کانگریس کا ’ہاتھ‘ اُبھر رہا ہے

کے ۔ ڈی
کرناٹک کے حالیہ ضمنی انتخابات میں برسراقتدار جے ڈی ایس۔ کانگریس اتحاد کی مرکز میں حکمراں بی جے پی کے خلاف واضح کامیابی نے خاص طور پر راہول گاندھی کو حوصلہ بخشا ہے۔ انھوں نے صدر کانگریس بننے سے قبل گجرات اسمبلی الیکشن میں نریندر مودی۔ امیت شاہ جوڑی کو سخت مسابقت پر مجبور کیا اور اپنی پارٹی کو ریاستی انتخابات میں قابل لحاظ مقام دلایا تھا اور پھر پارٹی سربراہ کی حیثیت سے پہلی مرتبہ بڑی آزمائش کا سامنا کرتے ہوئے کرناٹک اسمبلی چناؤ میں کانگریس مہم کی قیادت کی۔ وہاں سدارامیا حکومت کا اقتدار ختم ضرور ہوا لیکن اصل حریف بی جے پی بھی اقتدار پر نہ رہ سکی اور سابق وزیراعظم ایچ ڈی دیوے گوڑا کی پارٹی جے ڈی (ایس) کے ساتھ مل کر کانگریس نے مخلوط حکومت کی راہ ہموار کی۔ چنانچہ علاقائی پارٹی کے لیڈر اور دیوے گوڑا کے بیٹے ایچ ڈی کمارا سوامی پانچ ماہ سے حکومت چلا رہے ہیں۔ آٹھ روز قبل کے ضمنی الیکشن نئی حکومت کیلئے پہلی انتخابی آزمائش تھی جس میں لوک سبھا اور اسمبلی کی مجموعی طور پر پانچ نشستوں کیلئے جے ڈی ایس۔ کانگریس اتحاد اور بی جے پی کے درمیان راست مقابلہ ہوا۔ اتحاد نے 4-1 کی شاندار کامیابی درج کرائی ہے جو بلاشبہ قومی سطح پر کانگریس کے ’ہاتھ‘ کو مضبوطی عطا کرے گی جسے خاص طور پر تین بی جے پی زیراقتدار ریاستوں راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں آنے والے ہفتوں میں اسمبلی انتخابات کا سامنا ہے۔ حالیہ عرصے میں راہول میں سیاسی لیڈر کی حیثیت سے کافی بدلاؤ دیکھنے میں آیا ہے، وہ منجھے ہوئے انداز میں بولنے لگے ہیں، اور حریف بی جے پی کیخلاف جارحانہ تیور اپنا رہے ہیں۔ انھیں کئی مسائل بھی ہاتھ لگ گئے ہیں کہ وہ اصل حریف کو شکست دے سکیں۔ چنانچہ کانگریس کی آنے والے چناؤ میں مضبوط پوزیشن معلوم ہورہی ہے۔ لیکن بعض جگہوں پر اس کے قائدین کے درمیان تال میل کا فقدان بھی نظر آرہا ہے۔ ان نکات میں پر میں آگے کی سطور میں روشنی ڈالوں گا، اس سے قبل ماضی قریب کی کچھ باتوں کا قارئین کی معلومات کیلئے تذکرہ کرنا چاہوں گا۔

