یادِ رفتگان
میرا کالم مجتبیٰ حسین
کنہیا لال کپور کو جب بھی دیکھتا ہوں تو قطب مینار کی یاد آتی ہے اور جب قطب مینار کو دیکھتا ہوں تو آپ جان گئے ہوں گے کہ کس کی یاد آتی ہوگی۔ چونکہ دہلی میں ایسی جگہ رہتا ہوں جہاں سے ہر دم قطب مینار سے آنکھیں چار ہوتی رہتی ہیں اسی لیے کپور صاحب بے تحاشہ لگاتار اور بنا کوشش کے یاد آتے رہتے ہیں۔ کیا کریں مجبوری ہے۔ دہلی میں کسی اچھے علاقے میں مکان بھی تو نہیں ملتا۔ کپور صاحب اور قطب مینار میں مجھے فرق یہ نظر آیا کہ قطب مینار پر رات کے وقت ایک لال بتی جلتی رہتی ہے تاکہ ہوائی جہاز وغیرہ اُدھر کا رُخ نہ کریں۔ کپور صاحب پر رات کے وقت یہ حفاظتی انتظام نہیں ہوتا جو خطرے سے خالی نہیں ہے۔ کیا پتہ کسی دن کوئی ہوائی جہاز اندھیرے میں کپور صاحب سے نبرد آزما ہوجائے اور ٹکرا کر پاش پاش ہوجائے ( مراد ہوائی جہاز سے ہے) ایسی’’ سات منزلہ شخصیتیں ‘‘ اب بہت کم دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ایک بار بس میں سوار ہوئے تو فوراً اپنے آپ کو یوں دوہرا تہہ کرلیا جیسے کسی نے انگریزی کے U کو اُلٹ دیا ہو۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ جب بھی ان سے بات کی تو اُن کی آواز دور سے آتی ہوئی محسوس نہیں ہوئی۔ ورنہ عام صورتوں میں اُن سے کھڑے کھڑے بات کیجئے تو یوں لگتا ہے جیسے آپ کسی دُورافتادہ شخص سے ٹیلیفون پر بات کررہے ہوں۔ لمبا قد بھی کیا عجب شے ہے۔
کپور صاحب کو خود بھی اپنے لمبے قد کے متعلق کچھ ’’ خوش فہمیاں ‘‘ اور کچھ ’’ غلط فہمیاں ‘‘ ہیں۔ ’’ خوش فہمی ‘‘ کا یہ عالم ہے کہ لال قلعے کے باب الداخلہ کے نیچے سے گزرنا ہو تو اپنے سراقدس کو خم دے کر سینہ پر اور سینہ کو خم دے کر پیٹ پر رکھ لیتے ہیں اور ’’غلط فہمی ‘‘ کا یہ عالم ہے کہ فکر تونسوی کے گھر میں پانچ فٹ طول والی چار پائی پر سوجانے کے لئے آمادہ ہوجاتے ہیں۔ ایسی ہی غلط فہمیاں اور ایسی ہی خوش فہمیاں تو انسان کو طنز نگار بناتی ہیں۔ اُن کے قد کے بارے میں کچھ زیادہ کہنے کا حق ویسے تو مجھے بھی نہیں پہنچتا۔ کیوں کہ اکثر لوگ میری ذات کے حوالے سے لمبے آدمیوں کے احمق ہونے کی دلیلیں پیش کرتے ہیں۔ اس کو بنیاد مان کر کپور صاحب کے قد کا اندازہ لگایئے۔ کبھی پوچھا تو نہیں کہ ناپ تول کے حساب سے اُن کا قد کِتنا ہے۔ تاہم ایک بار شدید گرمی میں دہلی آئے اور مَیں نے دہلی کے موسم کے بارے میں اُن کی رائے پوچھی تو بولے ’’ سینے تک تو موسم بڑا جان لیوا ہے۔ البتہ گردن اور سر کے آس پاس موسم خاصا خوش گوار ہے۔‘‘ اتنا تو ہم نے بھی جغرافیہ میں پڑھ رکھا ہے کہ آدمی سطح سمندر سے جوں جوں بلند ہوتا جائے گا اس کے اطراف موسم خوش گوار ہوتاچلا جائے گا۔ اسی لئے اُن کی بات پر فوراً ایمان لے آئے۔
