محمدمصطفے علی سروری
بھوپال سے تعلق رکھنے والے 25سال کے مسلم نوجواں ساحل کو 23 جولائی کے دن غازی آباد کورٹ میں ایک ہجوم نے تشدد کا نشانہ بنایا ۔ ہجومی تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پس منظر میں ہم نے سمجھا کہ ساحل کو بھی مبینہ طور پر گائے خریدنے اور لے جانے کے شبہ اور الزام میں مارا گیا ہو لیکن ساحل کے ساتھ تشدد کا معاملہ تو غازی آباد کی عدالت میں پیش آیا اور پھر بھوپال سے تعلق رکھنے والا ساحل غازی آباد کیوں گیا ۔ ان سوالات کے جواب ہمیں ہندوستان ٹائمز کی 24جولائی کی اشاعت میں شائع ہوئی خبر سے مل جاتے ہیں کہ بھوپال کا متوطن ساحل غازی آباد کی ایک فرم میں کام کرتا ہے ۔ ساحل نہ تو گائے کو خرید کر لے جارہا تھا اورنہ گائے کی تجارت کرتا ہے بلکہ ساحل غازی آباد کورٹ میں شادی کرنے جارہا تھا ۔ جی ہاں ساحل کورٹ میاریج کرنے والا تھا کیونکہ ساحل ایک مسلمان ہے اور وہ جس لڑکی سے شادی کرنے والا تھا وہ ایک ہندو لڑکی ہے ۔ ساحل نے جب پریتی سنگھ کے ساتھ اپنی شادی کو کورٹ میں رجسٹرار کرنے غازی آباد کورٹ گیا تو وہاں پر ایک ہجوم نے ساحل پر حملہ کردیا ‘ ساحل کو معمولی زخموں کے ساتھ پولیس نے بچالیا ۔
قارئین کرام مسلم پرسنل بورڈ کی جانب سے پچھلے دنوں ملک بھر میں شریعہ عدالت قائم کرنے کا اعلان کیا تھا ۔ انگریزی میگزین Out Look نے 19جولائی 2018ء کوا یک رپورٹ شائع کی جس کے مطابق مسلم پرسنل بورڈ کی ریاست اترپردیش میں اس طرح کی 40 شریعہ کورٹ پہلے ہی سے کام کررہی ہیں اور بورڈ ملک کے ہر ضلع میں اب اس طرح کا شریعہ کورٹ قائم کرنا چاہتا ہے ۔ بورڈ کا فیصلہ بڑا خوش آئند ہے لیکن اصل بات تو یہ سونچنے کی ہے کہ کتنے مسلمان ہیں جو اپنے مسائل شریعہ بورڈ کے ذریعہ شریعت کی روشنی میں حل کروانے کیلئے تیار ہیں اور شریعہ بورڈ کے قیام کے بعد بورڈ سے رجوع ہوسکتے ہیں نہ تو غازی آباد کے کورٹ میں ہندو لڑکی سے شادی کرنے والا ساحل شریعہ بورڈ سے رجوع ہوگا اور نہ وہ مسلم لڑکیاں جو ہندو لڑکوں سے شادی کرنے کیلئے ضلع رنگاریڈی ( تلنگانہ ) کے رجسٹرار آفس سے رجوع ہوئے ہیں ۔ ایک لڑکی 32سالہ خوشنما پروین جو آئی ٹی کمپنی گچی باؤلی میں ملازم ہے ‘ 32سالہ کے آئی ٹی پروفیشنل ‘ سدھانت راجندر سے شادی کرناچاہتی ہے ۔ ناظمہ بیگم کی عمر 27سال ہے وہ بھی سافٹ ویر انجنیئر ہے اور 26سال کے سافٹ ویر انجنیئر ارپن چودھری سے شادی کرنا چاہتی ہے ۔ عشرت نام کی ایک اور مسلم لڑکی جس کی عمر 23برس ہے وہ مارکیٹنگ کی فیلڈ میں کام کررہی ہے اور وہ بی پی پون کمار نام کے ایک 27سالہ سافٹ ویر انجنیئر سے شادی کرنے کیلئے رنگاریڈی کے میاریج آفیسر کو درخواست دے رکھی ہے ۔
میرا سوال یہ ہے کہ شریعت کے مطابق فیصلے کرنے والی شریعہ کورٹ سے رجوع ہونے اور پھر اس کے فیصلوں کو قبول کرنے کیلئے کتنے مسلمان تیار ہے ‘ نہ وہ حمیت زندہ ہے اور نہ وہ شعائر اسلامی کے پاسدار باقی ہیں ‘ جدھر دیکھو اُدھر ہر کوئی بھاگ رہا ہے ۔
