کتوں کی انسانیت اور انسانوں کی حیوانیت

محمد ریاض احمد
وہ قوت سماعت سے محروم ہے، جزوی طور پر نابینا بھی ہے۔ بڑھتی عمر کے باعث اس میں ضعیفی کی علامتیں واضح دکھائی دیتی ہیں ماحول پر تاریکی چھائی ہوئی ہے۔ بجلیاں کڑک رہی ہیں جس سے تاریکی میں چند لمحات کے لئے روشنی بکھر جاتی ہے۔ طوفانی بارش نے ماحول میں سنسنی پیدا کردی ہے۔ راستہ کیا ہے کوئی انسان وہاں سے بڑی مشکل سے گزرتا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ایک گڑیا جیسی تین سالہ لڑکی اور ورا AURURA ہے۔ تین سال کی عمر میں کوئی بچہ یا بچی خوف سے واقف نہیں ہوتے۔ انھیں بارش کی پرواہ ہوتی ہے نہ ہی بادلوں کے گرجتے بجلیوں کے کڑکنے اور درختوں سے پانی کے گرنے کی سنسنی خیز آوازیں ان میں خوف و دہشت پیدا کرتی ہیں۔ بہرحال وہ شیرخوار لڑکی آہستہ آہستہ جنگل کی طرف بڑھ رہی ہے۔ جو اس کے گھر سے چند کیلو میٹر کے فاصلہ پر ہے۔ تاریکی اور طوفان بارش کے درمیان درختوں کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ کئی دیوہیکل وجود ایک قطار میں کھڑے ہیں۔ بڑا خوفناک منظر تھا۔ اس کے باوجود معصوم لڑکی اپنے ساتھی کے ساتھ بڑے اطمینان سے قدم آگے بڑھارہی تھی جبکہ وہ جزوی نابینا ہونے کے باوجود بڑی بے چینی سے کبھی بچی کے آگے بھاگنے لگتا کبھی دوڑ کر پیچھے کی طرف چلا جاتا۔ کبھی کبھی بڑے اضطراب کے ساتھ اس معصوم کے آزو بازو دوڑنے لگتا لیکن بچی سے دور نہیں جاتا۔ دیکھتے دیکھتے دونوں گھنے جنگل میں داخل ہوگئے۔ دوسری طرف بچی کے ماں باپ رات دیر گئے اچانک اس کے لاپتہ ہونے پر فکرمند ہیں۔ انھیں کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کریں تو کیا کریں۔ انھیں کبھی کبھی خدشہ ہوتا کہ قریبی جنگل کا کوئی درندہ تو اسے اُٹھاکر نہیں لے گیا۔ وہ مکان کے قریب تاریکی میں ہی آورورہ کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں لیکن ناکامی ان کے ہاتھ لگتی ہے۔ اس دوران وہ پولیس کو بھی شیرخوار بچی کے لاپتہ ہونے کی رپورٹ کرتے ہیں۔ پولیس بھی اس کی تلاش میں مصروف ہوجاتی ہے۔ رات، درمیانی شب کی طرف اور درمیانی شب صبح کی جانب تیزی سے رواں دواں ہے۔ بارش تھم گئی ہے۔ پولیس ہیلی کاپٹر کے ذریعہ سارے علاقہ کا کونا کونا چھان رہی ہے لیکن وہ بھی ناکام ہے۔ اس دوران اپنی کمزور بصارت کے باوجود وہ بچی پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ جنگلی جانوروں، سانپوں اور حشرات الارض سے اس کی حفاظت کے لئے انتہائی چوکس ہے۔ رات بھر وہ بڑی وفاداری کے ساتھ بچی کی حفاظت پر متعین رہا اور پھر صبح ہوتے ہی آوازیں بلند کردیں۔ وہ مسلسل اپنی آواز بلند کرتا رہا۔ اس نے یہ بھی پرواہ نہیں کی کہ آوازیں بلند کرنے سے اس کا گلا پھٹا جارہا ہے۔ اورورہ کی دادی لیزانے اُس کی آواز سن کر آواز کی جانب لپکی، ان کے ساتھ پولیس اہلکار بھی تھے۔ پھر انھیں آروروہ کی آواز آئی دیکھا تو بچی جنگل میں بالکل محفوظ ہے اور ان کے ساتھ 17 سالہ میاکس بھی ہے جس کے باعث ہی تین سالہ معصوم بچی آرورہ کی زندگی بچ پائی۔ ورنہ وہ جنگل کے کسی درندے کا لقمہ بن جاتی۔ آرورہ کی دادی اور پولیس اس بات پر خوش تھے کہ میاکس نے غیرمعمولی وفاداری، بہادری اور انسانیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک معصوم بچی کی زندگی بچائی۔ قارئین یہ واقعہ آسٹریلیا کی دوسری بڑی ریاست کوئنس لینڈ میں پیش آیا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ 17 سالہ میاکس کوئی بہادر نوجوان ہوگا جس میں جذبہ انسانیت کوٹ کوٹ کر بھرا ہوگا لیکن ایسا نہیں ہے آورورہ کی زندگی بچانے والا کوئی انسان نہیں بلکہ بلو ہیلر آسٹریلوی نسل کا ایک ضعیف کتا ہے (عام طور پر کتوں کی عمر16-17 برس ہی ہوتی ہے) کوئنس لینڈ پولیس اس کتے میاکس کی بہادری، انسانیت نوازی اور وفاداری سے اس قدر متاثر ہوئی کہ اسے نہ صرف پولیس اعزاز سے نوازا گیا بلکہ اپنے فیس بُک صفحہ پر میاکس کی تصویر پوسٹ کرتے ہوئے اس کی تعریف کی اور عوام کو بتایا کہ اس کتے ایک چھوٹی سی لڑکی کی جنگل میں 15 گھنٹوں تک حفاظت کی اور اس کے تحفظ میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی چنانچہ میاکس کو علاقہ کوئنس لینڈ میں فی الوقت ایک ہیرو کی حیثیت حاصل ہوگئی۔

یہ تو رہی آسٹریلیا میں ایک کتے کی انسانیت کی بات دوسری طرف جموں کے کٹھوعہ کے ایک مندر میں جسے ایک پوتر استھان تصور کیا جاتا ہے جہاں ہندو بھائی بہنیں اپنے بھگوانوں کی پوجا کرتے ہیں ان کی آرتی اُتارتے ہیں۔ کیڑے مکوڑے کو بھی گزند پہنچانے کو پاپ (گناہ) تصور کرتے ہیں، ایک بہت ہی خوبصورت، معصوم اور جنگلاتی علاقوں سبز و شاداب وادیوں اور چراگاہوں میں بڑی آزادی سے گھوڑوں، بکروں اور دوسرے جانوروں کو چرانے والی 8 سالہ لڑکی کو جو حقیقت میں ایک ننھی سی پری ہے ایک نہیں دو نہیں بلکہ 6 چھ درندے نوچ کھائے ۔ ہاں دیکھنے میں تو وہ انسان دکھائی دے رہے ہیں لیکن جس طرح ان لوگوں نے ننھی پری کا اغواء کیا اسے بار بار بیہوشی کی دوا پلاکر باری باری سے اس کی عصمت تار تار کرتے رہے اس سے تو وہ انسان باقی ہی نہیں رہے بلکہ وحشی درندوں کی شکل اختیار کرلی۔ بوڑھا بوالہوس سانجی رام اور اس کے شریک ملزمین بچی کے ساتھ جنسی زیادتی میں اس قدر آگے نکل چکے تھے کہ ان میں انسانیت باقی ہی نہیں رہی۔ کاش انھیں پھول جیسی لڑکی میں اپنی پوتی، نواسی، بیٹی، بہن نظر آتی لیکن ایسا تب ہوتا جب وہ حقیقت میں انسان ہوتے۔ ذرا تصور تو کیجئے سات دنوں تک اس بچی کو بھوکا رکھا گیا۔ بار بار بیہوشی کی دوا پلائی گئی، باری باری درندوں نے اس کے ساتھ منہ کالا کیا۔ اس گھناؤنے جرم کے دوران وہ شائد روتی رہی، ان سے رحم کی بھیک مانگتی رہی، فریادیں کرتی رہی، ماں اور باپ کو یاد کرتی رہی، اسے چھوڑ دینے کی التجائیں کرتی رہی ہوگی لیکن ان درندوں پر اس کی چیخ و پکار ، آہ و بکا اور مظلومیت کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ حد تو یہ ہے کہ ان 6 درندوں کی مدد کے لئے دو پولیس اہلکاروں نے بھی درندگی کی تمام حدوں کو پھلانگ دیا۔ چند سکوں کے لئے انسانیت اور انسانی اقدار کی دھجیاں اُڑادیں۔ انسانیت کا سر شرم سے اس وقت بھی جھک گیا جب پی ڈی پی ؍ بی جے پی مخلوط حکومت میں شامل دو بی جے پی وزراء لال سنگھ اور چندا پرکاش گنگا نے ننھی پری کے قاتلوں کی تائید و حمایت میں نکالے گئے جلوس میں نہ صرف شرکت کی بلکہ ان کی مدافعت بھی کی۔ لال سنگھ اور چندا پرکاش گنگا جیسے لوگوں کی بیٹیوں، بیویوں اور بہوؤں یا بہنوں کے ساتھ ایسا ہوتا تو انھیں پتہ چلتا کہننھی پری کے ماں اپ اس کی بہن اور رشتہ داروں پر کیا گزر رہی ہے۔

