کسانوں اور خانگی اداروں کو پلانٹ نصب کرنے کیلئے حوصلہ افزائی، ریاستی وزیر ڈی کے شیو کمار کا بیان
بنگلور9جون : (سیاست ڈسٹرکٹ نیوز)آئندہ ایک سال کے عرصہ میں کرناٹک 9500میگا واٹ بجلی تیار کرنے والی ملک کی پہلی ریاست بن جائے گی۔حکومت خانگی اداروں،کاروباری اداروں ،تعلیمی اداروں اور کسانوں کو شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کے پلانٹ نصب کرنے اور انھیں اچھی قیمت پر خریدنے کا آفر دے کر ان کی مسلسل حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔میڈیا سے بات کرتے ہوئے ریاستی وزیر توانائی مسٹر ڈی کے شیو کمار نے آج کہا کہ کرناٹک شمسی توانائی کے میدان میں زیادہ سے زیادہ بجلی گرڈ میں ڈالدینے والی پہلی ریاست بن جائے گی۔انھوںنے کہا کہ حکومت ان کسانوں کو مکمل طور پر مالی و تیکنیکی امداد دینے کی خواہاں ہے جو اپنے کھیتوں میں شمسی توانائی کا پلانٹ نصب کرنے کے خواہاں ہیں۔حکومت شمسی توانائی کے پینل نصب کرنے پر کسانوں کو رعایت بھی دینے کا اعلان کر چکی ہے اور اس پر عمل پیرا بھی ہے۔ہم کسی بھی سطح پر ایک میگا واٹ شمسی توانائی پیدا کرنے پر 50لاکھ روپیے سبسیڈی دینے کا اعلان کر چکے ہیں۔جس میں اشتراک کے ساتھ شمسی توانائی کا پلانٹ نصب کرنے والے کسان یا ان کے گروپس بھی شامل ہیں۔واضح رہے کہ کرناٹک ملک میں تمام ریاستوں کے لیے خانگی اداروں سے شمسی توانائی کو بھاری قیمت پر خریدنے کے ضمن میں مثالی ریاست بن چکی ہے۔اور حکومت اس اسکیم کو مسلسل آئندہ بھی جاری رکھنا چاہتی ہے۔کوئی بھی خواہ وہ دیہی علاقے میں ہو یا شہری علاقے میں اپنے گھر میں یا اپنیزمین پر شمسی توانائی کا پلانٹ نصب کر سکتا ہے اور اس توانائی کو استعمال بھی کر سکتا ہے نیز بچ رہنے والی زائد توانائی کو حکومت کے سرکاری گرڈ کو فروخت بھی کر سکتا ہے۔جس کا اسے معقول معاوضہ ملے گا۔مسٹر شیو کمار نے کہا کہ شمسی توانائی کے پراجکٹوں سے دیہی علاقوں کے نوجوان کو بڑی تعداد میں روزگار سے جوڑ دیا ہے۔یہ بے روزگار نوجوان مرکز اور حکومت کرناٹک کی جانب سے مہیا کردہ سہولتوں اور اسکیموں سے کافی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔مرکز شمسی توانائی کو حاصل کرنے کے لیے سالانہ 5000کروڑ روپیے کی رقم کرناٹک کو بہم پہنچا رہا ہے اور کرناٹک اپنے کوٹے کو مکمل طور پر استعمال کرنے کا خواہاں ہے۔اس سے ان کسانوں کو جو امساک باراں کا شکار علاقوں میں کھیتی باڑی کرتے ہیں اور کافی پریشانیوں کا شکار ہوتے ہیں ایک میگا واٹ بجلی پیدا کرنے پر 50لاکھ روپیے کی سبسیڈی حاصل کر سکتے ہیں اور اپنی زندگیوں میں اور مالی حالتوں میں کافی سدھار لا سکتے ہیں۔مسٹر شیو کمار نے کہا کہ مرکزی حکومت کی اسکیم کے تحت آندھرا پردیش ،تلنگانہ ،پنجاب اور راجستھان جیسی ریاستوں نے شمسی توانائی کے حصول کے اسکیموںکو روبہ عمل لانے کی کوشش کی مگر کرناٹک نے اس اسکیم میں قیادت کا مقام حاصل کر لیا ہے۔ہمیں کسانوں کی جانب سے بے شمار ایسی درخواستیں موصول ہوئی ہیں جن میں انھوں نے 0.5میگا واٹ تا 5میگاواٹ شمسی توانائی کی بجلی پیدا کرنے کے پلانٹ نصب کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔اور اس مقصد کے تحت بے شمار کسانوں نے آگے بڑھ کر اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں حکومت کی مدد کی ہے۔انھوں نے کہا کہ کرناٹک کو ہم اس لیے اس شعبہ میں لیڈر قرار دے رہے ہیں کیوں کہ شمسی توانائی کے حصول کی اسکیم کے تحت مرکز نے دیگر ریاستوں کو کرناٹک کی مثال دی ہے اور اس کے خطوط کو رہنمایانہ خطوط قرار دے کر انھیں اس کی تقلید کرنے کی تاکید کی ہے۔انھوں نے کہا کہ حکومت کو اب تک کسانوں کی جانب سے 300میگا واٹ شمسی توانائی کی پیداوار کے پلانٹ نصب کرنے کی درخواستیں موصول ہوچکی ہیں اور اس پر عملی کام آگے بڑھ رہا ہے۔خاص طور پر شمالی کرناٹک میں ریاست کرناٹک کی حکومت نے منی پلانٹ جو 0.5میگاواٹ سیلے کر 5میگاواٹ شمسی توانائی پیدا کرنے کے منصوبوں کو ترجیح دینے کی کوشش کی ہے۔مسٹر شیو کمار نے کہا کہ کرناٹک شمسی توانائی کی پیدوار ملک میں بڑھانے کے لیے اہم ترین اور کلیدی رول ادا کر رہی ہے اور بنیادوں سے ملک میں زیادہ سے زیادہ شمسی توانائی کو بڑھانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔انھوں نے کہا کہ مرکز نے امسال 434کروڑ روپیے اس مقصد کے لیے کرناٹک کو جاری کیے ہیں اور اب وقت آگیا ہے کہ ان کسانوں کے لیے جن کے علاقوں میں سال بھر بارش ہوتی ہے وہ شمسی توانائی کے حصول کی کوششوںکو تیز کر دیں۔مسٹر کمار نے کہا کہ ریاست کرناٹک کو آئندہ چند ماہ میں بجلی کی پیداوار کے شعبہ میں حکومتخود کفیل بنا دے گی اور تب تک مانسون کی بنا پر آبی ذخائر لبریز ہو جائیں گے اور ساتھ ہی رائچور تھرمل پاور پراجکٹ سے بھی بڑی مقدار میں بجلی گرڈ میں لائی جائے گی اور ساتھ بلاری کے سوپر تھرمل پاور پراجکٹ کی پیداوار اور ساتھ ہی دیگر قابل تجدید توانائی کے ذرائع سے حاصل ہونے والی بجلی بھی گرڈ میں رہے گی۔