رواں سال کے وسط میں کرناٹک کے اسمبلی الیکشن کے نتائج کا اعلان ہونے کے محض پانچ روز بعد 17 مئی کو صدر کانگریس راہول گاندھی چھتیس گڑھ پہنچے۔ اگلے 36 گھنٹوں میں وہ اس ریاست میں زائد از 800 کیلومیٹر کا سفر کئے، عوامی ریالیوں سے خطاب کیا اور پارٹی ورکرس سے ملاقات کی، یہ نہرو۔گاندھی فیملی کے سپوت کی طرف سے غیرمتوقع جارحانہ مصروفیت ثابت ہوئی۔ اُن کے ماضی کے ٹریک ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے توقع تھی کہ وہ کرناٹک میں شدید انتخابی مہم اور مابعد چناؤ کلیدی مذاکرات کے بعد ضرور کچھ وقفہ لیں گے۔ لیکن چھتیس گڑھ میں راہول کا نیا روپ دیکھا گیا۔ مئی سے وہ چھتیس گڑھ کو تین بار، مدھیہ پردیش کے چھ مرتبہ اور راجستھان کو تین موقعوں پر دورے کرتے ہوئے کانگریس مہم کو تقویت پہنچانے کی سعی کرچکے ہیں۔ گجرات اور کرناٹک میں جزوی کامیابی سے بلند حوصلہ صدر کانگریس نے اگلی تین ریاستوں راجستھان، ایم پی اور چھتیس گڑھ میں بہتر مظاہرے کی اُمید لگائی ہے۔ ہندی پٹی کی ان ریاستوں میں فتح جبکہ 2019 کے لوک سبھا انتخابات محض چند ماہ دور ہیں، ایسی طاقت ثابت ہوسکتے ہیں جس کی پارٹی کو زعفرانی حریف سے لڑنے کیلئے ضرورت ہے۔ اسمبلی چناؤ کا سامنا کرنے والی پانچ ریاستوں (بشمول تلنگانہ اور میزورم) میں مجموعی طور پر 83 لوک سبھا نشستیں ہیں۔ 2014ء میں کانگریس نے ان میں سے صرف پانچ جیتے۔ راہول کیلئے لائحہ عمل سادہ ہے کہ دہلی تک سفر کی شروعات ضرور ان ریاستوں بالخصوص راجستھان اور ایم پی میں کانگریس حکومتوں کے ساتھ ہونا چاہئے۔ لیکن اُن کے اور اس دلی خواہش کے درمیان وزیراعظم مودی کھڑے ہیں۔

وسط جون میں مابعد چناؤ احتساب کے دوران کئی سینئر کانگریس قائدین نے زور دیا تھا کہ گجرات اور کرناٹک دونوں جگہ پارٹی کو بی جے پی نے مودی کے لمحہ آخر کے جارحانہ انداز کی وجہ سے پیچھے چھوڑا۔ لہٰذا راہول کی کانگریس کیلئے سب سے پہلا کام مودی خطرہ سے نمٹنا ہے ۔ وہ پہلے بھی ایسا کرچکے ہیں۔ 2016ء میں راہول نے اپنے ’’سوٹ بوٹ کی سرکار‘‘ کے طنز کے ساتھ مودی کے اطراف مخالف کسان ماحول بنایا، جس پر وزیراعظم کو کئی پالیسی تبدیلیاں کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اِس مرتبہ انھیں کئی ہتھیار دستیاب ہیں … رافیل سے لے کر نیروو مودی اور وجئے مالیا، جی ایس ٹی سے لیکر نوٹ بندی، بے روزگاری سے لے کر زرعی بحران، گاؤ رکشا ہلاکتوں سے لیکر دلتوں کے خلاف مظالم۔ راہول کے ایک قریبی مددگار کا کہنا ہے کہ اِس بار انتخابی مہم کے اختتامی مرحلے میں ایک دو ریالیوں سے کام نہ چلے گا، مودی کیلئے ان تمام الزامات سے چھٹکارہ پانا آسان نہیں ہوگا۔ ان ریاستوں میں مخالف حکومت رجحان بہت زیادہ ہے اور مودی کے پاس اب کوئی نیا وعدہ نہیں رہا ہے۔

شکستہ معیشت اور اب سی بی آئی کے مسئلہ سے کانگریس کو برتری ملنی چاہئے، لیکن قابل لحاظ داخلی مسائل بھی ہیں جو سارا معاملہ بگاڑ سکتے ہیں۔ ایم پی میں کانگریس تین کیمپوں میں منقسم معلوم ہوتی ہے ریاستی صدر کمل ناتھ، سربراہ انتخابی مہم کمیٹی جیوتیر ادتیہ سندھیا اور رابطہ کمیٹی کے سربراہ ڈگ وجئے سنگھ۔ تمام تینوں قائدین کا دعویٰ ہے کہ پارٹی متحد ہے، لیکن کمل ناتھ اور سندھیا دونوں کی نظریں چیف منسٹر کی کرسی پر لگی ہیں (بشرطیکہ کانگریس جیت جائے)۔ یہ رقابت کھل کر تو سامنے نہیں آئی ہے، اور راہول نے حساس انانیت سے نمٹنے میں اور پارٹی کو متحد ظاہر کرنے میں قابل لحاظ کامیابی حاصل کی ہے۔
راجستھان میں راہول نے مارچ میں ہی واضح کردیا کہ اُن کا موقف کیا ہے جب انھوں نے اشوک گہلوٹ کو آل انڈیا کانگریس کمیٹی کا جنرل سکریٹری اِنچارج برائے تنظیم و تربیت مقرر کرتے ہوئے اشارہ دیا کہ سچن پائیلٹ راجستھان کے سربراہ ہوں گے۔ ویسے راہول کیلئے حقیقی چیلنج انتخابات کے بعد رہے گا۔ ایک کانگریس جنرل سکریٹری کا ماننا ہے کہ گہلوٹ فی الحال مطمئن نظر آرہے ہیں؛ وہ مابعد چناؤ اپنی چالیں چل سکتے ہیں۔ جنرل سکریٹری کے خیال میں ایم پی میں ورکرس اور عوام کے پسندیدہ سندھیا ہیں، جبکہ گہلوٹ راجستھان میں سچن سے زیادہ مقبول ہیں۔

