سید سلطان شکیل
کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے ۔ ہمارے ساتھ والے مکان میں ایک حافظ صاحب رہتے تھے جن کی اہلیہ عالمہ تھیں ۔ ایک دن انھوں نے مکان مالک سے گھر میں مدرسہ کھولنے کی اجازت مانگی جو نہیں ملی ۔ پھر انہوں نے مکان پر صرف مدرسہ کا بورڈ لگانے کی اجازت طلب کی جب ان سے وجہ دریافت کی گئی تو کہنے لگے کہ مدرسہ کے بورڈ کی کچھ تصاویر لے کر رسید بک چھائیں گے تاکہ مدرسہ کے نام پر چندہ جمع کرسکیں ۔ رمضان کا مہینہ ہے کچھ آمدنی ہوجائے گی ۔
اس واقعہ کو لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم آپ کو بتائیں کہ ایسا بھی مدرسہ ہوتا ہے بلکہ پتہ نہیں ہمارے سماج میں ایسے کتنے مدارس ہیں جو لاکھوں کا چندہ ہضم کرجاتے ہیں ۔ ہمارے پیارے رسولؐ نے فرمایا کہ دنیا کا سب سے اچھا کام قرآن سیکھنا اور سکھانا ہے ۔ شاید برا کام اس کو پیشہ بنانا ۔ لیکن کیا کریں کس کو غلط سمجھیں سب ہی سفید پوش ہیں ، ہر ایک کے چہرے پر لمبی داڑھی اور پیشانی پر گٹھہ ہے ۔ باتیں ایسی کرتے ہیں کہ آدمی ان کا گرویدہ ہو کر سب کچھ لٹانے پر تیار ہوجائے ۔
ہر صاحب استطاعت سے گذارش ہے کہ وہ کم سے کم پیسہ بھی کسی کارخیر میں لگارہے ہیں تو اچھی طرح اطمینان کرلیں کہ آپ کا پیسہ صحیح جگہ خرچ ہوا ہے ۔ اگر حسب خواہش کام کی تکمیل ہورہی ہے تو پھر یہ نیکی کی کمائی بن جائے گی اور اس اجر کا آخرت میں کتنے اضافہ کے ساتھ انہیں ملے گا ۔ اگر نہیں تو پھر آپ کی نیکی ضائع ہوجائے گی اور آپ بھی سامنے والے کی گمراہیوں میں تعاون کرنے والے بن جائیں گے ۔ اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ آپ نے تو ثواب کی نیت سے دیا ہے سامنے والا جو چاہے کرے ۔ ہر قسم کی تعلیم کیلئے ایک ادارہ اور اسکا نصاب ہوتا ہے ۔ جس کی ہدایت پر تحت کے مدارس تعلیم دیتے ہیں ۔ لیکن ہمارے پاس ایسے بہت سارے مدارس ہیں جن کے پاس کوئی نصاب ہے نہ وہ کسی ادارہ سے منسلک ہیں ۔ شاید ان منتظمین کے پاس قابلیت کی کمی ہوتی ہے کہ وہ اساتذہ کا انتخاب بھی صحیح نہیں کرسکتے ۔ چنانچہ تعلیم سے زیادہ توجہ چندہ پر ہوتی ہے تاکہ اخراجات کی پابجائی ہوسکے اور اس کاز کیلئے منتظمین اپنے زیر اثر حاشیہ میں چند وصول کرتے ہیں تو اساتذہ مساجد کا رخ کرتے ہیں ۔ بیچارے طلباء کو رسید بک دے کر گھر گھر بھیجا جاتا ہے یا پھر کپڑا پکڑاکر مساجد کے سامنے کھڑا کردیا جاتا ہے ۔ اس چندہ سے کس کا پیٹ بھرتا ہے اور ان مدارس میں بچوںکا مستقبل کیا ہوگا اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔ اس کے علاوہ انھیں آیت کریمہ ختم قرآن اور درود شریف کی محفلوں میں بھیجا جاتا ہے ۔ پتہ نہیں شریعت میں اس کا کیا جواز ہے ۔
بعض بڑے مدارس بھی ہیں جہاں طلباء تعلیم حاصل کرکے حافظ یا عالم بن جاتے ہیں مگر اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ طلباء کم عمری میں ہی مدرسوں میں داخلہ لے لیتے ہیں اور تقریباً بلوغت کو پہنچنے تک ان کی تعلیم مکمل ہوجاتی ہے کیونکہ اس عمر میں ٹھہراؤ نہیں ہوتا اس لئے اکثر بچے نگرانی نہ ہونے کی وجہ سے راستہ بھٹک جاتے ہیں اور لغویات میں پڑکر حاصل کیا ہوا علم اکثر بھول جاتے ہیں ۔ کم عمری اور عربی زبان سے واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے وہ قرآن اور حدیث کے مفہوم کو سمجھ نہیں پاتے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی عزت اور عظمت نہیں ہوتی ۔
