صابر علی سیوانی
حضرت امیر خسرو نے کشمیر جنت نظیر کی خوبصورتی سے متاثر ہوکر کہا تھا ؎
اگر فردوس برروئے زمین است
ہمین است و ہمین است و ہمین است
یعنی اگر روئے زمین پر کہیں فردوس ہے تو وہ یہیں ہے، یہیں ہے ، یہیں ہے ۔ آج وہی خوبصورت اور سرسبز و شاداب کشمیر سیلاب میں پوری طرح ڈوب چکا ہے ۔ اس وقت نہ ڈل جھیل نظر آرہی ہے اور نہ خوبصورت سیب کے باغات دکھائی دے رہے ہیں ۔ نہ وہ حسین وادیاں نظر آرہی ہیں اور نہ وہ پُرکشش آبشار دکھائی دے رہے ہیں۔ بس دکھائی دے رہی ہے تو تباہی ، تباہی اور تباہی ۔ جھیلم ندی نے جو کشمیریوں پر قہر ڈھایا ہے ، اس سے راتوں رات لاکھوں لوگوں کی زندگیاں خطرے میں پڑگئی ہیں۔ ہر طرف چیخ و پکار اور امداد کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ کوئی پانی کے لئے چیخ رہا ہے ، کوئی بھوک کی شدت سے تڑپ رہا ہے ، کوئی بیماری سے رو رہا ہے تو کوئی اپنوں کے کھوجانے کے غم میں گریہ وزاری کررہا ہے ۔ اس آفات سماوی کے موقع پر کشمیری عوام کو صرف اپنی اپنی جانیں بچانے کی فکر لاحق ہے ۔ سیلاب نے پورے کشمیر کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے ۔ ہیلی کاپٹرس سے لی گئیں تصویروں میں دور دور تک مکانات کے صرف اوپری دو چار فٹ حصے نظر آرہے ہیں ۔
سیلاب میں کہیں کہیں دو منزلہ عمارتیں تک ڈوب چکی ہیں۔ کہیں لوگ درختوں سے چپکے نظر آرہے ہیں ۔ کہیں گھروں کی اوپری منزلوں کی کھڑکیوں اور دروازوں پر کئی روز سے بھوکے لوگ راحت رسانی کے منتظر نظر آرہے ہیں اور آسمان کی جانب نظریں گڑا ئے بیٹھے ہیں کہ کہیں سے کچھ کھانے پینے کی چیزیں ہیلی کاپٹرس سے آجائیں۔ کیونکہ دور دور تک سڑکوں کا نام و نشان تک ختم ہوچکا ہے ۔ ایسی حالت میں ہندوستانی فوج ان کشمیریوں کی مدد کیلئے مسیحا بن کر آگے آئی ہے ۔ این ڈی آر ایف (نیشنل ڈیزاسٹر ریسپانس فورس) کی ٹیمیں بھی ان متاثرین کوحتی المقدور امداد پہنچارہی ہیں ۔ پولیس کا عملہ اور مقامی لوگ بھی اپنے طورپر ان کی مدد کررہے ہیں۔ رضاکار تنظیمیں بھی اس کام میں لگی ہوئی ہیں، لیکن اس کے باوجود متاثرین کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ سبھوں تک راحت رسانی ممکن نہیں ہورپاہی ہے ۔ جب پورا کشمیر ہی ڈوب چکا ہو تو اتنے بڑے علاقے میں راحت اور بچاؤ کاموں میں وقت تو لگے گا ۔ تاہم بہت سے علاقوں میں لوگوں کو بچایا گیا ہے ۔ ہزاروں افراد کو پانی سے نکالا گیا ہے ۔
واضح ہوکہ گزشتہ کئی دنوں سے کشمیر میں بارش ہورہی تھی ، جس کے سبب جھیلم ندی کا بندھ ٹوٹ گیا اور دیکھتے دیکھتے 6ستمبر کو پورے جموں و کشمیر میں سیلاب کا پانی داخل ہوگیا۔ لوگوں کو سوچنے کا موقع ہی نہ ملا کہ کیا کیا جائے ۔ کہاں جایا جائے ۔ لوگ نکلتے گئے مگر بارش اور سیلاب کے پانی میں انھیں نکلنے کا راستہ نہ ملا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے سیلاب کا پانی مکانات کی پہلی منزل کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ کچھ لوگ چیخنے چلانے لگے، کچھ گھروں میں ہی پھنس گئے کیوںکہ انھیں باہر نکلنے کا راستہ نظر نہیں آیا ۔ چاروں طرف کم و بیش دس تا 15 فٹ سے زیادہ پانی بھرگیا تھا ۔ گھروں میں پانی اتنی تیزی سے داخل ہورہا تھا کہ اس میں اترنے کی کسی کی ہمت نہیں ہورہی تھی کے کسی طرح اُترکر اپنا قیمتی سامان لے کر محفوظ مقام تک جائیں۔ سیلاب کے بہاؤ میں سیکڑوں مکانات منہدم ہوگئے اور گھروں کے باقیات پانی میں بہتے ہوئے ایسے نظر آرہے تھے جیسے بچوں کے کھلونے یا کاغذ کی کشتی پانی میں تیرتی ہے ۔ ایسے نامساعد حالات اور صبر آزما وقت میں لوگ اپنی جان پر کھیل کر ان متاثرین کی مدد کے لئے پہنچے ۔ مقامی لوگ فوری طورپر وہاں لوگوں کی مدد کیلئے آگے آئے ۔ اپنے گھروں سے جو کچھ ہوسکا دوسروں کے لئے لائے لیکن سیلاب کے ایک دن گزرنے کے بعد فوج متحرک ہوگئی۔ بعد ازاں این ڈی آر ایف کی ٹیمیں اپنی سرگرمیاں دکھانی شروع کیں اور اس طرح بچاؤ اور راحت رسانی کا کام شروع ہوا جو آج ایک ہفتہ گزرنے کے بعد بھی جاری ہے لیکن لاکھوں لوگ ابھی بھی وہاں پھنسے ہوئے ہیں جنھیں بچانے کی ضرورت ہے ۔
بڑی، بحری اور فضائی افواج کے علاوہ این ڈی آر ایف او رپولیس عملہ کے ذریعہ اب تک ایک لاکھ دس ہزار (1,10,000) افراد کو جموں و کشمیر کے سیلاب زدہ حصوں سے بچاکر محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیاہے، جبکہ مسلح افواج کی جانب سے راحت رسانی کی سرگرمیاں آج تک جاری ہیں ۔ مرکزی داخلہ سکریٹری انیل گوسوامی نے بتایاکہ جموں و کشمیر کے مختلف حصوں سے مسلح افواج اور این ڈی آر ایف کی کوششوں سے ایک لاکھ دس ہزار سے زائد متاثرہ افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔ گوسوامی کے مطابق نیول مرین کمانڈوز کا تیسرا بیاچ کمپریسرس ، ڈائیونگ سیٹس ، سٹیلائیٹ فونس اور دیگر ضروری اشیاء کے ساتھ سرینگر پہنچ چکا ہے تاکہ بچاؤ اور راحت کاری آپریشنس میں مدد کی جاسکے ۔ ان کے مطابق 2,24,000/- لیٹر پینے کا پانی 31,500 غذائی پیاکیٹس اور 375 ٹن سے زائد پکی ہوئی غذا ( کھانے ) فضائیہ کے ذریعہ سیلاب متاثرین تک پہنچائے گئے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ سیلاب متاثرین میں 8,200 کمبل ( بلانکٹس ) اور 650 خیمے تقسیم کئے گئے ہیں۔ مسلح افواج میڈیکل سرویس کی 80 میڈیکل ٹیمیں پہلے ہی سے وہاں سرگرم ہیں۔ پانی کے صفائی کیلئے استعمال میں لانے والی 13 ٹن کلورائن ٹیبلٹس (گولیاں)اور 6 واٹر فلٹریشن پلانٹس بھی سرینگر پہنچادیئے گئے ہیں جن سے روزانہ 1.2لاکھ بوتلوں کی صفائی انجام دی جاسکتی ہے ۔ مرکز سے 5 ٹن دودھ کے پاوڈر کشمیر کیلئے بھیجے جاچکے ہیں۔ علاوہ ازیں جمعہ کوبھی 5 ٹن دودھ کے پاؤڈر بھیج دیئے گئے ۔ بی ایس ایف ہمیرپور کے اس بڑے پل کی دوبارہ تعمیر میں لگی ہوئی ہے جو سیلاب کی وجہ سے ٹوٹ گیا تھا جو لاکھوں لوگوں کی آمد و رفت کا ذریعہ تھا ۔
