7 مہاراشٹرا کی سیاست کا دلچسپ موڑ
7 سیکولر اور غیر سیکولر دونوں اتحاد میں انتشار
رشیدالدین
فلمی نگری ممبئی میں ان دنوں جدائی کا موسم چل رہا ہے۔ جس طرح فلموں میں ملن اور جدائی کے ڈرامے دکھائے جاتے ہیں، اس کا اثر مہاراشٹرا کی سیاست میں دیکھا جارہا ہے۔ ایک ہی دن میں صرف دو گھنٹے کے وقفہ میں طویل عرصہ سے قائم دو محاذ ٹوٹ کر بکھر گئے اور ایک دوسرے کے مقابل ہونے کا اعلان کردیا۔ مہاراشٹرا اور خاص طور پر ممبئی کے عوام جو فلموں میں اس طرح کے مناظر دیکھنے کے عادی ہوچکے ہیں، انہیں بھی دو اتحادی محاذوں کے ٹوٹنے کا معاملہ پہلے تو کسی فلمی کہانی کی طرح لگا لیکن بعد میں انہیں بھی حقیقت کو تسلیم کرنا پڑا۔ آج کل کی سیاست کا حال بھی کچھ فلمی انداز کا ہوچکا ہے۔ جس طرح فلموں میں دوستی اور علحدگی بناوٹی ہوتی ہے، ٹھیک اسی طرح مہاراشٹرا کی سیاست میں بھی ڈرامائی تبدیلیاں دیکھی جارہی ہیں۔ بی جے پی اور شیوسینا کا 25 برس طویل اتحاد یکلخت ٹوٹ گیا تو دوسری طرف این سی پی نے کانگریس سے اپنی 15 سالہ رفاقت کو رقابت میں بدل دیا۔ مہاراشٹرا اسمبلی کے انتخابات میں نشستوں کی تقسیم کے مسئلہ پر جاری تنازعہ کا انجام اتحاد کے خاتمہ کی شکل میں سامنے آیا ہے ۔ بی جے پی نے شیوسینا سے اتحاد کو توڑنے کے اعلان میں پہل کی تو اس کے دو گھنٹے بعد این سی پی نے کانگریس کو الوداع کہہ دیا۔ ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے این سی پی کو بی جے پی ۔ شیوسینا اتحاد کے ٹوٹنے کا انتظار تھا۔ دونوں محاذوں کے اتحاد کا ٹوٹنا اصولوں ، پالیسی ، نظریات یا مسائل کی بنیاد پر نہیں ہوا بلکہ نشستوں کی تقسیم میں رسہ کشی علحدگی کا سبب بن گئی۔ اگر اصول اور اقدار کی بنیاد پر اختلاف ہوتا تو پھر بھی قابل قبول تھا لیکن یہاں تو کرسی اور اقتدار کیلئے زور آزمائی کی گئی۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ایک ہی نظریات کے حامل اتحاد ٹوٹ گئے۔ علحدگی کے باوجود دونوں کے نظریات میں کوئی فرق نہیں آئے گا ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ سیاست میں کسی بھی لمحہ کچھ بھی ہوسکتا ہے اور ہر پارٹی کے پیش نظر صرف اقتدار اور کرسی ہے۔ سیاست میں اب اصول ، نظریات اور اقدار کیلئے کوئی جگہ نہیں۔ یہ باتیں اذکار رفتہ اور قصہ پارینہ بن چکی ہیں۔ اقتدار اور کرسی کیلئے کسی بھی چیز کی قربانی دی جاسکتی ہے۔ جس طرح سیاست میں مستقل دوست اور دشمن نہیں ہوتا لہذا لمحہ آخر تک بھی دونوں محاذوں میں دوبارہ اتحاد کی مساعی کے امکانات کھلے ہیں کیونکہ اتحاد ہر دونوں جماعتوں کی مجبوری ہے۔ کوئی بھی پارٹی تنہا طور پر مہاراشٹرا میں اقتدار حاصل نہیں کرسکتی۔ اگر انتخابات بھلے ہی علحدہ طور پر لڑے جائیں لیکن نتائج کے بعد ایک دوسرے کی ضرورت پڑے گی۔ شیوسینا۔بی جے پی ہو کہ کانگریس۔این سی پی اتحاد ، ان کے بکھرنے کیلئے کوئی ایک پارٹی ذمہ دار نہیں بلکہ چاروں برابر کے ذمہ دار ہیں۔ پارٹیوں کا اوور کانفیڈنس ، احساس برتری اور انانیت جیسے عوامل نے چاروں کو تنہا کردیا ۔ ہر پارٹی کی یہ خوش فہمی ہے کہ وہ سب سے زیادہ طاقتور اور مقبول ہے۔ بی جے پی کو لوک سبھا انتخابات کے مظاہرہ پر غرور ہے تو شیوسینا گزشتہ ضمنی انتخابات میں بی جے پی کے ناقص مظاہرہ سے ہونے والے نقصان سے بچنا چاہتی ہے۔ کانگریس پارٹی 15 سالہ حکمرانی کے زعم میں ہے۔
ساتھ ہی حالیہ ضمنی چناؤ میں گجرات اور راجستھان میں بہتر مظاہرہ نے اس کے عزائم کو بلند کردیا ہے۔ این سی پی لوک سبھا چناؤ میں برتری کو اسمبلی چناؤ میں بھی برقرار رکھنے کا یقین رکھتی ہے۔ این سی پی کو اندیشہ ہے کہ کانگریس حکومت کے خلاف مخالف عوام لہر سے کہیں اسے بھی نقصان نہ ہوجائے۔ لہذا وہ حکومت کے اسکامس میں شراکت دار کی حیثیت سے عوام کے درمیان جانا نہیں چاہتی ۔ دونوں جماعتوں کو امید ہے کہ بی جے پی شیوسینا اتحاد کے ٹوٹنے سے انہیں زیادہ فائدہ حاصل ہوگا۔ الغرض ہر پارٹی اپنے داؤ پر ہے اور دوسرے سے علحدگی کیلئے کسی بہانے کی متلاشی تھی، انہیں نشستوں کا الاٹمنٹ ایک ہتھیار کے طور پر مل گیا ۔ 288 رکنی اسمبلی میں ہر پارٹی اپنی حلیف سے نصف نشستوں کا مطالبہ کر رہی ہے۔ سیکولر اور غیر سیکولر محاذوں میں پھوٹ نے مہاراشٹرا کے انتخابات کو دلچسپ بنادیا ہے ۔ طویل عرصہ بعد مہاراشٹرا میں انتخابات دو محاذوں کے درمیان نہیں بلکہ چار جماعتوں کے درمیان یعنی چار رخی مقابلہ ہوگا۔ کانگریس نے سماج وادی پارٹی کی شکل میں ایک نیا دوست تیار کرلیا ہے لیکن یہ این سی پی کا متبادل نہیں ہوسکتا۔ سماج وادی پارٹی کا اثر مہاراشٹرا کے بعض مخصوص علاقوں تک محدود ہے، وہ سارے مہاراشٹرا کے نتائج پر اثر انداز نہیں ہوسکتی۔ سماج وادی پارٹی کانگریس کیلئے محض ایک کمزور سہارے کے سواء کچھ نہیں۔ موجودہ صورتحال مہاراشٹرا کے رائے دہندوں کے شعور کا امتحان ہے اور عوام کا فیصلہ یقیناً دلچسپ ہوگا۔ انتخابی نتائج مہاراشٹرا کی سیاست اور سیاسی جماعتوں کی پسندیدگی اور عوامی مقبولیت کے بارے میں زمینی حقیقت کو آشکار کردیں گے ۔
