کمسن آصفہ کی زندگانی ایک مثالی کہانی

محمد مصطفیٰ علی سروری
جناب میں اخبار سیاست کا ایک پرانا قاری ہوں، ہر اتوار کے اخبار سیاست میں آپ کا کالم دلچسپی سے پڑھتا ہوں۔ حالات حاضرہ کا آپ بڑی خوبی سے تجزیہ کرتے ہیں مگر میں گزشتہ ایک مہینے سے منتظر ہوں کہ آپ جموں و کشمیر میں عصمت ریزی کا شکار بننے والی آٹھ سالہ آصفہ پر کچھ لکھیں گے ۔ مجھے بڑی تکلیف اور افسوس ہوا کہ آپ دنیا بھر کے موضوعات پر قلم اٹھاتے رہے مگر امت مسلمہ اور خاص کر ہندوستانی مسلمانوںکے ایک اہم مسئلہ پر آپ نے قلم اٹھانا گوارا نہیں کیا ۔ مسلمان ہی نہیں ہر سیکولر ہندوستانی احتجاج کر رہا ہے ۔ کاش کے آپ کو بھی کمسن آصفہ پر کچھ لکھنے کی توفیق نصیب ہوتی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو نیک ہدایت دے (آمین)
اخبار کے ایک قاری کا یہ پیغام پڑھ کر بالآخر میں بھی مجبور ہوگیا ہوں کہ جموں و کشمیر کے ضلع کٹھوعہ کی آٹھ سال کی معصوم لڑکی جس کا عصمت ریزی کے بعد قتل کردیا گیا کہ حوالے سے کچھ لکھوں لیکن آج تک اس معصوم کے نام پر اور اس کے ساتھ پیش آئی درندگی کے متعلق اتنا کچھ تو لکھا گیا ہے کہ میرے لئے کیا بچا ہے کہ میں کچھ لکھوں ؟ لڑکی کا نام آصفہ عمر آٹھ سال بتلائی گئی ہے ۔ یہ 10 جنوری 2018 ء کی بات ہے جب آصفہ کو اس کے گھر والوں نے ان گھوڑوں کو واپس گھر لانے کیلئے جنگل بھیجا، جنہیں گھاس چرنے کیلئے چھوڑا گیا تھا ۔ گھوڑے تو واپس آصفہ کے والدین کے پاس آگئے مگر خود آصفہ نہیں لوٹی۔

قارئین میں آصفہ کی گمشدگی کے واقعہ پر ہی ٹھہر جاتا ہوںکیونکہ اس کے بعد کیا ہوا ؟ کیسے ہوا ؟ کیوں ہوا یہ ساری تفصیلات مین اسٹریم میڈیا اور سوشیل میڈیا پر آچکی ہیں ، ان کو دہرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ آصفہ کے نام سے ہم نے بہت سارے جلوس نکال دیئے ، بہت ساری شمعیں جلا ڈالی۔ آصفہ کے نام سے بیانرس بنائے ، اس کی فوٹوز کی کاپیاں بنائی ، اپنے غم و غصہ کا ہر طرح سے اظہار کیا لیکن میں آصفہ کی آٹھ برس کی زندگی سے ملنے والے اس سبق کی طرف آپ حضرات کی توجہ ضرور مبذول کروانا چاہوں گا کہ آٹھ سال کی عمر بھی کوئی عمر ہوتی ہے ۔ ہمارے حساب سے تو یہ بچوں کی وہ عمر ہوتی ہے جب ان کے کھیلنے کے اور کھانے کے دن ہوتے ہیں۔ اگر میں آصفہ کی آٹھ برس کی عمر کو سمجھانے کیلئے اسکول جانے والے بچوں کی عمر کے حساب سے بتلاؤں تو یہ سمجھ لیجئے کہ آصفہ تھرڈ کلاس کی اسٹوڈنٹ تھی ۔ اب ہمارے جو بچے تھرڈ کلاس میں پڑھتے ، ان کے متعلق غور کرلیجئے ، یہ بچے نہ تو کھانا ہی صحیح کھاتے ہیں اور نہ اپنے کام ہی خود کر پاتے لیکن ایک نہیں ہزاروں خبروں میں یہی بات بتلائی گئی کہ جس دن آصفہ گم ہوئی وہ اس دن اپنے گھوڑوں کو گھر واپس لانے کیلئے قریبی جنگل گئی تھی ۔ یعنی آٹھ سال کی عمر میں جب اس کے کھیلنے پڑھنے اور کھانے کی عمر تھی ، آصفہ اپنے گھوڑوں کو چرانے اور واپس لانے کیلئے جنگل گئی تھی۔ ایک آٹھ سالہ خانہ بدوش لڑکی کی جو تصویریں ہم نے دیکھیں اس میں تو آصفہ کا چہرہ بھی معصوم تھا، قد بھی عام بچوں کی طرح کا تھا اور کاٹھی یعنی جسمانی ساخت بھی عام بچوں کی طرح کی تھی ۔ یعنی آ ٹھ برس کے دیگر بچے جس طرح ہوتے ہیں، آصفہ بھی بالکل اسی طرح کی لڑکی تھی لیکن اتنی کم عمری کے باوجود وہ گھر کے کام کاج میں اپنے گھر والوں کا ہاتھ بٹاتی تھی اور چونکہ خانہ بدوش خاندان (Nomad Family) کا ذریعہ معاش بھیڑ بکروں کو اور گھوڑوں کو پالنا ہوتا ہے تو اس لئے آصفہ کے گھر والے بھی ایسے ہی اپنی گزر بسر کا سامان پیدا کرتے تھے ۔ کتنی محنت کرنی پڑتی تھی آصفہ کو ؟ لیکن آصفہ اپنے گھر میں یا گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر صرف کھیل کود نہیں کرتی تھی بلکہ گھوڑوں کو چراتی تھی ۔ بہت ممکن ہو کہ آصفہ خود بھی گھوڑے کی سواری جانتی تھی ہوگی لیکن نہ بھی جانتی تھی تو یہ تو سچ ہے کہ وہ گھوڑوں کو چراہ گاہ لانا اور لے جانا جانتی تھی ، چاہے ان کے آگے پیچھے دوڑ کر ان کو ہانکنا پڑتا ہوگا ۔ اتنی کم عمر میں گھوڑوں کو چرانا آصفہ کیسے جانتی ہوگی ؟ اس سوال کا جواب زیادہ مشکل نہیں ہے۔ لازمی بات ہے کہ آصفہ کے والدین نے ہی اس کو سکھایا ہوگا کہ جانوروں کو کیسے پالا جاتا ہے ، کیسے ان کو چراہ گاہ لے جایا جاسکتا ہے اور پھر واپس کیسے لایا جاسکتا ہے۔