گوسوامی کے ساتھ این آئی اے، ایم پی کیڈر کے عہدیدار ساجد شاپو جو کشمیر کے رہنے والے ہیں ، وہ بھی گئے ہیں۔ جموںو کشمیر کے کیڈر کے مکیش سنگھ جو این آئی اے عہدیدار ہیں ، وہ بھی حکومت کی جانب سے کشمیر میں راحت رسانی کے کاموں کیلئے بھیجے گئے ہیں۔ سی آر پی ایف کے ڈی جی دلیپ تریویدی بھی ان کے ہمراہ وہاں گئے ہیں۔ یہ سبھی عہدیداران وہاں متاثرین کی مدد میں جٹے لوگوں کی رہنمائی و نگرانی میں لگے ہوئے ہیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ مرکزی حکومت اس آفت کی گھڑی میں پوری طرح متحرک ہوگئی ہے ۔ چہارشنبہ کو مودی کی سربراہی میں ایک ہنگامی میٹنگ ہوئی جس میں کشمیر کے لئے لائحہ عمل طئے کیا گیا اور وہاں بنیادی ضروریات اور ضروری اشیاء کی فوری طورپر فراہمی کیلئے اقدامات کئے جانے کا فیصلہ کیا گیااور فوری طورپر اس پر عمل آوری ہوگئی ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اتنی کوششوں کے باوجود اب بھی 5 لاکھ لوگ سیلاب میں پھنسے ہوئے ہیں۔ راحت کی بات یہ ہے کہ فی الوقت کشمیر میں بارش رکی ہوئی ہے ۔ سیلاب کا پانی کم ہونے لگا ہے۔ لوگوں کو موبائلس اور چارجنگ کی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔ بٹوٹے ۔ کشتواڑ اور کشتواڑ۔ سنتھان ، پاس ، اننت ناگ کے راستے اب چھوٹی گاڑیوں کے لئے کھل گئے ہیںجبکہ جموں ۔ پونچھ شاہراہ کو بھی اب آمد و رفت کے لئے ممکن بنایا جارہا ہے ۔
فوج ، این ڈی آر ایف ، بی ایس ایف کے نوجوانوں کے علاوہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں دوسری ایجنسیوں نے ایک لاکھ دس ہزار چھ سو پینتالیس (1,10,645) افراد کو محفوظ مقامات تک پہنچانے کا کام کیا ہے ۔ فوج نے راحت کاموں کیلئے کشتیوں کی فوری ضرورت کے پیش نظر سب سے زیادہ متاثرہ سرینگر اور آس پاس کے علاقوں میں مزید 90 کشتیوں کا انتظام کیا ہے ۔ وزارت سیاحت نے ریاست میں سیاحتی سہولیات کی بازیابی کیلئے 100 کروڑ روپئے فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔فضائی کمپنیوں نے مفت سرویس فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے اور راحت کے نام کئی ٹن راحتی اشیاء جموںو کشمیر پہنچائی ہیں اور اس نے یہاں سے 500 افراد کو باہر نکالا ہے ۔ ان میں انجینئرنگ کے 200 طلباء بھی شامل ہیں۔ ایئر انڈیا نے چہارشنبہ کو دوسرے دن بھی لیہہ اور سرینگر کی اپنی روزمرہ کی پروازوں کے علاوہ دو اسپیشل پروازیں چلائی ہیں۔ ایئرانڈیا نے لیہہ سے 122 لوگوں کو دلی لایا جن میں آندھراپردیش کے 44 طلباء شامل ہیں۔ یہ لوگ سرینگر سے سڑک کے ذریعہ لیہہ پہنچے تھے ۔ خانگی فضائیہ کمپنی گو ایئر نے لیہہ سے 151 طلبا کو دلی پہنچایا ۔ وزیر ریلوے سدانند گوڑا نے اپنے عہدیداروں کو جموںو کشمیر میں پھنسے مسافرین کو لانے اور وہاں راحت اشیاء پہنچانے کی ہدایت جاری کی ہے ۔ انڈین ریلوے نے ملک کے کسی بھی اسٹیشن سے جموں توی اور اودھم پور کے لئے راحت کی اشیاء پہنچانے کیلئے مفت انتظام کئے ہیں۔ یہ سہولت 22 ستمبر تک جاری رہے گی ۔ ریلوے کی جانب سے روزانہ کم و بیش 50 سے 60 ہزار پانی کی بوتلیں جموں و کشمیر پہنچائی جارہی ہیں۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ 109 سالوں میں اب تک کی یہ سب سے بڑی تباہی ہے، لیکن مصیبت کی اس گھڑی میں جس طرح پورا ملک ان مصیبت زدگان کی مدد کے لئے دوڑ پڑا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کے لوگ کس قدر حساس ہیں۔ یہ پہلی بار دیکھنے کو ملا ہے کہ کسی ریاست کا وزیراعلیٰ راحت اور غذائی اشیاء کے پیاکٹس ہیلی کاپٹر سے متاثرین کے لئے گرارہا ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ حکومت جموں و کشمیر نے خاطر خواہ مدد نہیں پہنچائی ہے جس کی شکا یت کشمیریوں کی زبانوں پر دیکھی جارہی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ بلا لحاظ مذہب و ملت پورا ملک اس وقت سیلاب زدگان کی مدد کیلئے آگے آیا ہے ۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ کشمیر کے وہ لیڈرس جو عام دنوں میں ٹی وی اسکرین پر کشمیر کی آزادی اور کشمیریوں کے حقوق کے لئے آواز بلند کرتے ہیں کوئی بھی دکھائی نہیں دے رہا ہے اور نہ ہی وہ ان متاثرین کی مدد کیلئے پیش پیش نظر آرہا ہے۔ اب تو کشمیر کے لوگ فوجی حکومت کا مطالبہ مطالبہ کرنے لگے ہیں کیونکہ فوج نے جس طرح سے اپنی جانوں پر کھیل کر ان کی مدد کی ہے اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ فوج کے علاوہ اس موقع پر میڈیا نے بھی نہایت اہم رول ادا کیا ہے۔ نیوز چینلس کے رپورٹرس گھٹنے سے زیادہ پانی میں گھنٹوں کھڑے ہوکر رپورٹنگ کرتے نظر آئے اور انھوں نے گراؤنڈ زیرو کی تصویریں دکھائیں جو کشمیر کی تباہی کی داستان بیان کررہی تھیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے موقع پر سارقین نے بھی خوب فعالیت دکھائی ۔ وہ کھلے گھروں سے فریج ، صوفے ، گیاس سلنڈرس چراکر فرار ہوتے ہوئے دیکھے گئے ۔ کشمیر کی تباہ کاری اور سیلاب کی وجہ سے پیداشدہ زبوں حالی نے بہت کچھ سیکھنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ سب سے اہم بات تو یہ کہ جو لوگ اپنی دولت اور قوت پر فخر کرتے ہیں انھیں ایسے مناظر دیکھ کر سبق سیکھنا چاہئے کہ دولت کب ہم سے چھن جائے کہا نہیں جاسکتا ۔ آج لاکھوں کروڑپتی کشمیری ایک ایک روٹی کومحتاج ہوچکے ہیں۔ یہ مقام عبرت نہیں تو اور کیا ہے ۔
اب جبکہ جموںو کشمیر اور آس پاس کے علاقوں میں پانی کم ہورہا ہے اور معمول کی زندگی بحال ہونے لگی ہے ، لیکن دوسرے طرح کے خدشات پیدا ہونے لگے ہیں اور یہ کہ اب وہاں مختلف طرح کی وبائی بیماریاں پھیل سکتی ہیں کیونکہ بڑی تعداد میںمرے ہوئے جانور ادھر ادھر پانی میں بہتے دیکھے جارہے ہیں۔ کم و بیش 200 افراد کی جانیںجاچکی ہیں۔ متعدد نعشیں پانی میں سڑ رہی ہیں اس لئے تعفن پیدا ہوسکتا ہے اور مختلف طرح کی بیماریاں پھیل سکتی ہیں۔ اس لئے حفظ ماتقدم کے طورپر احتیاطی تدابیر کی ضرورت ہے ۔ لوگوں کی بازآبادکاری اب سب سے بڑا چیلنج بن چکا ہے ۔ اس کے لئے مرکزی اور ریاستی حکومت کو پیش قدمی کرنی ہوگی ۔ دعا کیجئے کہ کشمیر جنت نظیر کی زندگی پٹری پر لوٹ آئے ۔ اور وہاں کے لوگ اپنوں کو دیکھ سکیں، ان سے مل سکے ان کا دکھ درد بانٹ سکیں۔ ڈل جھیل آباد ہوسکے ۔ شکارے اپنی کشش دکھاسکیں۔ سیبوں کے باغات پھل پھول سکیں۔ آبشاروں کی نغمگی سنائی دے سکے اور جھرنوں کی گنگناہٹ سے دل مسحور ہوسکے اور سب سے بڑی بات یہ کہ کشمیر کی وہ پہلے جیسی خوبصورتی دوبارہ لوٹ سکے اور ہم فخر سے کہہ سکیں کہ ہم اس ملک کے باشندے ہیں جہاں روئے زمین پر جنت موجود ہے ۔
mdsabirali70@gmail.com