بورڈنگ والے مدارس میں زیادہ تر بچے غریب گھرانوں سے ہوتے ہیں جن کے والدین کے پاس نہ مستقل آمدنی ہوتی ہے اور نہ ہی ان کی کوئی تہذیب ہوتی ہے ۔ بچوں کو مدرسہ میں صرف اس لئے ڈالا جاتا ہے کہ روٹی ، روزی کے ساتھ کچھ تعلیم بھی مل جائے گی ۔ سنا ہے دیہاتوں میں کچھ ایسے مدارس بھی ہیں جہاں لوگ غریب والدین کو پیسہ کا لالچ دے کر ان کے بچوں کو جمع کرتے ہیں اور اس کو مدرسہ کا نام دے کر چندہ وصول کرتے ہیں ۔ ان میں سے اکثر کے والدین علم کی اہمیت اور قرآن کی عظمت کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اور نہ بچوں کو پتہ ہوتا ہے کہ وہ کیا حاصل کررہے ہیں ۔ چنانچہ ان میں زیادہ تر اپنی تعلیم مکمل نہیں کرپاتے اور جو کرلیتے ہیں ان کے پاس یہی ایک علم ہوتا ہے ۔ اس لئے وہ اس کو ذریعہ معاش بنالیتے ہیں پھر پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے بعض لوگ جھوٹے فتوے دینے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ اس طرح یہ دین کے ٹھیکیدار بن جاتے ہیں ۔ حضرت امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں کہ ’’جو علم کو دنیا کمانے کیلئے حاصل کرتا ہے علم اس کے قلب میں جگہ نہیں پاتا‘‘ ۔ راستہ بھٹک جانے والوں کے تعلق سے اکثر اخباروں میں پڑھنے کو ملتا ہے کہ کسی حافظ صاحب کے موبائل میں فحش تصاویر ملی ہیں اور کوئی چندہ کی بک کیساتھ چندہ لیکر فرار ہوگیا ہے ۔ کسی نے اپنے ولیمہ میں آرکسٹرا رکھا ہے تو کسی کے ولیمہ کا کھانا نیم برہنہ لڑکیوں نے سپلائی کیا ۔ مہمانوں میں نہ صرف ان کے ساتھی علماء و حفاظ تھے بلکہ ان کے اساتذہ بھی لطف اندوز ہورہے تھے ۔
جب تک خلافت تھی علماء اور حفاظ کی مانگ تھی ۔ انہیں سرکاری طور پر مدارس اور عدالتوں میں ملازمت دی جاتی تھی ۔ زمانہ بدل گیا ہے اب مانگ کم ہوگئی اور سپلائی زیادہ ہورہی ہے ۔ اگر کسی مدرسہ یا مسجد میں جگہ خالی ہو تو بھی قابلیت سے زیادہ سفارش کام آتی ہے ۔ طلباء میں دوسرے ہنر کی کمی کی وجہ سے کام نہیں مل رہا ہے ۔ چنانچہ غربت بڑھتی جارہی ہے اور مدرسہ قائم ہوتے جارہے ہیں ۔
دن بدن علماء کی تعداد بڑھتی جارہی ہے ۔ پھر بھی ہمارے امت کے مسائل کم نہیں ہوتے ۔ شادی ، بیاہ اور طلاق کا مسئلہ ہو ، وراثت کے مسائل یا پھر زکوۃ و صدقات کے مسائل جن کا اطمینان بخش جواب نہ ملنے کی وجہ سے امت بھٹک رہی ہے ۔ ہر مفتی اپنے اپنے نظریہ سے فتوی دیتا ہے ۔ لوگ پریشان و بیزار ہوکر اپنے وقت اور عزت کے ساتھ اپنا سب کچھ عدالت اور پولیس کے چکر میں لٹارہے ہیں ۔ جب ہمارا اپنا شرعی قانون ہے جو ہمارے ایمان کا ایک جز ہے اور جس پر صدیوں بہترین عمل ہوا ہے تو پھر اب ہمیں سرکاری قانون کی کیوں ضرورت پڑگئی ۔ کیا یہ نعوذ باللہ شریعت کے قانون سے بہتر ہے یا پھر ہمارے پاس رہبری کرنے والے نہیں کے برابر ہیں ۔
حضرت عمرؓ کا قول ہے ’’یا رکھو کہ تم اسلام کی بخشی ہوئی عزت کے سوا کوئی اور عزت حاصل کرنا چاہتے ہو تو اللہ تعالی تم کو ذلیل کردے گا‘‘ ۔
آج ہمارے پاس بڑے جامعہ اور مدارس ہیں جہاں سے کافی تعداد میں حفاظ ، عالم و فاضل وغیرہ نکل رہے ہیں ۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ شاید ان میں مومن نہیں کہ برابر ہیں ۔ جو نہ صرف اللہ تعالی کے مقبول بندہ ہیں بلکہ یہی جنت کے صحیح حقدار بھی ہیں ورنہ آج معاشرہ کی یہ حالت نہ ہوتی ۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ تمام سرپرستوں کو توفیق دے کہ وہ اپنی اولاد کو مومن بنانے کی فکر کریں تاکہ ہماری امت کی حالت بہتر ہوسکے ۔ آمین ۔