جہاں تک شیوسینا سے اتحاد توڑنے میں بی جے پی کی پہل کا تعلق ہے ، یہ اقدام بی جے پی کیلئے کم فائدہ مند اور زائد نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔ اتحاد کی برقراری کے سلسلہ میں آر ایس ایس کی مداخلت اور پھر خاموشی سے محسوس ہوتا ہے کہ بی جے پی ’’ناگپور ہیڈکوارٹر‘‘ پر مکمل انحصار کئے ہوئے ہے۔ ناگپور آر ایس ایس کا ہیڈکوارٹر ہونے کے باوجود وہ شیوسینا کے اثر کو کم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ شیوسینا کی مدد کے بغیر مہاراشٹرا میں آر ایس ایس بھی ادھوری ہے کیونکہ آر ایس ایس کے نظریات کو مہاراشٹرا میں عام کرنے کا کام شیوسینا انجام دے رہی ہے۔ بی جے پی اس بات کو فراموش کر رہی ہے کہ لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات میں عوام کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں۔ اسمبلی چناؤ میں مقامی مسائل چھائے رہتے ہیں۔ جس طرح لوک سبھا چناؤ میں نریندر مودی کو وزیراعظم بنانے کا نعرہ لگایا گیا تھا
، وہ لہر اسمبلی چناؤ میں کارآمد نہیں ہوسکتی۔ گوپی ناتھ منڈے کی موت کے بعد مہاراشٹرا میں بی جے پی کے پاس کوئی عوامی مقبول چہرہ نہیں رہا جسے پارٹی کی قیادت کے طور پر ابھارا جاسکے ۔ جس پارٹی نے مہاراشٹرا میں سنگھ پریوار کے نظریات کو جلا بخشی ، اسی شیوسینا کو فراموش یا اسے کم تر تصور کرتے ہوئے بی جے پی کا آگے بڑھنا ان اخلاقی اقدار کے مغائر ہے جس کی دہائی بی جے پی قیادت دیتی رہی ہے۔ کیا بال ٹھاکرے اور ان کے خاندان کی قربانیوں کو فراموش کیا جاسکتا ہے؟ جس کے تعاون سے مہاراشٹرا میں بی جے پی کو قدم جمانے کا موقع ملا ، اس سے علحدگی بی جے پی کی مفاد پرستانہ سیاست کا ثبوت ہے۔ لوک سبھا انتخابات کی کامیابی کے بعد دراصل بی جے پی بے قابو ہوچکی ہے۔ مرکز میں بی جے پی کے اقتدار کے بعد شیوسینا مہاراشٹرا میں اپنا سکہ چلانا چاہتی ہے اور پارٹی سربراہ اودھو ٹھاکرے کو چیف منسٹر کے امیدوار کے طور پر عوام سے روبرو کیا گیا۔ جس دن جونیئر ٹھاکرے نے چیف منسٹر کے عہدہ کی دعویداری پیش کی ، اسی وقت سے بی جے پی۔شیوسینا اتحاد پر خطرے کے بادل منڈلانے لگے ۔ بال ٹھاکرے نے کبھی اقتدار اور کرسی کی خواہش نہیں کی بلکہ ہمیشہ پارٹی کے استحکام کیلئے کوشاں رہے۔ انتخابات میں بی جے پی سے بہتر مظاہرہ کے باوجود بھی بال ٹھاکرے نے چیف منسٹر کی کرسی حاصل نہیں کی۔ اقتدار سے دور رہ کر بھی وہ بادشاہ گر کے موقف میں تھے اور حکومت کا ریموٹ کنٹرول ان کے ہاتھ میں رہا ۔ گزشتہ 4 ماہ میں نریندر مودی حکومت کے مایوس کن مظاہرے اور ضمنی چناؤ میں گجرات ، یو پی اور راجستھان میں کمزور موقف نے شیوسینا کو آنکھ دکھانے کا موقع فراہم کردیا۔ مہاراشٹرا میں بی جے پی قیادت کا فقدان ، کانگریس کے چیف منسٹرس پر الزامات اور ان کی عدم مقبولیت نے بھی اودھو ٹھاکرے کو چیف منسٹر کے عہدہ کا مضبوط دعویدار بنادیا ہے ۔ موجودہ کانگریس کے چیف منسٹر پرتھوی راج چوہان اور این سی پی کے اجیت پوار کے مقابلے ادھو ٹھاکرے چیف منسٹر کے عہدہ کے لئے عوام میں زیادہ پسندیدہ ہیں۔ شرد پوار اپنی بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ عوام پر گرفت کھونے لگے ہیں۔ ویسے بھی رائے دہندوں کا رجحان ملک بھر میں معمر قائدین کے حق میں نہیں ہے کیونکہ رائے دہندوں کی اکثریت نوجوانوں کی ہے۔ راج ٹھاکرے جنہیں شیوسینا کے لئے نقصان دہ سمجھا جارہا تھا، وہ خود شناخت کے بحران میں ہیں اور اپنی بقاء کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ ایسے میں شیوسینا کا اوور کانفیڈینس ہونا فطری ہے۔ امیت شاہ جنہوں نے خود کو ’’اقتدار کا بھوکا‘‘ اور تمام ریاستوں میں بی جے پی کے اقتدار کو اپنا مشن قرار دیا تھا،
ان کیلئے بھی مہاراشٹرا اور ہریانہ کے چناؤ کسوٹی ہیں۔ کیا مہاراشٹرا کے رائے دہندے بی جے پی کی خاطر علاقائی جماعت شیوسینا کو نظرانداز کردیں گے؟ کرسی اور اقتدار کی رسہ کشی ، کانگریس اور این سی پی کے اتحاد ٹوٹنے کا سبب بنی، جس سے سیکولر رائے دہندوں میں مایوسی دیکھی جارہی ہے، جس طرح حالیہ ضمنی انتخابات میں سیکولر ووٹ کے متحدہ استعمال سے کانگریس ، سماج وادی پارٹی کو فائدہ ہوا ، اسی طرح مہاراشٹرا میں کانگریس۔این سی پی اتحاد کی کامیابی کے امکانات روشن تھے لیکن افسوس کہ ان جماعتوں کی ترجیح سیکولرازم کا تحفظ اور فرقہ پرست طاقتوں سے متحدہ مقابلہ کے بجائے کرسی اور اقتدار ہوچکی ہے۔ سیکولر ووٹ کی تقسیم کی صورت میں تنہا اقتدار توکجا موجودہ موقف کی بحالی بھی ممکن نہیں۔ دونوں پارٹیاں سیکولرازم کی چمپین ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں اور اگر ووٹ تقسیم ہوں تو مہاراشٹرا کے رائے دہندے انہیں معاف نہیں کریں گے ۔ کانگریس اور این سی پی کو جان لینا چاہئے کہ عوام نے 15 برس تک دونوں جماعتوں کی مخلوط حکومت کے حق میں فیصلہ دیا۔ اب ان دونوں جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیکولر اتحاد کو آگے بھی جاری رکھیں۔ کانگریس اور این سی پی کیلئے اقتدار میں واپسی کا یہ ایک سنہری موقع تھا۔ موجودہ صورتحال میں مہاراشٹرا کے چناؤ سیکولر اور غیر سیکولر طاقتوں کیلئے ایسڈ ٹسٹ کی طرح ہیں۔ مہاراشٹرا کی صورتحال پر عوام کا ردعمل ایسا ہے جیسے وہ مشہور زمانہ گیت گنگنارہے ہوں ۔
سورج نہ بدلا چاند بدلا نہ بدلا رے آسمان
کتنا بدل گیا انسان ، کتنا بدل گیا انسان