ڈی ایم کے قائدین کی کھری کھری، چیف منسٹر کانگریس کے حق میں نرم رویہ پر مجبور ، علاقائی جماعتیں ٹی آر ایس سے محتاط
حیدرآباد ۔ 30 ۔ اپریل (سیاست نیوز) قومی سطح پر تیسرے محاذ کی تشکیل سے متعلق چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ کی سرگرمیوں کو جگہ جگہ رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ کے سی آر نے بی جے پی اور کانگریس کے خلاف متبادل کے طور پر تیسرے محاذ کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے مختلف علاقائی جماعتوں کے قائدین سے مذاکرات کا آغاز کیا۔ تیسرے محاذ کے قیام کا مقصد کانگریس کی مخالفت سے زیادہ بی جے پی کی تائید ہے۔ اس صورتحال کو محسوس کرتے ہوئے کئی پارٹیوں نے تیسرے محاذ کے سلسلہ میں محتاط رویہ اختیار کرلیا ہے جس کے سبب کے سی آر کو کھل کر تائید کا حصول مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ گزشتہ دو ماہ کے دوران کے سی آر نے بی جے پی سے متعلق موقف میں جس طرح قلابازیاں کھائی ہے ، اس سے دیگر سیکولر جماعتیں چوکس ہوگئی ہیں۔ پارلیمنٹ میں ایک طرف مسلم تحفظات کے مسئلہ پر ہنگامہ آرائی تو دوسری طرف حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر غیر جانبدارانہ رویہ کے سی آر کے سیکولرازم کے دعویٰ پر سوال کھڑا کرتا ہے۔ پارلیمنٹ میں بالواسطہ طور پر بی جے پی کی تائید کے بعد کے سی آر نے تیسرے محاذ کا ایک نیا شوشہ چھوڑا جس میں کانگریس کے ساتھ بی جے پی کے خلاف ہم خیال جماعتوں کو یکجا کرنے کی بات کہی گئی۔ کرناٹک کے انتخابات میں جنتا دل سیکولر کی تائید سے ان اندیشوں کو تقویت حاصل ہوگئی کہ کے سی آر دراصل کانگریس کو اقتدار سے بے دخل کرنا چاہتے ہیں۔ مختلف مواقع پر کے سی آر کے بدلتے موقف پر ممتا بنرجی ، دیوے گوڑا اور پھر ڈی ایم کے قائد اسٹالن نے تیسرے محاذ کی تائید سے گریز کیا اور کانگریس کے بغیر تھرڈ فرنٹ کو ناممکن قرار دیا ۔ کے سی آر جنہوں نے چینائی میں ڈی ایم کے قائدین سے ملاقات کی، وہاں کانگریس کی مخالفت سے گریز کیا۔ ڈی ایم کے مرکز میں کانگریس زیر قیادت یو پی اے کی حلیف جماعت ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق ڈی ایم کے کے کارگزار صدر اسٹالن نے کے سی آر پر واضح کردیا کہ کانگریس کے بغیر محاذ تشکیل دینا حکمت کے خلاف ہوگا کیونکہ کانگریس بڑی قومی پارٹی ہے اور بی جے پی سے مقابلہ کیلئے کانگریس کی تائید ضروری ہے ۔ ڈی ایم کے کے اس رخ کو دیکھتے ہوئے کے سی آر نے اپنے موقف کو تبدیل کردیا اور وضاحت کی کہ تیسرے محاذ میں کانگریس کی شمولیت کی مخالفت نہیں کی گئی۔ انہوں نے تیسرے محاذ کے قیام کے سلسلہ میں ابھی ابتدائی مذاکرات کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ قطعی شکل کے لئے مزید دو تین ماہ درکار ہوں گے ۔ کے سی آر جنہیں تلنگانہ میں کانگریس سے سخت مقابلہ درپیش ہے ، چینائی میں لچکدار موقف اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے ۔ بتایا جاتا ہے کہ اب تک جن قائدین سے بھی کے سی آر نے تھرڈ فرنٹ کے مسئلہ پر بات چیت کی ، ان میں سے ہر کسی نے کانگریس کے بغیر محاذ کو نامکمل قرار دیا۔ ممتا بنرجی نے کہا کہ تیسرا محاذ بھلے ہی کانگریس کی قیادت میں نہ ہو لیکن کانگریس کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ اطلاعات کے مطابق سابق وزیراعظم ایچ ڈی دیوے گوڑا نے بھی بی جے پی اور کانگریس کے خلاف محاذ کی تیاری کو مشکل قرار دیا۔ چینائی میں ڈی ایم کے قائدین سے ملاقات سے کے سی آر اور ان کے ساتھیوں کو عملاً مایوسی ہوئی ہے کیونکہ انہوں نے کانگریس کو محاذ میں شامل کرنے کی صلاح دی جس کے بعد کے سی آر نے کانگریس کو محاذ سے دور رکھنے کے عزائم سے انکار کیا۔ ریاست میں اقتدار بچانے اور مرکز میں بی جے پی کی مدد کیلئے تیسرے محاذ کا جو شوشہ چھوڑا گیا تھا ، وہ مقاصد کی تکمیل میں ناکام دکھائی دے رہا ہے ۔ چیف منسٹر اور ان کے ساتھی بھلے ہی لاکھ دعوے کرلیں لیکن جن قائدین سے بھی کے سی آر نے ملاقات کی ان کے بیانات میں تضاد پایا گیا۔ کے سی آر نے گزشتہ دنوں دعویٰ کیا تھا کہ اڈیشہ کے چیف منسٹر نوین پٹنائک نے انہیں فون کیا اور تیسرے محاذ پر بات چیت کیلئے آئندہ ماہ کے پہلے ہفتہ میں بھوبنیشور آنے کی دعوت دی ہے۔ دوسرے ہی دن نوین پٹنائک نے وضاحت کردی کہ دراصل کے سی آر نے انہیں فون کیا اور مندروں کے درشن کیلئے آنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ بیجو جنتا دل مرکز میں بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے کی حلیف جماعت ہے اور وہ تیسرے محاذ کا حصہ نہیں بن سکتی ۔ کے سی آر نے مئی کے پہلے ہفتہ میں سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو سے ملاقات کا منصوبہ بنایا ہے۔ سماج وادی پارٹی اترپردیش میں کانگریس کی حلیف ہے اور اسمبلی انتخابات میں شکست کے باوجود دونوں پارٹیوں نے دوستی کو برقرار رکھا ہے ، ایسے میں سماج وادی پارٹی کی جانب سے کانگریس کی مخالفت کی توقع کرنا فضول ہے۔ کے سی آر تیسرے محاذ کیلئے اپنے کٹر حریف چندرا بابو نائیڈو جنہیں کل تک تلنگانہ کا دشمن نمبر ایک قرار دے رہے تھے، انہیں آج اپنا قریبی دوست کہنے پر مجبور ہیں۔ موجودہ سیاسی صورتحال میں چندرا بابو نائیڈو بھلے ہی بی جے پی اور کانگریس کے خلاف متبادل کی تائید کریں لیکن محاذ کے لئے درکار اہم قومی اور علاقائی جماعتوںکی تائید حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ آخر میں کانگریس اور بی جے پی کی مخالفت کیلئے ٹی آر ایس اور تلگو دیشم کے علاوہ کوئی اور پارٹی شاید ہی آگے آئے گی ۔ دو جماعتوں پر مبنی محاذ دو ریاستوں تک محدود ہوکر رہ جائے گا۔