اُن کے قد کے معاملے میں تو قدرت نے بڑی فیاضی دکھائی ہے البتہ اس قد کے اطراف گوشت پوست کا پلاسٹر چڑھانے میں بڑی کنجوسی سے کام لیا ہے۔ اتنے دُبلے پتلے ہیں کہ ملک کی غذائی صورتِ حال پر ایک مستقل طنز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ تو اچھا ہوا کہ ہندوستان جیسے ملک میں رہتے ہیں۔ اگر مغرب کے کسی ترقی یافتہ اور خوشحال ملک میں ہوتے تو وہاں کی حکومت اس ’’ تہمت ‘‘ کو کب کا ملک بدر کرچکی ہوتی( دروغ برگردن راوی کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جب بھی ملک کو بیرونی غذائی امداد کی ضرورت ہوتی ہے تو کپور صاحب کا فوٹو بھیج کر من مانی بیرونی غذائی امداد حاصل کی جاتی ہے)۔
کپور صاحب بچپن سے میری کمزوری رہے ہیں۔ کمزوری ان معنوں میں کہ اُردو کی ایک نصابی کتاب میں اُن کا مضمون ’’غالبؔ جدید شعراء کی مجلس میں ‘‘ شامل تھا۔ اور محض اُن کا مضمون ٹھیک ڈھنگ سے یاد نہ کرنے کی وجہ سے مَیں اُردو کے پرچے میں ’’ کمزور ‘‘ رہ گیا تھا۔ بعد میں اُن کے اس مضمون سے ایسی چڑ ہوئی کہ جہاں کہیں یہ مضمون دکھلائی دیا فوراً منہ پھیر لیا۔ اب اسے اتفاق ہی کہیئے کہ جس مضمون سے اس قدر چڑ رہی وہی مضمون لوگوں کو اتنا پسند آیا کہ اب تک ہر انتخاب میں اسے شامل کیا جاتا ہے۔ بہر حال مَیں نے اس مضمون کو چھوڑ کر کپور صاحب کے سارے مضامین پڑھے اور ان کا گرویدہ ہوگیا۔
اُن سے ملنے کی بڑی تمنا تھی ۔ ۱۹۶۶ء میں حیدرآباد میں مزاح نگاروں کی پہلی کُل ہند کانفرنس منعقد ہوئی تو اُن سے خواہش کی گئی کہ وہ حیدرآباد آکر اس کانفرنس کی صدارت کریں۔ انہیں کئی خط لکھے مگر کسی کا جواب نہ آیا۔ کرشن چندر اور مخدوم محی الدین نے بھی سفارشی خط لکھے مگر جواب ندارد ( بہت بعد میں پتہ چلا کہ وہ خط کا جواب دینے کو خلافِ تہذیب بات سمجھتے ہیں۔) پھر آخری حربے کے طور پر جب انہیں پے بہ پے ٹیلیگرام بھیجے جانے لگے تو عاجز آکر لکھا ’’ بابا ! کیوں ہم قلندروں کے سکون میں خلل ڈالتے ہو۔ صدارت کی دعوت سر آنکھوں پر۔ مگر ڈاکٹروں نے مستقلاً لیٹے رہنے کا مشورہ دیا ہے۔ بتایئے مَیں لیٹے لیٹے آپ کی کانفرنس کی صدارت کیسے کرسکتا ہوں؟۔‘‘ بات معقول تھی کیوں کہ ہم نے بھی کسی کو لیٹے لیٹے صدارت کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ اس کے بعد یہ معمول سا بن گیا کہ ہم لوگ ہر سال انہیں حیدرآباد بُلاتے اور یہ طبی تصدیق نامہ پیش کرکے باعزت بری ہوجاتے۔ آخر تھک ہار کر ہم نے بھی اپنی دعوت کو لیٹے رہنے پر مجبور کردیا ( اتنی ڈاکٹری تو ہمیں بھی آتی ہے)۔
