کنہیا کمار، جدید ہند کا مجاہد آزادی

یہ مضمون سیاست توسیعی لیکچر کے تناظر میں لکھا گیا ہے جو یکم اکٹوبر کو سندریہ وگنانا کیندرم باغ لنگم پلی میں منعقد ہوگا

محمد ریاض احمد
بہار کے ضلع بیگو سرائے کے ایک چھوٹے سے گاؤں کے ایک کچے مکان میں 1987 ء کو اُس نے آنکھیں کھولی۔ ماں اُسے لوری دیتے ہوئے علم اور سچائی کے درمیان پائے جانے والے مضبوط رشتوں کا درس دیا کرتی تھی اور غریب باپ اپنی ایک ایکر زرعی اراضی پر کھیتی باڑی کے ذریعہ اسے ہمیشہ یہ احساس دلاتا رہتا کہ اس دور میں جینا ہو تو خود کو زیور تعلیم سے آراستہ پیراستہ کرو۔ اپنے خیالات و افکار، الفاظ و عمل کے ذریعہ کہرام مچادو۔ غرض ایک چھوٹے سے لڑکے کو اس کا باپ یہ درس دے رہا تھا ’’خاموشی اس دور میں تمہیں جینے نہیں دے گی اس دور میں جینا ہو تو کہرام مچادو‘‘۔ وہ اپنے گاؤں میں جہاں ماں کو آنگن واڑی ورکر کی حیثیت سے بچوں کو پڑھاتے خواتین کو سمجھاتے دیکھا کرتا تھا۔ وہیں، ان لوگوں کو بھی سماجی انصاف کے حق میں نعرے بلند کرتے ہوئے بھی دیکھا کرتے تھے جو اپنے ہاتھوں میں سرخ پرچم تھامے ہوئے رہتے اور ان کی زبانوں سے سماجی انصاف سب سے مساویانہ سلوک سب کیلئے مواقع کی تائید و حمایت میں نعرے بلند ہوتے رہتے۔ اس نے ماں کی لوری باپ کی محنت اور کمیونسٹ کارکنوں و جہدکاروں کے نعروں سے جو سبق حاصل کیا وہ کمزور و لاچاروں کی مدد اور ملک کو مذہب ذات پات، رنگ و نسل اور علاقہ کی بنیاد پر تقسیم کرنے والوں کی مخالفت تھی۔ وہ ذہنی طور پر بچپن میں ہی پختہ ہوگیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ پہلی جماعت سے لے کر ماسٹرس تک اس نے درجہ اول سے کامیابی حاصل کی۔ آج اس کا حال یہ ہے کہ فرقہ پرست اس کے دلائل کے سامنے ٹک نہیں پاتے۔ عوام کا مذہبی استحصال کرنے والے اس سے نظریں نہیں ملاسکتے۔ انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے والوں پر اس کے نام سے ہی ہیبت طاری ہوجاتی ہے، جھوٹوں، مکاروں اور قومی خزانے کو لوٹنے والے اس کا نام سنتے ہی کانپنے لگتے ہیں۔ ہیبت کے مارے وہ پسینے میں نہا جاتے ہیں۔ وہ جو بھی کہتا ہے لوگوں کے دل میں اُتر جاتا ہے۔ حق کے لئے وہ ڈٹ جاتا ہے تو ظالم لاکھ کوششوں کے باوجود اس کے عزم و حوصلوں میں رتی برابر کمی نہیں لاسکتے۔ یونیورسٹیز کے چانسلرس، اساتذہ (پروفیسرس و لیکچررس) ماہرین تعلیم، ذرائع ابلاغ یعنی میڈیا کی ممتاز شخصیتیں، ادباء و دانشور، شعراء و مصنفین، سماجی جہدکار و انقلابی گلوکار، طلبہ و سرکاری ملازمین، محنت کش طبقہ، اقلیتیں دلت سب کے سب اس کے مداحوں میں شامل ہے۔ اس نے بہار سے تہاڑ اپنے طویل سفر کے دوران ہندوستان میں بالخصوص حقیقی حب الوطن طلبہ بشمول دلت اور مسلم طلبہ کو ایک نئی جہت دکھائی ہے۔ کبھی روہت بن کر ذات پات کے نام پر اپنی سیاسی دکان چمکانے والوں کو للکارا تو کبھی نجیب کی شکل میں فرقہ پرستوں پر بجلی بن کر ٹوٹ پڑا۔ قارئین ہم بات کررہے ہیں جے این او اسٹوڈنٹس یونین کے سابق صدر کنہیا کمار کی جو ہندوستان میں نئی جدوجہد ’’آزادی‘‘ کی علامت بن گئے۔ آزاد ہندوستان میں کنہیا کمار کو جو مقبولیت اور عزت و احترام حاصل ہوا، شائد ہی کسی اور اسٹوڈنٹ لیڈر کو حاصل ہوا ہوگا۔ کنہیا کمار، شہلا رشید اور عمر خالد ایسے چند ایک اسٹوڈنٹ لیڈرس ہیں جن کی زبانوں سے نکلنے والے الفاظ اقتدار کے ایوانوں اور ان ایوانوں میں بیٹھے ہوئے حکمرانوں میں ہلچل پیدا کردیتے ہیں۔ آپ کو بتادوں کہ آج کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی 125 رکنی قومی عاملہ میں شامل کنہیا کمار بچپن ہی سے بڑے ہونہار تھے اور ان کا شمار ذہین طلبہ میں ہوتا تھا ان کا گاؤں چونکہ حلقہ اسمبلی TEGHRA کے تحت آتا ہے جسے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کا گڑھ کہا جاتا ہے اس لئے بچپن سے ہی کنہیا کمار کمیونسٹوں کے قریب ہوگئے۔ ان کے والد کسان ہیں لیکن فی الوقت فالج کے عارضہ میں مبتلا ہیں جبکہ ماں مینا دیوی آنگن واڑی ورکر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتی ہیں اور ماہانہ 3000 تا 5000 روپئے انھیں اس کا معاوضہ حاصل ہوجاتا ہے۔ بہار کے ایک دور دراز گاؤں میں مقیم ہونے کے باوجود مینا دیوی نے بارہویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ اپنی ماں کے بارے میں کنہیا کمار کا کہنا ہے کہ آج وہ جو کچھ بھی ہیں اور جس مقام پر ہیں وہ ماں کی تربیت کا نتیجہ ہے۔ مینا دیوی نے ان میں ایک نیا جوش و ولولہ اور زندگی کے اُتار چڑھا غرض ہر مرحلہ کا مقابلہ کرنے کا عزم و حوصلہ پیدا کیا اور ارادوں کو مضبوطی فکر کو بلندی عطا کی۔ ان میں جو پرواز تخیل ہے وہ بھی ان کی ماں کی دین ہے۔ جیسا کہ ہم نے سطور بالا میں تحریر کیا ہے کہ کنہیا کمار ابتداء ہی سے ایک ذہین طالب علم ہے۔ آپ کو بتادیں کہ 2002 ء میں انھوں نے ایس ایس سی میں درجہ اول سے کامیابی حاصل کی۔ سائنس مضامین کے ساتھ انٹرمیڈیٹ فرسٹ ڈیویژن سے کیا۔ جیوگرافی میں گریجویشن کیا اور اس میں بھی درجہ اول سے کامیابی حاصل کی۔ 2007 ء میں گریجویشن کی تکمیل کے بعد نالندہ اوپن یونیورسٹی سے سوشیالوجی سے ایم اے کیا اور درجہ اول سے کامیابی حاصل کرتے ہوئے اپنا کامیاب تعلیمی سفر جاری رکھا۔ کالج آف کامرس سے گریجویشن کے دوران کنہیا کمار نے AISF میں شمولیت اختیار کی۔ کنہیا کمار نے 2011 ء میں جواہرلال نہرو یونیورسٹی کے انٹرنس ٹسٹ (داخلہ ٹسٹ) میں بھی ٹاپ کیا اور پھر اس کے اسکول آف انٹرنیشل اسٹڈیز سے افریکن اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی میں داخلہ لیا۔ کنہیا کمار نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ سیول سرویسس میں شمولیت ان کی خواہش تھی اور 2009 ء میں سیول سرویسس کی تیاری کیلئے ہی وہ دہلی آئے ہے۔ ایک کوچنگ انسٹی ٹیوٹ میں ان کے نام کا اندراج بھی ہوگیا تھا لیکن غربت نے انھیں سیول سرویس کیلئے تیاری کی اجازت نہیں دی۔ شائد قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ کنہیا کی ماں مینا کماری اور والد جے شنکر کے وہم و گمان میں بھی کبھی یہ نہیں آیا ہوگا کہ ان کا کنہیا ہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا سکہ جمائے گا۔

ہندوستان بھر میں اس کے نام کے ڈنکے بجیں گے۔ بڑے بڑے میڈیا ادارے، تھنک ٹینک، مفکرین و دانشوروں، حقوق انسانی کے جہدکاروں، ماہرین تعلیم اس کے لیکچرس اور مباحث کا اہتمام کریں گے۔ دہلی میں ہونے والے عالمی فورمس میں خطاب کے لئے اسے مدعو کیا جائے گا۔ جے این یو میں پی ایچ ڈی میں داخلہ کے بعد کنہیا کی قائدانہ صلاحیتوں میں غیرمعمولی اضافہ ہوا۔ وہ وقت بھی آیا جب 2015 ء میں کنہیا کمار جے این یو اسٹوڈنٹ یونین کے صدر بنے اور AISF کی ایک نئی تاریخ رقم کی کیوں کہ جے این یو اسٹوڈنٹ یونین کے عہدہ صدارت پر فائز ہونے والے کنہیا کمار AISF کے پہلے لیڈر تھے۔ کنہیا نے ان انتخابات میں 1029 ووٹ حاصل کئے تھے۔ انتخابات سے قبل بھی کسی کو یقین نہیں تھا کہ کنہیا طاقتور امیدواروں کی موجودگی میں ان انتخابات میں کامیابی حاصل کریں گے۔ لیکن بہار کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے آنے والے کنہیا نے صرف 10 منٹ کی تقریر کے ذریعہ ساتھی طلباء و طالبات پر ایسا جادو کیاکہ جے این یو کی فضاء کنہیا کمار زندہ باد کے نعرے سے گونج اُٹھی۔ اُنھوں نے بی جے پی کی طلبہ ونگ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی)، اسٹوڈنٹ فیڈریشن آف انڈیا، این ایس یو آئی، جیسی تنظیموں کے بااثر اور تجربہ کار امیدواروں کو شکست دی۔ ان انتخابات کے ساتھ ہی دہلی میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی طلبہ تنظیم AISF کو ایک نئی طاقت حاصل ہوئی اور اے بی وی پی کا گراف گر گیا حالانکہ مرکز میں نریندر مودی کی زیرقیادت بی جے پی حکومت تھی، جو اب بھی ہے۔ میرے خیال میں ملک کے اہم اپوزیشن قائدین کی بہ نسبت وزیراعظم نریندر مودی سے لے کر سمبت پترا جیسے بی جے پی کے ترجمان کنہیا کمار کے تصور سے کانپ جاتے ہوں گے۔ اُسی طرح جیسے شہلا رشید کے کسی بیان سے وزیر شہری ترقیات و حمل و نقل نتن گڈکری پر ہیبت طاری ہوجاتی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ فروری 2016 ء میں اگر مودی حکومت بی جے پی قائدین اور اے بی وی پی کنہیا کمار اور ان کے ساتھیوں کو جھوٹے الزامات اور جھوٹے مقدمات میں پھنسانے کی مبینہ کوشش نہیں کرتے تو کنہیا کمار کی مقبولیت صرف جے این یو تک ہی محدود رہتی۔ لیکن کنہیا کمار کو چھیڑنے کی بھیانک غلطی کرتے ہوئے سنگھ پریوار نے خود اپنے پیر پر کلہاڑی مار لی۔ دراصل فروری 2016 ء کے دوران جے این یو میں ایک احتجاجی ریالی کے ضمن میں نہ صرف کنہیا کمار اور ان کے ساتھیوں پر ملک سے بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا بلکہ انھیں گرفتار بھی کرلیا گیا۔ تاہم شواہد کے فقدان پر کنہیا کی 2 مارچ 2016 ء کو رہائی عمل میں آئی۔ کنہیا کمار نے ہمیشہ ان پر عائد الزامات کی تردید کی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جاریہ ماہ تک بھی دہلی پولیس نے ان کے خلاف دائر کئے گئے بغاوت کیس میں چارج شیٹ بھی داخل نہیں کی۔ کنہیا کمار کو سنگھ پریوار اس کے حامی وکلاء کے ساتھ ساتھ خود جے این یو کے وائس چانسلر کے تعصب کا سامنا کرنا پڑا جس کی قائم کردہ ایک تادیبی کمیٹی نے کنہیا پر 10 ہزار روپئے کا جرمانہ عائد کردیا لیکن اچھی بات یہ ہوئی کہ دہلی ہائی کورٹ نے یونیورسٹی کے اس فیصلہ کو غیر قانونی اور غیر معقول قرار دیتے ہوئے کالعدم کردیا۔ کنہیا کمار کو ڈرانے دھمکانے کی کافی کوشش کی گئی۔ بی جے پی رہنماؤں نے ان کی زبان کاٹ کر لانے والے کو 5 لاکھ ، انھیں گولی مارنے والے کو 11 لاکھ روپئے انعام دینے کا اعلان کیا جس کے جواب میں کنہیا نے ببانگ دہل یہ کہہ کر اس طرح کے قوم دشمن عناصر میں خوف و دہشت کی لہر پیدا کردی کہ تم مجھے مار سکتے ہیں، خاموش کرسکتے ہو لیکن ڈرا نہیں سکتے، مجھے قتل کرنے سے پہلے روہت ویمولہ کے بارے میں سوچ لو جب تم نے روہت ویمولا کو قتل کیا ہندوستان میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں روہت ویمولا سامنے آئے۔