20 جولائی 2018ء کو TNM ویب سائیٹ نے ایک خبر جاری کی ‘ تفصیلات کے مطابق کیرالا کی ایک 19برس کی مسلم لڑکی شہانہ نے گھر سے بھاگ کر ہارسن نام کے ایک 20سالہ غیر مسلم لڑکے سے شادی کرلی ہے جس کے بعد اس لڑکی اور اس کے شوہر کو مبینہ طور پر جان سے مار ڈالنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں ۔ 18جولائی 2018ء کو ہارسن نے شہانہ کے ساتھ شادی کے بعد اس کو مارنے کی ملنے والی دھمکیوں کے متعلق اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر خطرات سے آگاہ کیا ‘ خود شہانہ بھی ویڈیو میں اپنے والدین کو بتایا کہ میں نے ہارسن سے محبت کی ہے ‘ مجھے مذہب اور ذات پات سے کچھ لینا دینا نہیں ہے ۔ میں اب بھی مسلمان ہوں اس نے میرا مذہب نہیں بدلا ہے اور نہ ہی میں نے کہا کہ میں اپنا مذہب بدلوں گی ‘ میں اپنی مرضی سے اور خوشی سے اس کے ساتھ گئی ہوں ‘ ہم لوگوں کو مار کر کیا ملے گا میں مرنا بھی نہیں چاہتی ہوں بلکہ ہارسن کے ساتھ زندگی گذارنا چاہتی ہوں ۔ مسلمانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ کیرالا کی ہی ایک نومسلم لڑکی ہادیہ کے قبول اسلام کی خوشی مناتا رہا اور دوسری طرف ایسی کئی مسلمان لڑکیاں اور لڑکے ہیں جو اپنے گھر والوں اور مذہب کے خلاف جاکر غیر مسلم لڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ شادی کر کے اپنا گھر بسانہ چاہتے ہیں اور ایسا کر بھی رہے ہیں ۔
محمد غوث الدین کی عمر صرف 23 برس ہے ‘ ہمناآباد کرناٹک کے رہنے والے اس مسلم نوجوان کو ایک ہندو لڑکی سے پیار ہوجاتا ‘ غوث اس ہندو لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے لیکن لڑکی کا بھائی پنچل سچن اپنی بہن کی شادی ایک مسلم لڑکے کے ساتھ نہیں کرنا چاہتا تھا ۔ سچن کی سوتیلی ماں 36 سالہ پرمیلا نے غوث کے سامنے شرط رکھی کہ اگر غوث سچن کو جان سے مار ڈالتا ہے تب وہ اپنی لڑکی کی شادی اس کے ساتھ کردینے کیلئے تیار ہے ۔ غوث ایک ہندو لڑکی سے شادی کیلئے ہمناآباد سے حیدرآباد آکر رہنے لگتا ہے کیونکہ سچن نے بھی اپنی سوتیلی ماں اور بہنوں کے ساتھ اپنی فیملی کو حیدرآباد شفٹ کرلیا تھا ۔ اب غوث الدین نے سچن سے دوستی کا ناٹک شروع کیا ۔ 29مئی 2018 کے دن غوث نے سچن کو ساتھ مل کر شراب پینے کی دعوت دی ‘ سچن نے خوب شراب پی ہی اور غوث نے تھوڑی سی شراب پی تاکہ ہوش میں رہ سکے اور سچن پر نشہ چڑھتے ہی اس کا گلا کاٹ کر قتل کردیا ۔ ( بحوالہ ٹائمز آف انڈیا 23جولائی 2018) ۔چوٹ اوپل کی پولیس نے تقریباً دو مہینے کے بعد اس قتل کا سراغ لگاکر قاتل غوث الدین اور سچن کی سوتیلی ماں کو گرفتار کرلیا ۔
