کام سے نہیں ہوگا چھوٹا انسان

محمد مصطفی علی سروری
صمد بھائی گزشتہ ایک ہفتے سے بڑے پریشان تھے ان کی پریشانی کی وجہ یہ تھی کہ گزشتہ آٹھ دن سے ان کے گھر سے کچرا لے جانے والے نہیں آئے تھے۔ گھر کے پڑوس میں پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ صرف ان کے گھر نہیں بلکہ پورے علاقے میں گھروں سے کچرا لے جانے والا غیر حاضر ہے۔ دوسرے گھروں کے لوگ کیا کررہے تھے صمد بھائی کو نہیں معلوم لیکن صمد بھائی کو ہر روز دفتر جانے سے پہلے کچرے کی تھیلی خود لے جاکر پھینکنی پڑرہی تھی۔ کیا صمد بھائی کے گھر میں دوسرا کوئی نہیں رہتا تھا جو صمد بھائی کو خود اپنے گھر کا کچرا بھینکنا پڑرہا تھا۔ جی نہیں ماشاء اللہ سے اللہ تعالیٰ نے صمد بھائی کو دو نہیں بلکہ تین لڑکوں سے نوازا تھا۔ بڑا لڑکا انجینئرنگ کررہا تھا، دوسرا لڑکا ہائی اسکول اور چھوٹا ابھی پرائمری میں تھا لیکن صمد بھائی اور ان کی بیوی کے بارہا کہنے کے باوجود بھی ان کا کوئی بھی لڑکا اپنے گھر کا کچرا قریبی کچرے کنڈی میں لے جاکر پھینکنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ سب کا ایک ہی اصرار تھا کہ سب لوگوں کو معلوم ہوجائے گا؟ میں نہیں جاتا کچرا پھینکنے کے لیے۔ ماں کے مسلسل دبائو پر بڑا لڑکا کالج جانے سے پہلے دو دن کچرا پھینکنے کے لیے تیار ہوا مگر اس سے پہلے کچرے کی تھیلی کو اتنا پیاک کیا گیا اور ایسا پیاک کیا گیا کہ ایک تو وقت خراب دوسرے کئی اور خالی تھیلیاں غیر ضروری ضائع ہوئی۔ اتنی ساری پیاکنگ اور چیزوں کو خراب ہوتا ہوا دیکھ کر صمد بھائی کی بیوی نے اپنے بچے کو منع ہی کردیا کہ رہنے دو میں تمہارے ابا کو ہی بول دوں گی کہ کچرا پھینک دو! کیا اپنے گھر کا کام کرنا گناہ ہے ؟ کیا اپنے گھر کا کچرا پھینکنا خراب بات ہے؟ صمد بھائی کا نام بدل کر یہاں پر جو کچھ قصہ بتلایا گیا وہ ایک صمد بھائی کا نہیں بلکہ ہر دوسرے گھر کی کہانی ہے۔ لڑکیاں تو کسی طرح ماں کے کہنے پر یا باپ کے ڈر سے گھر کا کچھ نہ کچھ کام تو کرہی لیتی ہیں لیکن لڑکے گھر کا سودا بھی لانا ہے تو توبہ توبہ ایک تو سودے کے پیسے دے دینا مگر ان سے پھر حساب نہیں پوچھنا اور پھر سودا وہ گھر کی ضرورت کے حساب سے نہیں بلکہ دوستوں اور دوکاندار کے ہاں اپنے Status کے حساب سے لانا چاہتے ہیں۔ اس طرح کی صورتحال کے لیے کون ذمہ دار ہے؟ نئی نسل زمینی حقیقتوں سے کیوں فرار اختیار کرتی جارہی ہے۔ کھانا تو کھانا چاہتی ہیں مگر سودا لانا نہیں چاہتی۔ ڈگریاں تو حاصل کرنا چاہتے ہیں مگر کالج کو روزانہ جانا نہیں ہوتا۔ کاروبار تو کرنا چاہتے ہیں مگر صرف نفع کمانے کے لیے۔ نوکری تو کرنا چاہتے ہیں مگر صرف لاکھوں کی تنخواہ والی۔