پھر یوں ہوا کہ کئی برسوں بعد ایک دن اچانک دہلی میں میرے دفتر کے فون کی گھنٹی بجی۔ پیغام تھا ’’ کنہیالال کپور آپ سے آج شام ٹی ہاؤس میں ملنا چاہتے ہیں، ٹھیک چھ بجے پہنچ جایئے۔‘‘ کسی طرح اعتبار نہ آتا تھا کہ جو قطب مینار برسوں سے لیٹا ہوا تھا وہ آخر کس طرح اُٹھ کھڑا ہوگیا ہے۔ مَیں بھاگا بھاگا ٹی ہاؤس پہنچا تو دیکھا کہ کپور صاحب ، جاں نثار اختر اور فکر تونسوی ایک میز پر بیٹھے ہیں۔ کپور صاحب نے مجھے بڑے پیار سے گلے لگالیا۔ کرسی پر بٹھایا۔ پھر کرسی پر بٹھاتے ہی ایک لطیفہ سنایا اور لطیفہ سناتے ہی میری طرف ہاتھ بڑھا کر مجھے کرسی سے کھینچا اور اس زور سے کھینچا کہ مَیں کرسی سے نیچے آگیا۔ اپنی ہنسی کو روک کر مجھے قرینے سے کرسی پر رکھا۔ کرسی پر بٹھاتے ہی پھر لطیفہ سنایا اور لطیفہ سناتے ہی میری طرف ہاتھ بڑھا کر مجھے کرسی سے کھینچا اور اس زور سے کھینچا کہ مَیں پھر کرسی سے نیچے آگیا۔ اپنی ہنسی روک کر پھر مجھے کرسی پر وغیرہ وغیرہ …… مَیں حیران ہوا تو فکر تونسوی بولے ’’ کپور صاحب کی یہ عادت ہے کہ جب بھی کوئی اچھا فقرہ یا لطیفہ کہتے ہیں تو اُس آدمی سے بے ساختہ مصافحہ کرتے ہیں جس پر یہ بہت زیادہ مہربان ہوتے ہیں۔ مَیں خود بھی اُن کی مہربانی سے کئی بار گرچکا ہوں۔ اب یہ مہربانی تمہارے حصے میں آئی ہے۔ بیٹا ! طنز نگاروں کی اور قدر کرو ۔‘‘
جاں نثار اختر مرحوم تو یوں بھی بڑے مرنجان مرنج آدمی تھے۔ فکر تونسوی کا یہ جملہ سن کر بہ نظر احتیاط اپنے دونوں ہاتھ رانوں کے نیچے دباکر بیٹھ گئے۔ مجھے کرسی سے گرانے کا شغل آدھے پون گھنٹہ تک جاری رہا۔ اس کے بعد کپور صاحب اس قابل ہوئے کہ میری خیریت دریافت کرسکیں۔ بہت سے آسان سوالات پوچھے جن کے جواب دینا کم از کم میرے لے مشکل تھا۔ ( کالج کے پرنسپل ہونے کا یہی تو فائدہ ہوتا ہے)۔
اس پہلی ملاقات کے بعد کپور صاحب سے دہلی میں کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ امرتسر ٹیلیویژن سے جب بھی اُن کا کوئی پروگرام ہوتا ہے تو وہ ریکارڈنگ کے لیے دہلی آتے ہیں اور مجھے کرسی سے گرائے بغیر واپس نہیں جاتے۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ کپور صاحب انگریزی کے اُستاد رہے ہیں۔ لیکن یہ کھاتے ہیں انگریزی کی اور گاتے ہیں اُردو کی۔ انہیں فارسی ، انگریزی اور اُردو کے بے شمار اشعار یاد ہیں۔ نثر کا ایک جملہ کہتے ہیں اور اس کے فوراً بعد ایک شعر داغ دیتے ہیں۔ ایک دن ملٹنؔ کا ایک شعر سنایا اور اس شعر کے پیچھے حافظؔ کے ایک شعر کو دوڑایا اور آخر میں حافظؔ کے اس شعر کے تعاقب میں غالبؔ کا ایک شعر چھوڑدیا۔ پھر غالبؔ کے شعر کی عظمت کو اپنے تجزیے سے کچھ اس طرح نمایاں کرنے لگے جیسے یہ ثابت کرنا چاہتے ہوں کہ ملٹنؔ اور حافظؔ نے اپنے شعر’’ دیوانِ غالب ‘‘ سے چرائے تھے۔ واضح رہے یہ عنایت خاص صرف غالبؔ کے لیے نہیں بلکہ ہر اُس شاعر کے لیے ہے جو اُردو میں شعر کہتا ہے۔ اکثر ایسا ہوا کہ انہوں نے مومنؔ کو ورڈ سورتھ سے بھڑا کر ورڈ سورتھ کو شرمندہ کیا۔ داغؔ کی ٹکر شیلی سے کراکے شیلی کا کچومر نکالا۔ حالیؔ کو براؤننگ پر چھوڑا۔ حد ہوگئی کہ ایک دن پنڈت رتن ناتھ سرشار سے چیسٹرٹن کو چت کرادیا۔ وہ ہر دم یہ ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں کہ دُنیا میں جتنی اچھی شاعری اور تھوڑی بہت طنز نگاری ہوئی ہے وہ اُردو میں ہوئی ہے۔ اُردو سے ایسی پڑھی لکھی محبت مَیں نے آج تک نہیں دیکھی۔ اُردو کی موجودہ کسمپرسی پر جتنی طویل آہ کہنیا لال کپور کھینچتے ہیں اتنی طویل آہ اُردو کا کوئی اور ادیب کھینچ کر دکھادے تو ہم اس کے غلام ہوجائیں۔ کپور صاحب باتیں کرنے کا فن خوب جاتنے ہیں۔ وہ گھنٹوں اپنی علمیت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ کبھی انگریزی کبھی اُردو اور کبھی پنجابی میں ۔
کبھی کبھی طنز نگار کو مزاحیہ صورتِ حال میں گرفتار دیکھنا بھی ایک انوکھا تجربہ ہوتا ہے۔ ایک بار کپور صاحب کو مَیں اس صورتِ حال میں گرفتار دیکھ چکا ہوں۔ نومبر ۱۹۷۷ء میں ایک دن مزاح نگار نریندر لوتھر حیدرآباد سے آئے تو مجھ سے کہا کہ مَیں شام میں اُن سے ملنے ہوٹل جن پتھ پر پہنچوں۔ شام کے چھ بجے تھے اور مَیں اپنے اسکوٹر پر قدوائی نگر سے گزررہا تھا کہ اچانک مجھے بس اسٹاپ پر ایک شخص نظر آیا جو بجلی کے کھمبے کی طرح کھڑا تھا۔ مَیں نے سوچا ہو نہ ہو یہ کپور صاحب ہی ہوں گے۔ اسکوٹر روک کے قریب گیا تو دیکھا سچ مچ کپور صاحب تھے۔ اُن کے ساتھ اُن کے دو نوجوان دوست تھے جو پنجابی کے ادیب ہیں اور جو ہر بار موگا سے اُن کے ساتھ دہلی آتے ہیں۔ ان کے علاوہ ایک اور لڑکا تھا جس سے کپور صاحب محو کلام تھے۔ مجھے دیکھ کر بے حد خوش ہوئے۔ بولے ’’ مَیں آج ہی موگا سے آیا ہوں۔ ٹی وی پر ایک ریکارڈنگ تھی جو ہوچکی ہے۔‘‘ پھر اُس نوجوان لڑکے کی طرف اشارہ کرکے کہا’’ یہ میرا بھتیجہ ہے ، جو یہیں قدوائی نگر میں رہتا ہے۔ اس سے ملنے آگیا تھا۔ اب رات کی گاڑی سے واپس جارہا ہوں۔ ریزرویشن ہوچکی ہے۔‘‘
مَیں نے کہا ’’ کپور صاحب ! یہ تو آپ غضب کررہے ہیں۔ آج ہی آئے اور آج ہی واپس ہورہے ہیں۔ یہ کیا بات ہوئی۔ اتفاق سے نریندر لوتھر بھی آج دہلی میں ہیں۔ وہ بھی عرصہ سے آپ سے ملنے کے مشتاق ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ کچھ دیر کے لئے اُن کے ہاں چلتے۔‘‘
کپور صاحب کے بھتیجے نے کہا’’ نہیں جی ! یہ تو آج رات کی گاڑی سے واپس ہورہے ہیں۔ مَیں خود انہیں روک رہا ہوں مگر یہ رُک نہیں رہے ہیں۔‘‘