بیٹی کی عصمت لُٹ جانے اور اس کے بہیمانہ انداز میں قتل کئے جانے کا غم اس کا درد کیا ہوتا ہے، ہم یہاں بنا کسی جھجھک کے کہہ سکتے ہیں کہ آسٹریلیا کے ایک کتے نے معصوم بچی کو بچاکر انسانیت کا غیرمعمولی مظاہرہ کیا اور جموں کے کٹھوعہ میں ایک مجبور و بے بس خانہ بدوش لڑکی کے ساتھ درندگی کی حد کرتے ہوئے انسان نما بھیڑیوں نے حیوانیت کی حد کردی۔ اگر ہندوستان کے موجودہ حالات کا بغور جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ چار برسوں سے قانون ٹھپ ہوکر رہ گیا۔ قانون سے کھلواڑ عام ہوگیا ہے۔ انصاف کی دھجیاں اُڑائی جارہی ہیں۔ ملک کے کونے کونے سے لڑکیوں اور خواتین کی چیخیں سنائی دے رہی ہیں۔ حکومت، حکومت کا چوکیدار اور چوکیدار کا گتہ دار، ان کا پریوار سب کے سب مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اب تو چوکیدار نے بھی بیٹی بچاؤ ۔ بیٹی پڑھاو کا نعرہ لگانا بند کردیا ہے کیوں کہ اسے بخوبی اندازہ ہوگیا ہے کہ اب اس کے چاہنے والے حامی اور سرپرست پریوار اس کے کنٹرول میں نہیں رہے۔ مذہبی چولا پہن کر بھی زانی بڑی دیدہ دلیری سے اپنی معتقد خواتین اور لڑکیوں کی عزتوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ نام نہاد سادھو آسارام باپو اس کی تازہ مثال ہے۔ 10 ہزار کروڑ سے زائد مالیتی اثاثوں کے مالک آسارام کو ایک 16 سالہ دلت لڑکی کی عصمت ریزی کا خاطی پاکر اس کی آخری سانس تک عمر قید کی سزا سنائی۔ اس طرح کے درندہ صفت خود ساختہ اور عوام کا مذہبی استحصال کرنے والے سادھو سنتوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو خدمت خلق کے نام پر پُرتعیش زندگی گزار رہے ہیں۔ کروڑہا بیوقوفوں کے دلوں پر وہ راج کرتے ہیں جس کی وجہ صرف اور صرف ہندوستانیوں میں پائی جانے والی توہم پرستی ہے۔ ہم نے سطور بالا میں ملک میں خواتین اور لڑکیوں پر جنسی حملوں اور انسان نما درندوں کا ذکر کردیا ہے اور ہم بلا کسی خوف و خطر یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ انسان نہیں بلکہ حیوان ہیں اور ان سے تو انسان کے بچوں کو بچانے والے کتے بہتر ہیں۔ آج ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اس قسم کے درندے سارے ملک میں دندناتے پھر رہے ہیں۔ انھیں درندگی سے باز رکھنے کی کوشش نہ کرنا بھی درندگی ہی ہوگی۔ حال ہی میں مہاراشٹرا کے علاقہ کرجت اقامتی اسکول میں 6 تا 13 سال عمر کی کم از کم 8 لڑکیوں کے ساتھ اس اسکول کے کیرٹیکر نے مسلسل منہ کالا کیا۔ قوت سماعت اور قوت گویائی سے محروم ان لڑکیوں کے ساتھ ہونے والی درندگی کا انکشاف تو اُس وقت ہوا جب تعطیلات پر گھر پہنچنے والی ایک 6 سالہ بے زبان لڑکی نے اشاروں کی زبان میں اپنے بدقسمت باپ کو بتایا کہ اس کے اعضائے مخصوصہ میں درد ہورہا ہے۔ ڈاکٹر سے رجوع کرنے پر اس معصوم لڑکی کے ساتھ ریپ اور غیر فطری فعل کئے جانے کا انکشاف ہوا۔ اپنی بچی کی حالت دیکھ کر اس کے غریب ماں باپ کے پیروں تلے زمین کھسک گئی۔ انہیں لگا کہ آسمان ان کے سروں پر آن پڑا ہے۔ بعد میں مزید 7 چھوٹی بچیاں سامنے آئیں اور بتایا کہ ان کے ساتھ بھی اسکول کے نگران نے منہ کالا کیا۔ 6 سالہ لڑکی نے ملزمین کی پریڈ کے دوران خاطی نگران کی نشاندہی کی۔ اب علی یاور جنگ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسپیچ اینڈ ہیرئنگ ڈیز ایبیلیٹی کے اشاروں کنایوں میں بات کرنے کے ماہرین کی اس کیس میں خدمات حاصل کی گئیں۔

آپ کی اطلاع کے لئے عرض کردوں کہ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے ڈاٹا 2016 ء میں واضح کیا گیا کہ بچوں کے ریپ کے واقعات میں ایک برس میں 85 فیصد کا اضافہ ہوا۔ 2016 ء میں صرف بچوں کے ریپ کے 19765 واقعات منظر عام پر آئے۔ مدھیہ پردیش، مہاراشٹرا، ہریانہ، اترپردیش جیسی ریاستیں ان واقعات میں سرفہرست ہیں اور اتفاق سے ان ریاستوں میں مودی جی کی بی جے پی کا اقتدار ہے۔ غیر سرکاری تنطیم CRY کے مطابق ہر 15 منٹ میں ایک کمسن بچی کو جنسی حملہ (جنسی جرائم) کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک گھنٹے میں 4 ، ایک دن میں 96 اور ایک ماہ میں 2880 اور ایک سال میں 34,560 بچیوں پر جنسی حملے کئے جاتے ہیں۔ بچوں کے خلاف جنسی حملوں میں اترپردیش، مہاراشٹرا اور مدھیہ پردیش سب سے آگے ہیں۔ کچھ سال قبل زعفرانی درندوں نے ایک 74 سالہ عیسائی راہبہ کو بھی نہیں چھوڑا تھا۔ حد تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں 4 ماہ کی لڑکی بھی محفوظ نہیں۔ بی جے پی قائدین پر بھی عصمت ریزی کے الزامات ہیں جس کی مثال اناو ریپ کیس ہے۔ مودی جی کی حکومت میں بیٹیوں کو باہر بھیجنا بھی خطرہ سے خالی نہیں۔ حالیہ عرصہ کے دوران مین پوری میں ایک 11 سالہ لڑکی کو ریپ کرکے زندہ جلادیا گیا۔ چھتیس گڑھ میں ایک حیوان نے 10 سالہ لڑکی کی عزت لوٹ کر اس کا قتل کردیا۔ اندور میں 4 ماہ کی بچی کسی درندہ کی ہوس کا نشانہ بنی۔ یوپی کے ہی کانپور میں 13 سالہ لڑکی کے ساتھ منہ کالا کرکے اس کی زندگی کا خاتمہ کردیا گیا۔ غرض ہندوستان کے طول و عرض میں درندگی کے ان واقعات سے عوام میں مایوسی پیدا ہوگئی ہے۔ انھیں ڈر ہے کہ انسان نما کوئی درندہ نمودار ہوکر بیٹیوں کو نشانہ بنائے گا۔ 2002 ء میں ایسے ہی درندے گجرات میں دندناتے پھر رہے تھے۔ ان میں سے آج اکثر اقتدار کی کرسیوں پر فائز ہیں۔ انھیں بیوی کی محبت کا اندازہ ہے نہ بیٹی کے پاکیزہ رشتے کی اہمیت معلوم ہے۔ ان انسان نما درندوں کو کم از کم ان واقعات پر غور کرنا چاہئے جہاں کتوں نے کوڑے دانوں میں پھینکے گئے انسانوں کے لاوارث بچوں کو اُٹھاکر حقیقی انسانوں تک پہنچاکر ان کی زندگیاں بچائیں۔ اس بارے میں ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ واقعات کتوں کی انسانیت اورانسانوں کی حیوانیت کو ظاہر کرتے ہیں۔
mriyaz2002@yahoo.com