے اپنے امیدوار کا نام ظاہر کئے بغیر ہی اپوزیشن کی تائید کی مساعی شروع کردی ہے۔ ٹاملناڈو میں انا ڈی ایم کے کے دونوں گروپس نے این ڈی اے امیدوار کی تائید کا اعلان کیا ہے۔ آندھراپردیش میں تلگو دیشم اور وائی ایس آر کانگریس نے بی جے پی امیدوار کی تائید کا اشارہ دیا ہے ۔ تلنگانہ کی برسر اقتدار ٹی آر ایس بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ریاست کے مفادات کے نام پر بی جے پی امیدوار کی تائید کرے گی۔ تلگو دیشم اگر بی جے پی کی تائید کرتی ہے تو بات سمجھ میں آتی ہے کیونکہ وہ بی جے پی کی حلیف جماعت ہے لیکن وائی ایس آر کانگریس کا قبل از وقت بی جے پی کی طرف جھکاؤ باعث حیرت ہے۔ کچھ یہی حال ٹی آر ایس کا بھی ہے۔ یہ دونوں جماعتیں سیکولرازم کی دعویدار ہے لیکن اپنے خفیہ ایجنڈہ اور مفادات کے تحت نریندر مودی کے اثر میں دکھائی دے رہے ہیں۔ بی جے پی نے 2019 ء انتخابات کیلئے آندھراپردیش اور تلنگانہ کو اپنے نشانہ پر رکھا ہے ۔ گزشتہ دنوں امیت شاہ کے دورہ تلنگانہ کے موقع پر کے سی آر اور امیت شاہ کے درمیان لفظی جنگ چھڑ گئی تھی، اس کے باوجود ٹی آر ایس کی جانب سے بی جے پی امیدوار کی تائید کا اشارہ باعث حیرت ہے۔ آخر یہ کیا پالیسی ہے کہ ایک طرف سیکولرازم کی دہائی تو دوسری طرف بی جے پی کی تائید ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امیدوار کے اعلان سے قبل یہ جماعتیں اس طرح تائید کیلئے تیار ہوچکی ہیں۔ بی جے پی کو صدارتی انتخاب کے سلسلہ میں اپنی حلیف جماعت شیوسینا سے خطرہ لاحق ہے۔ حالیہ عرصہ میں دونوں پارٹیوں میں کشیدگی میں اضافہ ہوا اور شیوسینا نے صدارتی انتخاب کے سلسلہ میں ابھی تک اپنے موقف کو واضح نہیں کیا ہے ۔ اس طرح کے خطروں سے بچنے کیلئے بی جے پی نے غیر کانگریس اپوزیشن جماعتوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ ایک طرف صدر جمہوریہ کے عہدہ کیلئے بی جے پی اپنے امیدوار کے حق میں مہم چلا رہی ہے تو دوسری طرف نفرت پر مبنی ایجنڈہ پر عمل آوری جاری ہے ۔ اترپردیش میں یوگی ادتیہ ناتھ اپنے گرو نریندر مودی سے سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مودی نے وزیراعظم کی ذمہ داری سنبھالتے ہی راست طور پر نفرت کے ایجنڈہ پر عمل نہیں کیا لیکن یوگی ادتیہ ناتھ برملا طور پر نفرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ انہوں نے رمضان المبارک میں دعوت افطار کے اہتمام سے انکار کردیا۔ یوں تو نریندر مودی بھی اس روایت سے انحراف کر رہے ہیں لیکن ادتیہ ناتھ نے یہ کہتے ہوئے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا کہ سرکاری قیامگاہ پر وہ افطار کی اجازت نہیں دے سکتے۔ اس طرح انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پھر ایک مرتبہ زہر اگلا ہے۔ اترپردیش میں مسلمان یوگی راج میں خود کو غیر محفوظ تصور کر رہے ہیں۔ مرکز نے ذبیحہ کیلئے جانوروں کی خرید و فروخت پر امتناع سے متعلق جو اعلامیہ جاری کیا تھا ، اس کے خلاف درخواستوںکو سپریم کورٹ نے سماعت کیلئے قبول کرلیا ہے۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے مرکز کو نوٹس جاری کی۔ 26 مئی 2017 ء کو مرکزی وزارت ماحولیات نے یہ اعلامیہ جاری کیا تھا ، اس کے بعد سے ہی شمال مشرقی ریاستوں میں کھل کر مخالفت شروع ہوچکی ہے۔ ان ریاستوں میں بی جے پی کے قائدین پارٹی سے کنارہ کشی اختیار کر رہے ہیں۔ شمال مشرقی ریاستوں کے علاوہ گوا ، کیرالا ، مغربی بنگال ، ٹاملناڈو اور کرناٹک میں اس قانون پر عمل آوری ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ ریاستیں مرکز کے احکامات کو تسلیم کرنے تیار نہیں۔ بی جے پی اپنی زیر اقتدار ریاستوں میں بھی اس قانون پر عمل آوری کے موقف میں نہیں ہے ۔ ایسے میں مرکزی حکومت قانون میں ترمیم کی تیاری کر رہی ہے جو اس کی شکست اور قدم پیچھے ہٹانے کا واضح ثبوت ہے۔ مرکز کو کوئی بھی ایسا قدم اٹھانے سے قبل پہلے ہی قومی مفاد کو پیش نظر رکھنا چاہئے تھا ۔ انور جلال پوری نے کچھ اس طرح مشورہ دیا ہے ؎
کوئی رسوا تو کوئی معتبر ہوتا ہی رہتا ہے
یہاں یہ کھیل پیارے عمر بھر ہوتا ہی رہتا ہے