گاؤں دیہات کے رہنے والے والدین اپنے بچوں کو وہ ساری تعلیمات دیتے اور اتنی ساری تربیت کرتے ہیں کہ ان کے بچے نہ صرف گاؤں دیہات کی زندگی بسر کرسکیں بلکہ اپنے بڑوں کا ہاتھ بھی بٹاسکیں۔ ہم مسلمانوں اپنے بچوں کی تربیت کے معاملے میں کیسی غفلت ہورہی ہے ، اس کا اندازہ اس ایک واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ سعودی عرب سے واپس لوٹنے والے ایک والد کی پریشانی یہ ہے کہ انہیں اب اپنے بچوں کو حیدرآباد واپس لانے کے لئے تقریباً 14 لاکھ روپئے دیکر حیدرآباد کے (اکرسیاٹ) کے انٹرنیشنل اسکول میں داخلہ دلوانے کا وعدہ کرنا پڑا۔

ہمارے بچے نہ تو ہماری مجبوریاں سمجھنے کے لئے تیار ہیں اور نہ آگے بڑھنے کیلئے دیئے جانے والے مشورے انہیں قابل قبول دکھائی دے رہے ہیں ۔ اس NRI کے مطابق ان کے بچے ان کے ساتھ واپس حیدرآباد آکر ایسے انٹرنیشنل اسکول میں پڑھنا چاہتے تھے جہاں صرف غیر ملکی بچے پڑھتے ہوں ، بچوں کی ضد اور سعودی سے اپنے بچوں کو واپس لانے ایک این آر آئی والد کو یہ بات قبول کرنی پڑی۔
گاؤں دیہات میں آج بھی بچوں کی تربیت کا شائد پورا خیال رکھا جاتا ہے ۔ آخر کو آصفہ بھی تو ایک گا ؤں کی ہی رہنے والی لڑکی تھی ۔ گاؤں والوں کی بات آئی تو یہاں پر نظام آباد کے حسام الدین کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے۔ جی ہاں وہی حسام الدین جنہوں نے ابھی حال ہی میں آسٹریلیا میں منعقدہ کامن ویلتھ گیمس میں باکسنگ کے مقابلوں میں ہندوستان کیلئے کانسہ کا تمغہ (برانز میڈل جیتا) ہے۔ برانز میڈیل جیتنے کے بعد حسام الدین ملک بھر میں میڈیا کی نظروں میں پسندیدہ شخصیت بن گئے ۔ عوامی شہرت اور عزت ملنے کے باوجود حسام الدین کتنے سادگی پسند اور سادہ لوح نوجوان ہیں۔ اس کا اندازہ انگریزی اخبار تلنگانہ ٹوڈے میں 24 اپریل 2018 ء کو شائع خبر سے لگایا جاسکتا ہے ۔ تلنگانہ ٹوڈے کے رپورٹر جگناتھ داس کے مطابق انہوں نے جب فون پر بات کر کے حسام الدین کو پوچھا کہ کیا وہ ان کے اخبار کے آفس آسکتے ہیں حسام الدین نے فوری طور پر حامی بھرلی اور اخبار کے دفتر والے یہ دیکھ کر حیران ہوگئے کہ حسام الدین ایک اسپورٹس مین کی طرح اپنے دوستوں کے ساتھ ایک دو پہیوں کی گاڑی پر اخبار کے دفتر پہونچ گئے اور وہاں پر لوگوں سے بڑی خندہ پیشانی سے ملاقات کی اور کہا کہ میرے والد چاہتے تھے کہ ہم بھائیوں میں کوئی ایک ضرور میڈل جیتے اور جب میں آسٹریلیا سے میڈل جیت کر حیدرآباد کے ایرپورٹ پر اترا تو میرے والد نے اپنی نم آنکھوں سے مجھے گلے لگالیا۔ آٹھ برس کی آصفہ کے متعلق کسی نے لکھا کہ ابھی تو اس کے دودھ کے دانت بھی نہیں گرے تھے لیکن وہ گھوڑوں کو چرانے کا کام بھی کرتی تھی اور یہاں ہما رے نوجوان اپنی عمر کے 22 برس بھی مکمل کرلینے کے باوجود والدین سماج اور پورے معاشرے پر بوجھ بنے نام ڈوبانے کے کام کر رہے ہیں ۔