اس کے ساتھ ہی کپور صاحب نے مجھ سے پوچھا۔ ’’ نریندر لوتھر کہاں ٹھہرے ہیں۔؟۔‘‘
مَیں نے فوراً ہوٹل کا نام اور کمرے کا نمبر بتادیا۔ بولے’’ہم لوگ دو چار منٹ کے لیے ہی سہی وہاں ضرور پہنچ جائیں گے۔‘‘ کپور صاحب کے بھتیجے نے پھر مداخلت کرتے ہوئے کہا ’’صاحب ! اُن کی اُمید نہ رکھیے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اُن کا سامان کالکاجی میں رکھا ہے اور اس سامان کو لے کر انہیں نو بجے اسٹیشن پر پہنچنا ہے۔ آپ خود دہلی میں رہتے ہیں۔ اندازہ لگایئے وقت کتنا کم ہے۔‘‘ مَیں نے کہا ’’ اچھا تو کپور صاحب آپ سامان لے کر اسٹیشن پہنچیئے۔ مَیں اور لوتھر صاحب سیدھے اسٹیشن پہنچ جائیں گے مگر یہ بتایئے آپ کی گاڑی پرانی دلّی سے جائے گی یا نئی دلّی سے۔‘‘
کپور صاحب نے حیران ہوکر اپنے نوجوان دوست کی طرف دیکھا۔ پھر پوچھا ’’ بھئی ! ہماری گاڑی کون سے اسٹیشن سے جائے گی؟ ‘‘ اُن کے دوست نے سٹپٹاکر کہا۔’’ موگا اسٹیشن سے جائے گی جی۔ اور کیا ؟۔ ‘‘ مَیں ان کی بدحواسی پر ہنسنے لگا تو بولے ’’ صاحب ! پتہ نہیں گاڑی کس اسٹیشن سے جاتی ہے، جی ، دھیان نہیں رہا۔ ٹکٹ پر دیکھنا ہوگا۔‘‘
تب مَیں نے کپور صاحب کی طرف پلٹ کر کہا ’’ اسٹیشن کو گولی ماریئے۔ یہ بتایئے کون سی گاڑی میں آپ کاریزرویشن ہوچکا ہے۔ مَیں اسٹیشن کے بارے میں پتہ کرلوں گا۔‘‘
کپور صاحب بولے ’’ شاید امرتسر یکسپریس ہے۔‘‘
مَیں نے کہا ’’ وہ تو دوپہر میں چلی جاتی ہے۔‘‘
بولے ’’ شاید فرنٹیر میل ہے۔‘‘
مَیں نے کہا ’’ مگر وہ تو صبح میں چلی جاتی ہے۔ کپور صاحب! کمال ہے آپ کو ڈھائی گھنٹے بعد سفر پر روانہ ہونا ہے اور آپ کو ابھی تک یہ پتہ نہیں ہے کہ کس گاڑی میں آپ کی ریزرویشن ہوئی ہے؟۔‘‘
یہ سنتے ہی کپور صاحب نے میرے ہاتھ کو زور سے دبایا۔ پھر مجھے الگ لے جاکر سرگوشی کے انداز میں کہنے لگے۔ ’’ مجھ پر وکیلوں کی طرح جرح کرتے ہوئے شرم نہیں آتی۔ مجھے تو تمہارے ادیب ہونے پر شبہ ہونے لگا ہے۔ بھتیجے کے سامنے میری بے عزتی کروارہے ہو۔ وہ چاہتا ہے کہ مَیں رات اُس کے ہاں رہوں اور مَیں اس بچے کو زیر بار نہیں کرنا نہیں چاہتا۔ اس لیے جھوٹ موٹ ہی اس سے کہہ دیا ہے کہ آج رات کی گاڑی سے واپس جارہا ہوں۔ اُسے یہ تک نہیں بتایا ہے کہ کہاں ٹھہراہوں۔ ایسے میں تم نے آکر لب سڑک میرے خلاف ’’شاہ کمیشن ‘‘ بٹھادیا اور لگے جرح کرنے۔ تم فوراً یہاں سے پھوٹو۔ مَیں دس منٹ کے اندر نریندر لوتھر کے ہاں پہنچ رہا ہوں۔ کمال ہے تم لوگوں سے ملے بنا مَیں کیسے جاسکتا ہوں۔ مَیں تو دہلی میں تین چار دن رہوں گا۔‘‘ یہ باتیں ہورہی تھیں کہ اچانک ایک بس آگئی۔ مَیں نے کپور صاحب اور اُن کے دوست کو فوراً بس میں سوار کرادیا۔
