کربلا … لا الہ الا اللہ

مرزا غلام حسین بیگ
محترم بزرگ شاعر ، شاعر اربعین کے چیدہ چیدہ نوحوں کو بڑی عرق ریزی سے یکجا کر کے محترم ڈاکٹر شفیع بدر صاحب نے بقیع آرگنائزیشن امریکہ کے وسیلے سے طبع فرماکر نہ صرف شاعر اربعین محترم مرزا فرید بیگ صاحب فریدؔ پر بلکہ سارے عزاداران حسین و ماتم داران پر احسان کیا ہے ۔ 27 ذی الحجہ 1439 ھ مطابق 8 ستمبر 2018 ء بروز شنبہ بعد مغرب کربلا … لا الاہ الا اللہ کی رسم رونمائی بمقام حسینہ دیوڑھی نواب عنایت جنگ بہادر میں انجام دی گئی ویسے یہ دیوڑھی اپنی نورانیت میں ثانی نہیں رکھتی ، اس کے باوجود محسوس ہورہا تھا کہ دیوڑھی کے گوشہ گوشہ سے نور اُبل رہا ہے ، اس نور کی کیفیت قلم و زبان سے ماورا تھی اور پھر سونے پر سہاگہ صلواتوں کی فلک شگاف گونج محفل کو گرما رہی تھی ۔ فریدؔ صاحب کی گلپوشی نہیں کی جارہی تھی بلکہ مختلف انجمنوں اور معزز مومنین کی جانب سے فریدؔ صاحب پر پھولوں کی بارش کی جارہی تھی ۔ چونکہ میں سیدھے رسم رونمائی ’’کربلا … لا الاہ الا اللہ ‘‘ کی محفل سے آرہا ہوں اس لئے غیر ارادی طور پر مندرجہ بالا چند سطور ضبط تحریر میں آگئے ۔ اب صاحب بیاض محترم المقام جناب مرزا فرید بیگ صاحب قبلہ فریدؔ کا مختصر سا تعارف قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔ مرزا فرید بیگ صاحب فریدؔ حیدرآباد کے قدیم علمی ، وضعدار ، متین خاندان کے چراغ ہیں جو اپنے خاندانی اوصاف کو صبح کی کرنوں کی طرح اپنے حلقہ احباب میں بکھیر رہے ہیں ۔ آپ کے والد بزرگوار محترم حضرت مرزا ابراہیم علی بیگ مرحوم کو چار زبانوں پر دسترس حاصل تھی ۔ عربی ، فارسی ، اردو ، انگریزی موصوف بحیثیت اول تعلقدار (ڈسٹرکٹ کلکٹر) اعلیٰ عہدہ پر کارگزار رہتے ہوئے حکومت سے منسلک رہے ۔ آپ کے حقیقی چچا تقدس مآب مرزا بہادر علی اعلیٰ الہ مقامہ ، صفی حیدرآبادی جو شاعر ملت پر محمد باقر امانت خانی باقرؔ کے چچرے ماموں ہوتے تھے ۔ مولوی مرزا بہادر علی صاحب اپنے وقت کے جید عالم دین تھے ، اسی طرح باقر امانت خانی صاحب اپنے وقت کے لاثانی مرثیہ گو رہے ہیں، محترم کو شہر حیدرآباد کے علماء فقہا نے آپ کی مرثیہ گوئی سے متاثر ہوکر ’’انیس دکن‘‘ کی سند عطا فرمائی تھی۔
محترم فریدؔ صاحب کی ایک خاص اور منفرد صفت نوحہ گوئی کے علاوہ کبھی کسی دوسری صنف شاعری میں طبع آزمائی نہیں فرمائی جیسے کہ عموماً شعراء اکرام ہر صنف مثلاً غزل، گیت ، رباعی ، مرثیہ نوحہ ، سلام وغیرہ وغیرہ میں کچھ نہ کچھ ضرور لکھا کرتے ہیں۔ نوحہ کی منفرد تاثیر یہ ہوتی ہے کہ نوحہ خواہ کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو عموماً اس کا ایک آدھ مصرعہ ایسا ہوتا ہے کہ رقیق القب تو بہرحال رقیق القلب ہی ہوتے ہیں، شقیق القلب کو بھی اپنے آنسو پر قابو پانا ناممکن ہوجاتا ہے ، یقیناً ایسا مصرعہ نوک قلم سے برآمد ہوکر شاعر کے دل و دماغ جذبات و عقیدہ کے وسیلے سے واقعات کی دلسوز منظر کشی کرتا ہے اور یہ مرحلہ شاعر کیلئے یقیناً فنی اعتبار سے بڑا آزمائشی ہوتا ہے ۔ فرید صاحب کے ایک نوحہ کا ایک مصرعہ ملاحظہ کیجئے ، فرماتے ہیں ’’بے رداب نت علی ہے شام کے دربار میں‘‘ ۔ غور کیجئے کیا مصرعہ سر پیٹ کر دھاڑیں مار کر گریہ و زاری کرنے کیلئے کافی نہیں ہے کہ حسن و حسین جیسے جنت کے جوانوں کے سردار ، عباس جیسے بے مثل بہادر قمر بنی ہاشم کی بہن علی مرتضی شیر خدا و خاتون جنت کی صاحبزادی ، شام کا دربار یزید تخت خلافت پر متمکن اور سات سو شائدین و سفرا کرسی نشین تماشائیوں کا ہجوم اور ’’بے ردا بنت علی‘‘ ہے شام کے دربار میں ‘‘ اس نوحہ میں جناب زینب سلام اللہ علیہا جن کو بعض اہل قلم و علم دانش نے ’کربلا ی شیر دل خاتون ‘‘ بھی لکھا ہے ۔ مدینہ منورہ واپسی سے قبل بھائی کی تربیت اقدس پر بین فرما رہی ہیں جس کو محترم فریدؔ صاحب نے بے حد دل سوز الفاظ کے بریکر میں ڈھال کر پیش فرمایا ہے ۔ ملاحظہ فرمایئے ۔
بھائی کیا سناؤں میں ہم پہ کیا ستم گزرے
بعد عصر عاشورہ بے کفن تھے سب لاشے
شام غم کے چھاتے ہی موت کے بڑھے سائے
چھن گئی ردا میری بھائی جل گئے خیمے
اربعین کرنا ہے شاہ کربلائی کا
آپ سے جدا ہوکر جب مدینہ جاؤنگی
جاکے ماں کی تربیت پر مرثیہ سناؤنگی
کربلا کے مقتل میں کیا ہوا بتاؤنگی
بھائی قید خانہ کی تیرگی سے ہو آئے
آپ کی امانت کو ظلمتوں میں کھو آئے
خون گوشواروں کا آنسوؤں سے دھو آئے
یوں سکینہ بی بی کو سب اسیر رو آئے
اربعین کرنا ہے شاہ کربلائی کا
مندرجہ بالا چند بند ایک طویل نوحہ کے ہیں، منتخب نوحہ جات کا مجموعہ 398 نوحہ جات کا حامل (400) صفحات پر مشتمل ہے ، بہترین عمدہ قسم کا کاغذ، بہت قیمتی اور مضبوط و خوشنما جلد ، ہدیہ بہت کم رکھے ہیں اس نوحہ جات کے مجموعہ کو سلمان بک سنٹر ، دارالشفاء سے حاصل کیا جاسکتا ہے یا پھر 9849385603 پر ربط پیدا کیجئے۔