24 اپریل 2018 ء کو ہی حیدرآباد سٹی پولیس نے ایک پریس نوٹ جاری کرتے ہوئے اطلاع دی کہ خواجہ فریدالدین نام کے 22 برس کے نوجوان پر حیدرآباد سٹی پولیس کمشنر انجنی کمار گوئل نے پی ڈی ایکٹ لگادیا ۔ پولیس کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق 22 برس کے اس نوجوان کے خلاف ڈکیتی ، چوری ، چین چھیننے اقدام قتل کے دس سے زائد کیس شہر حیدرآباد کے مختلف پولیس اسٹیشنوں میں درج ہیں۔
یقیناً آصفہ کے قاتلوں اور اس کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہئے ۔ کیا آصفہ کی زندگی سے بس ہمیں اتنا ہی سبق ملتا ہے ، آصفہ نے اپنی زندگی کے صرف آٹھ ہی برس دیکھے ہیں لیکن اس کی موت بھی پورے ملک کے مسلمانوں کو سبق دیتی ہے کہ زندہ رہنا ہے تو محنت کرنا سیکھو ، محنت ہی زندگی کا ثبوت ہے ۔ اب یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو کم عمری سے ہی محنت کرنا سکھائیں۔
راجو نے نویں کا امتحان کامیاب کرلیا ، اب وہ اگلے تعلیمی سال سے دسویں کلاس کی تعلیم حاصل کرے گا ، گرما کی ان چھٹیوں کے دوران وہ اپنے والد کے ساتھ گجراتی گلی میں واقع دکان کو جارہا ہے اور ان کے ساتھ کام میں ہاتھ بٹا رہا ہے ۔ راجو نے بتلایا کہ وہ ان چھٹیوں میں حاصل ہونے والی کمائی کے متعلق بہت کچھ سوچ رکھا ہے کہ اسے 3 تا 4 ہزار روپئے ملیں گے تو وہ ان روپیوں کا کیا کرے گا ۔ یہی نہیں راجو صبح میں دودھ کی پیاکٹس بھی لوگوں کو گھروں پر ڈالنے کا کام پچھے ایک سال سے کر رہا ہے ۔ اپنے ان پیسوں سے اس نے اپنی بڑی بہن کو ایک نیا فون بطور گفٹ دینے کا بھی منصوبہ بنا رکھا ہے۔

قارئین مجھے تو آصفہ کی زندگی سے محنت کا درس ملا ہے اور میں اسی درس کو آپ سب تک پہونچانا چاہتا ہوں۔ آپ لوگ سمجھتے ہیں کہ نہیں نہیں آصفہ کی زندگی سے کوئی درس نہیں لینا چاہئے بلکہ آصفہ کی فوٹو اور اس کا بیانر لگاکر اس کے قاتلوں کو سخت سزا کا مطالبہ کرنا چاہئے۔ تو میں بتلادوں کہ یقیناً آصفہ کے حق میں آواز اٹھائی جانی چاہئے لیکن یہ آواز صرف اس لئے نہیں کہ آصفہ ایک مسلمان تھی بلکہ مسلمانوں کو اناؤ میں عصمت ریزی کا شکار بننے والی لڑکی کو انصاف دلانے کیلئے بھی آواز اٹھانا چاہئے ۔ دراصل یہ ظلم کے خلاف آواز ہے ، یہ ہر ہندوستانی کی آواز ہے کہ ملک کی ہر بیٹی کو انصاف ملے ، یہ سیاست سے پرے بالکلیہ حقوق انسانی کے تحفظ کی بات ہے ۔ دستوری حقوق کی بات ہے ، جو ہر ہندوستانی کو مساویانہ درجہ دیتا ہے ۔ ان سب نکات کے علاوہ سب سے اہم اور بنیادی نکتہ میری دانست میں آصفہ کی زندگی کا یہ ہے کہ پورے ملک کے نوجوانوں کو محنت کی ترغیب دلائی ہے اور والدین کو سبق سکھلاتی ہے کہ اپنی اولاد کی تربیت انہی کے ہاتھ میں ہے، کسی اسکول یا کالج کی ذمہ داری نہیں ۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہماری ہدایت کا سامان فرما اور ہمیں ان لوگوں کا راستہ چلا جن پر اُس کا انعام ہوا (آمین)
sarwari829@yahoo.com