کانگریس کو پہلے ہی مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی کے ساتھ بات چیت میں ناکامی کے بعد اپنے منصوبوں میں تبدیلی کے ذریعے زک لگ چکی ہے۔ کانگریس کے بعض گوشے اس تبدیلی پر خوش ہیں کیونکہ وہ مانتے ہیں کہ مایاوتی کی پارٹی کا بہتر مظاہرہ کانگریس کو نہیں بلکہ بی جے پی کو نقصان پہنچائے گا۔ ایک سینئر ایم پی کانگریس لیڈر نے کہا کہ بی ایس پی کو 163 نشستوں میں 10,000 سے کم ووٹ حاصل ہوئے، پھر بھی اس نے 50 نشستوں کا مطالبہ کیا۔ مایاوتی کا 25 سیٹوں سے کم پر اثر ہے۔ بی ایس پی نے 2013ء میں صرف چار سیٹ جیتے لیکن وہ کانگریس کو قریبی مقابلے میں نقصان پہنچا سکتی ہے کیونکہ وہ 21 نشستوں میں دوسرے نمبر پر آئی تھی۔ چھتیس گڑھ میں اس نے محض ایک نشست جیتی، لیکن زائد از 20 نشستوں پر اثرانداز ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔
بہرحال کانگریس احتیاط کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ امیدوار کے انتخاب کیلئے جیت کی قابلیت بدستور بنیادی کسوٹی ہے۔ کانگریس سربراہ اور بنیادی سطح کے ورکرس کے درمیان دو رخی رابطے کی سہولت کیلئے Shakti app متعارف کیا گیا ہے۔ کانگریس کی حکمت عملی میں 2014ء لوک سبھا ناکامی کے بعد تشکیل کردہ اے کے انٹونی پیانل کی رپورٹ (جو شائع نہیں کی گئی) سے بھی کئی نکات اخذ کئے گئے ہیں۔ ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ اس رپورٹ میں کہا گیا کہ کانگریس کو اپنے موافق اقلیت اور مخالف ہندو امیج کو ترک کرنے کی ضرورت ہے۔ راہول کا یکایک شیو بھکت بن کر اُبھرنا اور وقفے وقفے سے مندروں کو جانا اور مانسروور کی یاترا یہ سب ہندوتوا کے موضوع پر بی جے پی کی گرفت کو بے اثر کرنے کی کوشش کا حصہ ہیں۔ ویسے صدر کانگریس نے دیگر تبدیلیاں بھی کی ہیں۔ اپنی زبانی و تحریری لغزشوں سے قطع نظر وہ عوام میں اکثر وبیشتر گھل مل جاتے ہیں اور سوشل میڈیا پر ہندی میں بھی ٹوئٹس کرتے رہتے ہیں۔ راہول اور مودی کے درمیان فرق کو پیش کرنے کی دانستہ کوشش بھی ہورہی ہے۔ گزشتہ دو ماہ میں وہ تین مرتبہ پریس کانفرنسوں میں آگئے اور ظاہر کیا کہ وہ جرنلسٹوں کے سوالات کا سامنا کرنے سے خوفزدہ نہیں ہیں، جس کے برخلاف مودی نے گزشتہ چار سال میں ایک بھی پریس کانفرنس منعقد نہیں کی ہے۔