قارئین ذرا اندازہ لگایئے کہ مسلمانوں کی دین سے دوری کا کیا عالم ہوگیاہے کہ 23سال کا مسلم نوجوان ایک ہندو لڑکی سے شادی کیلئے ایک سوتیلی ماں کے بچھائے جال میں آسانی سے پھنس جاتاہے اورشراب پی کر لڑکی کے بھائی کا قتل کردیتا ہے ۔ہندوستان کا مسلمان دین اسلام سے کس قدر دور ہوچکا ہے ۔ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے ۔ ہندو مسلم شادیاں نہ صرف دو فرقوں کے درمیان نفرت کو بڑھاوا دے رہی ہیں بلکہ فرقہ پرستوں کو اپنے مفادات کی روٹیاں سیکھنے میں مدد کررہی ہیں ۔
یہ 2014ء کی بات ہے جب گجرات کی ایک لڑکی پڑھائی کیلئے بنگلور کے ایک کالج کا رُخ کرتی ہے ‘ جہاں پر اس ہندو لڑکی کو ایک مسلم لڑکے سے پیار ہوجاتا ہے ‘ کیرالا کے اس لڑکے نے ہندو لڑکی کو مسلمان بناکر شادی کرلی اور پھر اس لڑکی کو اپنے والدین کے پاس جدہ لے کر چلاگیا ۔ لڑکا ہندو لڑکی کو مسلمان بناکر خوش تھا لیکن ہندو لڑکی کے گھر والے اپنی لڑکی کے گھر سے بھاگ جانے اور اسلام قبول کرلینے کی اطلاعات پر پریشان تھے پھر ایک دن لڑکی جدہ سے بھاگ کر واپس اپنے ہندو والدین کے پاس پہنچ جاتی ہے اور پھر یہ لڑکی کیرالا ہائیکورٹ میں ایک شکایت درج کرواتی ہے کہ اس کو زبردستی اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا گیا اور جدہ لے جانے کے بعد اس کو ملک شام میں جاکر آئی ایس کیلئے لڑنے پر مجبور کیا جارہا تھا ‘ لیکن وہ وہاں سے بھاگ کر واپس اپنے والدین کے پاس پہنچ جاتی ہے ۔ اخبار ’’ دکن ہیرالڈ ‘‘ نے 30جون 2018ء کی اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ لوجہاد کے اس معاملہ کی اب قومی تحقیقاتی ادارہ (NIA) تحقیقات کررہا ہے اور ان سب لوگوں سے پوچھ تاچھ کی جارہی ہے جن سے بنگلور میں پڑھائی کے دوران گجراتی ہندو لڑکی رابطہ میں تھی ۔ اس ضمن میں کمرشیل ٹیکس آفس کے ایک مسلم عہدیدار اوران کی اہلیہ سے بھی تفتیش کی گئی کیونکہ ہندو لڑکی بنگلور میں قیام کے دوران مسلم آفیسر کی اہلیہ سے رابطہ میں تھی ۔
ہندو مسلم شادی کی اس ناکام مثال سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح اب لڑکے کو آئی ایس کے ساتھ جہاد کے الزامات کا سامنا ہے اور جن مسلم لوگوں کے ساتھ لڑکی رابطہ میں تھی ان سے بھی این آئی اے پوچھ گچھ کررہی ہے ۔ قارئین کیا اس طرح کے مسائل کو حل کرنے میں شریعہ کورٹ کچھ کام آسکتے ہیں ہمیں سونچنا ہوگا ۔ میں مسئلہ کی سنگینی کو واضح کرنے صرف انہی واقعات کو پیش کررہا ہوں جو کہ حالیہ عرصہ میں میڈیا میں کور ہوئے ہیں ۔ اخبار ’’ ہندوستان ٹائمز ‘‘ نے 30جولائی کو گجرات سے ایک اور خبر شائع کی جس کی تفصیلات میں بتایا گیا کہ 29جون 2018ء کو پرکاش بھوئی کا بیٹا ایک مسلم لڑکی کو اپنے ساتھ بھگاکر لے گیا ۔مسلمان لڑکی جب ہندو لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی تو پولیس کے مطابق مسلم لڑکی کے گھر والوں نے تقریباً 200لوگوں کے ساتھ مل کر لڑکے کے گھر پر حملہ کردیا ۔ پرکاش بھوئی نے پولیس میں شکایت درج کروائی کہ لاٹھیوں سے لیس 200 افراد پر مشتمل ایک ہجوم نے ان کے گھر پر حملہ کردیا اور 45ہزار مالیتی قیمتی اشیاء لیکر چلے گئے ‘ ان کی اور ان کے پڑوس کی گاڑیوں توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا ۔ ان بلوائیوں نے پرکاش بھوئی کو وارننگ دی کہ وہ ان کی مسلم لڑکی کو واپس لوٹا دیں ۔ اس سے پہلے مسلم لڑکی کے گھر والوں نے 22جولائی کو سنجیلی پولیس اسٹیشن پر دھرنا بھی دیا اوراپنی لڑکی کو واپس لانے کا مطالبہ کیا تھا ۔ لڑکی تو واپس نہیں آئی ہاں پولیس نے پرکاش کے گھر پر حملہ کر کے توڑ پھوڑ کرنے کے الزامات میں چار مسلمانوں کو گرفتار کرلیا ۔
شریعہ کورٹ سے رجوع ہونے کی بات اُس وقت آئے گی جب مسلمان اپنے باہمی مسائل کو شریعت مطہرہ کی روشنی میں حل کروانے اور پھر شریعت کی روشنی میں دیئے گئے فیصلے کو قبول کرنے کیلئے آمادہ ہوں ۔ یہاں تو مسلمان اپنے بنیادی فرائض منصبی سے ہی لاعلم ہے تو ان کیلئے یہ کورٹ کیا معنی رکھتا ہے ۔ قارئین صرف مسئلہ کی نشاندہی کرنا کافی نہیں بلکہ اس کے حل کیلئے اقدامات تجویز کرنا بھی ضروری ہے ‘ جس طرح سے دنیا کے 32 ملکوں نے اپنے قوم و ملک کے تحفظ و دفاع کیلئے اپنے نوجوانوں کیلئے فوج میں کچھ وقت کام کرنا ضروری قرار دیا ہے ۔ جرمنی اور ترکی میں نوجوانوں کو کچھ عرصے کیلئے ملٹری میں کام کرنا لازمی ہے ۔ اسرائیل کے ہر اس شہری کو ملٹری کیلئے کام کرنا ضروری ہے جس کی عمر 18سال ہو ۔ یہاں تک کہ وہ امریکی جو اسرائیل اور امریکہ کی دوہری شہریت رکھتے ہیں ان کیلئے بھی اسرائیل کی آرمی میں کام کرنا ضروری ہے ۔
قارئین میری دانست میں اب وقت آگیا ہے کہ مسلم نوجوانوں میں دین کی بنیادی تعلیمات کو عام کرنے کیلئے مسلم پرسنل بورڈ اور ملی و قومی ادارے بنیادی اسلامی تعلیمات ہر ایک مسلمان کیلئے لازمی کرنے سفارشات پیش کریں کہ عصری تعلیم سے پہلے والدین اپنے بچوں کو دین اسلام چھ کے ماہی یا ایک سالہ مختصر مدتی بنیادی اسلامی تعلیم کو لازمی کرلیں ۔ دین کی پہچان دین اسلام کی تعلیمات سے واقفیت ہی مسلمانوں کو شریعت کی اہمیت سے واقفیت کرواسکتی ہے اور جب مسلمانوں کے دل و مزاج شریعت اسلامی کے دائرے کار میں دھڑکنے لگے گے تب ہی جاکر شریعت کی روشنی میں دیئے جانے والے فیصلوں کی قدر کی جائے گی اور انہیں قبول کیا جائے گا ۔ ورنہ شریعہ کورٹس کی حالت ایسی ہوگی کہ جگہ جگہ دواخانے کھولنے کا منصوبہ ہے مگر مریض کو پتہ ہی نہیں کہ ان دواخانوں میں علاج ہی شفاء ہے ۔ مسلم نوجوان نسل کی دین سے دوری روکنے میں نے یہ حل سوچا ہے اور آپ نے کیا سوچا ہے۔ سوچیئے ورنہ بہت دیر ہوجائے گی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی اولاد اور آنے والی نسلوں کو دین اسلام کی صحیح تعلیمات اس کی اصل روح کے ساتھ نہ صرف پہنچائیں بلکہ سمجھائیں ۔ ( آمین یا رب العالمین )
sarwari829@yahoo.com