کانگریس کا مستقبل (بین السطور)

کلدیپ نیر
یہ پہلی بار نہیں ہے کہ کانگریس کو اتنی شرمناک شکست ہوئی۔ 543 رکنی لوک سبھا میں اسے 44 نشستیں حاصل ہوئیں۔ پارٹی کا 1977ء میں کم و بیش ایسا ہی حشر ہوا تھا۔ ایمرجنسی کی معمار مسز اندرا گاندھی اور ان کا ماورائے دستور بیٹا سنجے گاندھی بھی انتخابات ہار گئے تھے۔ اس کے باوجود تین جنوبی ریاستوں آندھرا پردیش، کرناٹک اور کیرالا میں کانگریس برسراقتدار تھی۔ بحیثیت مجموعی اس کی 150 نشستیں تھیں۔ یقیناً یہ ایک شکست تھی تاہم بیخ کنی نہیں جیسی کہ اب ہوئی ہے۔ ایمرجنسی کے دوران کی ہوئی زیادتیوں پر عوام برہم تھے۔ کانگریس نے جو کچھ کیا تھا، اس کی بناء پر عوام اس کو شکست دے کر خود کو نجات یافتہ محسوس کررہے تھے، لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ کانگریس کی جانشین جنتا پارٹی گمراہ ہوچکی ہے۔ انہیں غصہ آگیا لیکن وہ الگ تھلگ نہیں ہوئے تھے۔ اس بار رائے دہی عدم حکمرانی اور ان اسکینڈلس کے خلاف تھی جو یکے بعد دیگرے منظر عام پر آرہے تھے۔ مایوسی اتنی گہری تھی کہ اس سے پہلے کبھی نہیں رہی تھی۔ یہ یقین کہ پارٹی ایک صاف ستھری اور کارکرد حکومت فراہم نہیں کرسکتی، بہت گہرا تھا۔ اگر نریندر مودی اور ان کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے ترقی اور روزگار کے ایجنڈے کی بنیاد پر کامیابی حاصل کی اور 282 نشستوں پر قبضہ کرلیا تو یہ کوئی حیران کن بات نہیں ہے۔ اگر وہ اپنے تیقنات کی تکمیل کرے تو 2019ء کے عام انتخابات میں کانگریس کی اقتدار پر واپسی زیادہ مشکل ہوگی، لیکن اس کا انحصار مودی پر ہوگا۔ اس نے اپنی پارٹی کے منتخبہ ارکان پارلیمنٹ سے جو خطاب کیا ہے، لہجہ کے اعتبار سے اتنا واضح اور مطلب کے لحاظ سے اتنا پر یقین ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کم از کم دس سال برسراقتدار رہے گا۔ اگر وہ ملک کو ترقی دے سکے اور روزگار کے مواقع فراہم کرسکے تو مستقبل قریب میں کانگریس کی اقتدار پر واپسی اور زیادہ مشکل ہوجائے گی۔ مودی اتنا ذہین ہے کہ وہ جانتا ہے کہ جب بی جے پی۔ آر ایس ایس اتحاد نے جنوبی ریاستوں میں بھی قدم جمالئے ہیں تو ہندوتوا کارڈ کھیلنا ضروری نہیں ہوگا۔ اگر اوسط طبقہ نرم ہندوتوا سے اتنا زیادہ متاثر نہ ہوا ہوتا تو ایسی شاندار کامیابی ممکن نہ ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ مودی ترقی پر اتنا زور دے رہا ہے۔ وہ یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ بی جے پی ملک کے عوام کو غربت کی دلدل سے کھینچ کر باہر نکال سکتی ہے۔ ملک کی آبادی کا تقریباً ایک تہائی غربت کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔

یہ سچ ہے کہ سبکدوش ہونے والے وزیراعظم منموہن سنگھ ایک کھلی کتاب تھے، لیکن کارکردگی کے لحاظ سے اسی کتاب میں بہت کم کچھ تحریر تھا۔ قیمتوں میں مسلسل اضافے اور اقتدار کے لئے اس کارنامہ کو بھی گہن لگا دیا کہ شرح ترقی 8 فیصد تھی۔ منموہن سنگھ کانگریس کا مسئلہ کبھی بھی نہیں رہے اور اب تو داستان ماضی ہوگئے ہیں، لیکن پارٹی خود کو خاندان کے جال سے کیسے پیچھا چھڑا سکے گی اور اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکے، اس کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ صدر پارٹی سونیا گاندھی اور ان کے فرزند راہول گاندھی نے حکومت اور پارٹی چلائی۔ اب جبکہ دونوں ناکام ہوچکے ہیں تو عوام کس کے پاس جائیں؟ دونوں نے استعفیٰ کی پیشکش کی لیکن مجلس عاملہ نے استعفے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ آخر دونوں ہی تو پارٹی کی قیادت ہیں۔ انہوں نے کسی کو بھی پروان چڑھنے یا ابھرنے کا موقعہ ہی نہیں۔ کانگریس کو کہیں نہیں جانا ہے، سوائے اس خاندان کے جس نے ملک کی آزادی سے اب تک پارٹی چلائی ہے۔ جواہر لال نہرو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک برگد کے درخت کی طرح تھے جو اپنے سائے تلے کسی کو بھی پنپنے نہیں دیتا۔ کانگریس کا ان پر انحصار تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب ان کا انتقال ہوا تو پارٹی کو ان کے جانشین کے انتخاب میں بہت مشکل پیش آئی۔ ان کی دُختر مسز اندرا گاندھی جن کو انہوں نے تربیت دی تھی، اس وقت پارٹی کے لئے نہرو کے جانشین کی حیثیت سے قابل قبول نہیں تھیں چنانچہ لال بہادر شاستری پارٹی فطری انتخاب ثابت ہوئے کیونکہ وہ متفقہ انتخاب تھے، حالانکہ مرارجی ڈیسائی بھی مقابلے پر تھے، وہ جانتے تھے کہ انہیں بیشتر وزرائے اعلیٰ کی تائید حاصل ہے، لیکن اس وقت کے صدر کانگریس کے کامراج کی نظر میں وہ بہت زیادہ بے لچک تھے چنانچہ انہوں نے اندرا گاندھی کو ترجیح دی۔آج کانگریس پارٹی بالکل مختلف ہے کیونکہ کامراج اور مسز اندرا گاندھی ایک ہی شخصیت سونیا گاندھی میں سمائے ہوئے ہیں۔ پارٹی کو خوداحتسابی کی ضرورت نہیں، سونیا گاندھی کو ہے، کیا وہ پارٹی، ریاستی قائدین اور دیگر پر سے اپنا کنٹرول برخاست کرنے تیار ہیں؟ کیا وہ بنیادی سطح پر کام کی اہمیت تسلیم کرنے تیار ہیں؟یا پھر اپنی چاپلوسی کرنے والوں پر ہی انحصار کرتی رہیں گی؟ یہ تجویز کہ پارٹی کے عہدیدار وزنی ہونا چاہئیں، وزن رکھتی ہے لیکن یہ صرف ایک ناٹک بن جاتی ہے کیونکہ بوگس رائے دہی غالب آتی ہے۔ غالباً صدر پارٹی اور وزیراعظم ایک ہی شخص ہونا چاہئے۔ مسز اندرا گاندھی نے ایسا ہی کیا تھا۔ انہوں نے صدر کانگریس کو اپنی راہ کی رکاوٹ سمجھا تھا۔ یہ درحقیقت صدارتی طرز حکومت تھا لیکن نریندر مودی کا اندازہ کارکردگی بھی ایسا ہی ہوگا۔ ان کی انتخابی مہم سے اس کا اندازہ ہوتا ہے۔ صدارتی طرز حکومت بے شک جمہوری ہے لیکن اس میں کلیت پسندی کی بھی گنجائش موجود ہے۔ مودی نے پہلے ہی اعلان کردیا ہے کہ وہ نیشنل ڈیموکریٹک الائینس (این ڈی اے) کے بھی صدر ہوں گے۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ سوویت یونین ایسا ہی تھا۔ کئی دہائیوں بعد یہ ماسکو میں اقتدار کی مرکوزیت کی وجہ سے منتشر ہوگیا۔ اب بھی صدر روس ولادیمیر پوٹن کا طرز حکمرانی یہی ہے۔ یوکرین کے تئیں روس کے رویہ سے اس کا اندازہ ہوتا ہے۔ امریکہ آمریت سے اس لئے بچ گیا کیونکہ یہاں پر صدارتی طرز حکومت ہونے کے باوجود جانچ اور توازن کی قوتیں موجود ہیں۔ امریکی کانگریس اور امرکی پارلیمنٹ دونوں طاقتور ہیں۔
ہندوستان میں کانگریس پارٹی دوبارہ اُبھر سکتی ہے کیونکہ یہی واحد دستیاب متبادل ہے۔ عوام کے ذہنوں میں دو ہی سیاسی پارٹیاں ہیں۔ کانگریس اور بی جے پی جب وہ دیکھتے ہیں کہ کوئی پارٹی اپنے تیقنات کی تکمیل نہیں کررہی ہے تو جس پارٹی کو انہوں نے قبل ازیں مسترد کردیا تھا، دوبارہ اس کی تائید کرنے لگتے ہیں، عوام صرف دو پارٹیوں کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں۔
عام آدمی پارٹی بدعنوانی کے خلاف ایک تحریک تھی جو سیاسی پارٹی میں تبدیل ہوگئی۔ وہ ایک متبادل بن سکتی ہے بشرطیکہ وہ اپنے دائرے میں توسیع کرے۔ عام آدمی پارٹی نے حالیہ انتخابات میں صرف 3 فیصد ووٹ حاصل کئے ہیں، حالانکہ اس کا بدعنوانی مخالف موقف قابل ستائش ہے لیکن اگر وہ رائے دہندوں کو ترغیب دینا چاہتی ہے تو اس کے پاس ایک نظریہ، ایک بصیرت بھی ہونی چاہئے۔ اس نے دہلی میں ایک عظیم موقعہ گنوادیا ۔ اگر اب پارٹی اپنی غلطیاں تسلیم بھی کرلے حالانکہ اب بہت تاخیر ہوچکی ہے۔ اس کے دامن پر لگا ہوا یہ داغ دھلنے کافی وقت لگے گا۔ پارٹی کو عوام کے درمیان رہ کر کام کرنا ہوگا۔ یہ صرف نعروں پر انحصار نہیں کرسکتی۔ اقتدار جو اعلیٰ سطح پر مرکوز ہوچکا ہے، خاص طور پر اس کے سربراہ اروند کجریوال کی ذات میں، اسے غیرمرکوز کرنا ہوگا، کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ یہی تجویز مودی کے لئے بھی درست ہے۔