راجدیپ سردیسائی
گزشتہ چار سال سے کوئی نہ کوئی بڑی ریاست کے انتخابات منعقد ہوتے رہے ہیں اور اُس کو وزیراعظم نریندر مودی اور امیت شاہ کے امتحان کی کسوٹی مانا گیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ بہار اور دہلی میں 2015 ء کی شکست کے بعد ، 2017 ء میں گوا میں حق رائے دہی پر غاصب ہوجانے کے سوائے بی جے پی نے تقریباً ہر انتخابی مقابلہ جیتا ہے ( پنجاب میں بی جے پی حلیف اکالی دل کو سب سے بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا) اب وقت آچکا ہے کہ اُن ساری کہانیوں کو پلٹ دیا جائے ۔ 2018ء سرما انتخابات دراصل راہول گاندھی اور کانگریس کے صدارتی قابلیت کی کسوٹی ہے جس میں پتہ چل جائے گا کہ 2019 ء کی مخالف مودی مہم کا کہاں تک مقابلہ کرسکتے ہیں۔ گزشتہ بارہ ماہ سے راہول گاندھی گجرات میں بی جے پی کو دو ڈیجٹ میں لانے اور کرناٹک میں مابعد انتخابات کامیاب ڈپلومیسی کے ڈنکے پیٹتے آرہے ہیں اور اب وہ اور کانگریس پارٹی کو پانچ ریاستوں میں انتخابی جنگ کا سامنا ہے جہاں پر وہ اپنی ناکامی کیلئے کوئی بھی عذر پیش نہیں کرسکتے۔ حالانکہ اس رفتار کو وسیع عام انتخابات سے جوڑا تو نہیں جاسکتا ۔ یاد رہے کہ 2003 ء سرما میں بی جے پی نے راجستھان ، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں اور پھر 2004 کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی ۔ اب آپ کو اپنی جیت کی رفتار کو باقی رکھنا ہے اور اپنے وجود کو بھی منوانا ہے اور اگر تین ریاستوں میں نہیں تو کم از کم دو ریاستوں میں جیت ضروری ہے تاکہ مابعد انتخاب سیاسی نئی صف بندی کی جاسکے جو بیحد ضروری ہے ۔ چار ماہ قبل کرناٹک میں جیت اور نئی سیاسی صف بندی کے باعث بی جے پی کے خلاف ایک مہاگٹھ بندھن کے امکانات پیدا ہوگئے تھے لیکن علاقائی اختلافات اور قومی مفادات کے بعد اُسکے امکانات مبہم پڑھ چکے ہیں۔
اپوزیشن اتحاد کو سب سے بڑا دھکا بہوجن سماج پارٹی کی صدر مایاوتی کے اعلان کے ساتھ کہ وہ ریاستوں کے انتخابات میں کانگریس سے اتحاد نہیں کرے گی پہنچا ہے ۔ اُترپردیش میں مایاوتی کا اہم رول پایا جاتا ہے اور سماج وادی پارٹی کے ساتھ ملکر وہ سیاسی منظرنامہ کو تبدیل کرسکتی ہیں اس کے علاوہ قریب چھ ریاستوں بشمول مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں بھی اُن کی پارٹی کا اچھا خاصہ اثر ورسوخ پایا جاتا ہے اور ان ریاستوں میں بی جے پی اور کانگریس ووٹوں کی تقسیم کے باعث بی ایس پی کو فائدہ پہنچ سکتا ہے اور ہندوستان بھر کے دلت اتحاد کی صورت میں ایک عظیم اپوزیشن طاقت کے امکانات بن سکتے ہیں۔ لیکن مایاوتی جن کے سیاسی کیرئیر کو بنانے میں اُن کے گرو یا آقا کانشی رام کا بڑا ہاتھ رہا ہے خاص خصوصیت یہہ رہی ہے کہ اُن کی سیاست غیرمتوقع اور مختصر مدتی معاہدہ پر مبنی ہوتی تھی ۔ اب مایاوتی کیلئے دو صورتیں ہوسکتی ہیں وہ یہ کہ اُن کی اور اُن کی فیملی ممبرز کیلئے کسی بھی دباؤ کے تحت کوئی فیصلہ لے یا پھر آئندہ لوک سبھا انتخابات تک اپنے کسی بھی اتحاد کے فیصلہ کو موخر رکھے ۔ جو کچھ بھی ہو مایاوتی نے ایک سخت پیغام دیدیا ہے کہ ’’کانگریس ایک بینک کا ڈپازٹ نہیں ہے جس کے مدت تکمیل ہونے پر قابل واپس ہو ‘‘ ۔
مختصراً کانگریس کو آئندہ دو ماہ میں اپنے اوپر لگائے گئے لیبل کہ ’’پارٹی حالت نزع کی کیفیت میں ہے ‘‘ کے تصور کو مٹاکر 2019 ء کے مودی زیرقیادت چیلنج کا قومی سطح پر مقابلہ کرنا ضروری ہے ۔ بی جے پی زیرقیادت تینوں ریاستوں میں مدھیہ پردیش ، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں ووٹنگ کے دوران مخالف پارٹی رجحانات کا بھی بڑی حد تک امکان پایا جاتا ہے۔ تلنگانہ میں کے سی آر کی جانب سے قبل از وقت انتخابات کا فیصلہ بھی فکر و تردودکا حامل ہے ۔
میزورم میں بی جے پی کی جانب سے مقامی پارٹیوں کے ساتھ تعاون کے باوجود کانگریس کو ایک درجہ حاصل ہے ۔ درحقیقت ان پانچ ریاستوں میں کانگریس کے جیتنے کے نصف نصف امکانات موجود ہیں۔ ایک اور عام تاثر پایا جاتا ہے کہ ان ریاستوں میں کانگریس اور بی جے پی کی مثال ایسی ہے جس طرح کہ کانگریس ایک استعمال شدہ سکنڈ ہائنڈ کار کی اور بی جے پی اپنے بے دریغ ذرائعوں کے ساتھ فارمولہ ون موٹر کار کی طرح ہے جو ریس کی بازی مارکر لے جانا چاہتی ہے ۔ بی جے پی کے پاس وسیع تر سرمایہ کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن سرمایہ ہی ہمیشہ جیت کیلئے ایک اہم عنصر نہیں رکھتا ہے لیکن کانگریس کو جائزہ لیا جانا چاہئے کہ اندرونی عناصر میں اتحاد کا فقدان کیوں ہے اور اُن سب کو ساتھ لیکر متحدہ طورپر ہی یہ مقابلہ آرائی کی جاسکتی ہے۔ کون بنے گا کروڑپتی کی طرح ایک اہم سوال زیرگشت ہے کہ کیا راہول گاندھی ایک اہم مہم جو قائد کے پیش نظر کانگریس کو کسی اہم ریاست میں کامیابی دلاکر پارٹی کوسونپ سکتے ہیں ؟ مودی کیمپس میں کانگریس قائد کے اس رول پر بحث و مباحثہ بھی ہوا تھا۔ جو کچھ بھی ہو نومبر ۔ ڈسمبر 2018 ء کانگریس لیڈر شپ کیلئے کرو یا مرو جیسی صورتحال پیدا کرسکتا ہے۔
نوٹ : کلکتہ کے ایک حالیہ صحافتی کانفرنس میں کانگریس ترجمان نے یہ واضح کیا تھاکہ مہاگٹھ بندھن کا تصور دراصل صحافت کا پیداکردہ ہے اورپارٹی دراصل ریاستوں کے حساب سے مقامی جماعتوں کے ساتھ اتحاد دینے کو ترجیح دے گی ۔ اُسی کے ساتھ ترنمول کانگریس لیڈر نے بہ بانگ دہل اعلان کردیا کہ ’’ہم کو بنگال میں کسی بھی حلیف کی ضرورت نہیں ہے ‘‘ اُس کے جواب پر بی جے پی نمائندہ نے مسکرادیا ۔ جیسے جیسے یہ جنگ زور پکڑتے جائے گی پتہ نہیں کہ کس کی مسکراہٹ اُس جنگ میں آخری ثابت ہوگی ؟