بس جاچکی تو اُن کے معصوم بھتیجے نے مجھ سے کہا ’’ میرے چاچا جی! سچ مچ بڑے رائٹر ہیں ۔ یہ نشانی بڑے رائٹر کی ہے کہ اُسے دو گھنٹے بعد ٹرین سے جانا ہے اور اُسے ٹرین کا پتہ نہیں ہے۔ اور تو اور اُنہیں یہ بھی نہیں معلوم ہے کہ کون سے اسٹیشن پر جانا ہے۔ مَیں اُن کی مدد کو جانا چاہتا تھا مگر اُن کے نوجوان دوست نے مجھے بس میں سوار ہونے نہیں دیا۔ کہنی مار کے نیچے اُتار دیا۔ پتہ نہیں چاچا جی کواب کتنی تکلیف ہوگی۔‘‘
مَیں نے اُن کے معصوم بھتیجے کو تسلی دی کہ بیٹا چاچا کے لیے اتنا پریشان نہیں ہو ا کرتے۔ دُنیا کا ہر چاچا اتنا ہی بڑا رائٹر ہوتا ہے۔ میری اتنی تسلی کے باوجود بھتیجے کی آنکھ میں دوچار آنسو اُمڈ آئے۔ جھوٹی تسلی بھلا کہیں سچے آنسوؤں کو روک سکتی ہے، مَیں اس لڑکے سے نپٹ کر ہوٹل جن پتھ پہنچا تو دیکھا کہ کپور صاحب نریندر لوتھر کے کمرے میں بیٹھے قہقہے لگارہے ہیں ، پہنچ کر جیسے ہی کرسی پر بیٹھا انہوں نے میرا ہاتھ کھینچ کر مجھے پھر کرسی سے گرادیا۔ پھر پوچھا ’’ اتنی دیر کیوں کردی؟ ‘’ بولا۔ ’’ آپ کے بھتیجیہ کو صبر کی تلقین کررہا تھا۔ ‘‘
نریندر لوتھر کو ساری داستان سنائی اور خود ہی اپنے آپ پر ہنستے رہے۔
کپور صاحب کی دو بڑی کمزریوں کا مَیں نے اب تک ذکر نہیں کیا ہے۔ یہ دو کمزوریاں ہیں لاہور اور پطرس بخاری۔ یوں تو خود کپور صاحب کے ہزاروں شاگرد سارے پنجاب میں پھیلے ہوئے ہیں لیکن جب اپنے اُستاد محترم پطرس بخاری مرحوم کا ذکر کرتے ہیں تو نظریں نیچی کرکے ’ ’ باادب با ملاحظہ ہوشیار ‘‘ بن جاتے ہیں۔ اُس وقت اُن کے سارے وجود پر ایک ’’ طالب علمانہ کیفیت ‘‘ طاری ہوجاتی ہے۔ دروغ برگردن راوی لاہور سے محبت کا یہ عالم ہے کہ رات کو کبھی لاہور کی طرف پیر کرکے نہیں سوتے۔ کبھی کبھی حیرت ہوتی ہے کہ جب یہ لاہور میں تھے تو نہ جان کس طرح سوجاتے تھے۔، سنا ہے کہ موگا میں لاہور کے ہی خواب دیکھتے ہیں۔ دہلی کو بڑی حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ انارکلی کی ایک جھلک پر سینکڑوں کناٹ پیلیس قربان کئے جاسکتے ہیں۔
کپور صاحب نے اُردو طنز و مزاح کو کیا دیا ہے اس کا حساب کتاب تو ناقد کرتے رہیں گے۔ یہاں میں صرف اتنا کہوں گاکہ جب ہندوستان کی بہت سی زبانوںمیں جدید سیاسی طنز کی داغ بیل بھی نہیں پڑی تھی تو تب کپور صاحب نے اُردو میں ’’جدید سیاسی طنز ‘‘ کے بے مثال نمونے پیش کیے تھے۔ کنہیا لال کپور سچ مچ اُردو طنز نگاری کے قطب مینار ہیں۔ جب بھی میں قطب مینار کو دیکھتا ہوں تو دُعا کرتا ہوں کہ کپور صاحب ہمارے ادب میں یونہی سربلند و سرفراز رہیں۔ ( اپریل 1978ء )