کامیاب بننے کی چاہت ہر نوجوان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے لیکن ہمارا نوجوان کامیاب لوگوں کی نقل کرکے کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ وہ یہ سبق بھول جاتا ہے کہ کامیابی کا راستہ کامیاب لوگوں کی نقل سے ہوکر نہیں گزرتا بلکہ محنت کے راستے سے ہی انہیں آگے جانا ہوگا۔
کرکٹ کی دنیا کا ایک مشہور گجراتی نام ہے مناف پٹیل جس نے نومبر 2018ء میں کرکٹ سے اپنے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا۔ مناف نے 13 ٹسٹ میاچ اور 70 ون ڈے میاچ کھیلے اور ونڈے میاچس میں صرف 29 رن دے کر چار وکٹ حاصل کئے تھے۔ مناف پٹیل نے کرکٹ کی دنیا میں نام کمایا تو بہت سارے نوجوان اس کو اپنا آئیڈیل مانتے ہیں مگر یہی نوجوان وہ سبق بھول جاتے ہیں کہ مناف پٹیل کو کامیابی تو بہت بعد میں ملی لیکن اس سے پہلے اس گجراتی نوجوان نے کیسے کیسے پاپڑ بیلے یہ کوئی سننا اور پڑھنا نہیں چاہتے ہیں۔
اپنے 15 برس کے کرکٹ کیریئر کو خیرباد کہنے کے بعد مناف نے اخبار انڈین ایکسپریس کے نمائندے دیویندر پانڈے کو بتلایا کہ ’’میں نے اپنی ابتدائی زندگی میں دکھ ہی دکھ جھیلے ہیں اور مجھے تو ان کی عادت ہی پڑگئی تھی میں نے جب ہوش سنبھالا تو Tile بنانے والی ایک فیکٹری میں کام کرنے لگا۔ جہاں مجھے ٹائلس کو ڈبوں میں پیاک کرنا پڑتا تھا اور آٹھ گھنٹوں کی شفٹ کرنے کے بعد مجھے صرف 35 روپئے ملتے تھے۔‘‘ (بحوالہ اخبار انڈین ایکسپریس 10 نومبر 2018)۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہماری نوجوان نسل کو کرکٹ کی کامیابی حاصل کرنے والا مناف پٹیل ہی نظرآتا ہے اس کے اندر چھپا وہ محنتی شخص دکھائی نہیں دیتا ہے جو روزانہ آٹھ گھنٹے کام کرکے 35 روپئے کماتا تھا۔

ناگالینڈ ہمارے ملک کی ایک شمال مشرقی ریاست اس ریاست کے رہنے والے ناگا عوام کے متعلق ہندوستان کے اکثر لوگوں کو معلومات بہت کم ہیں۔ زیادہ تر لوگ تو ناگا عوام کو غیر تہذیب یافتہ تصور کرتے ہیں لیکن یہ ہماری کم علمی ہے۔ 1964-65 کے دوران جب ناگالینڈ میں شورش اور عسکریت پسندی جاری تھی تب جئے پرکاش نارائن نے وہاں کا دورہ کیا تھا۔ اپنے دورہ کے بعد انہوں نے ناگالینڈ میں امن کی تلاش کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ ناگالینڈ میں Mokokchung ٹائون کے قریب Ugma نام کا ایک گائوں ہے جو شائد پوری ریاست کا سب سے بڑا گائوں ہے جہاں چار ہزار لوگ آباد ہیں اس گائوں میں ایک بہت بڑا چرچ ہے جو کہ آسام اور اطراف کے علاقوں کا بھی سب سے بڑا چرچ ہے۔ جس میں پانچ ہزار لوگوں کی گنجائش ہے اور سب سے اہم بات کہ اس چرچ کی تعمیر کا سارا کام گائوں والوں نے خود ہی انجام دیا۔ نہ تو باہر سے کچھ مٹیریل لایا گیا اور نہ ہی کسی ماہر کو بلایا گیا۔ یہاں تک کہ باہر سے کسی انجینئر کی بھی مدد نہیں لی گئی۔ صرف چرچ ہی نہیں گائوں کے اسکول بھی خود گائوں والوں نے ہی تعمیر کیے۔ قارئین سب سے اہم بات جئے پرکاش نارائن نے جو بتلائی وہ یہ کہ جب ناگالینڈ کے گائوں والوں نے اپنے ہاں چرچ اور اسکول کی تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا تو کام کرنے کے لیے مزدور بھی گائوں کے ہی لوگ تھے ان میںایم اے پاس بی اے پاس بھی تھے مگر سب مزدور کے طور پر کاموں میں حصہ لیا کرتے تھے۔ شہر کو پڑھنے کے لیے جانے والا ناگا نوجوان تعطیلات میں جب گائوں کو واپس آتا تو بخوشی اپنے والدین کے ساتھ کھیتوں اور دیگر مزدوری کے کاموں میں ہاتھ بٹاتا ہے۔ جئے پرکاش نارائن کی بات تو 50 سال پرانی ہے جس کا ذکر رامچندر گوہا نے 10 ڈسمبر کو ٹیلی گراف اخبار میں لکھے اپنے مضمون میں کیا لیکن ناگالینڈ کے نوجوان آج بھی چاہے کتنی بھی تعلیم حاصل کرلیں نہ صرف والدین کے ساتھ کام کرتے ہیں بلکہ سماجی خدمات میں بھی پیش پیش رہتے ہیں۔ اس کا ثبوت ہندوستان ٹائمز کی رپورٹر روپا چنائی کی لکھی تازہ ترین کتاب Under Standing Indian North East سے بھی ملتا ہے۔ ایسی ایک نہیں بے شمار مثالیں ہیں جن سے پتہ چلے گا کہ تعلیم حاصل کرلینے کا مطلب گھر کے اور سماج کے کام کاج سے ناطہ توڑنا ہرگز نہیں ہے۔
راج کمار پال کی عمر 82 سال ہے جی ہاں عمر کا وہ حصہ جب عام طور پر ہمارے بزرگ اپنے دن رات کا بیشتر حصہ اپنے بستر اور اپنے گھر میں گزارتے ہیں لیکن مغربی بنگال کے ضلع نادیہ کے ریٹائرڈ ہیڈماسٹر راج کمار وظیفہ کی زندگی گزارنے کے بجائے گزشتہ 23 برسوں سے اپنے گھر کے قریب واقع ندی پر بنے پل ریلوے ٹریک اور اس سے لگی روڈ کو صاف رکھنے کا کام کرتے آرہے ہیں۔ ہر روز صبح نہادھوکر صاف ستھرے کپڑے پہن کر راج کمار وہاں آتے ہیں اور تقریباً چار گھنٹے صرف کرتے ہوئے برج ریلوے ٹریک اور سڑک کی صفائی کا کام کرتے ہیں۔ راج کمار پال سڑک برج اور ریل ٹریک کی صفائی صرف اس لیے کرتے ہیں کہ اس راستے سے ہر روز ان کے گائوں کے بچے اسکول اور کالج کو جاتے ہیں (بحوالہ اخبار ٹیلی گراف 19 ڈسمبر 2018) ذرا تصور کیجئے کہ ایک ہمارے بچے ہیں کہ اپنے گھر کو صاف رکھنے گھر کا کچرا پھینکنے تیار نہیں ایک شخص راج کمار پال بھی ہے جو 82 سال میں بھی عوامی خدمت کررہا ہے۔ تاکہ دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا ہوں۔ قارئین اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کی تربیت کا ہر ممکنہ سامان کریں اور شمع محمدیؐ کے پروانوں کو بھی سیرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم پر چلنے کے لیے آمادہ کریں اور ہر پروانہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم کو دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے والا بنائیں۔

بھوبنیشور میں فی الحال ہاکی کا ورلڈ کپ جاری ہے اور ہندوستان کی ہاکی ٹیم پر سب کی نظریں لگی ہیں۔ انڈیا کی ہاکی ٹیم کے کھلاڑی سومت کی کہانی آج سب کو ایک کامیاب کھلاڑی کی نظر آتی ہے۔ لیکن سومت نے کتنی محنت کی اس کے متعلق بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ اخبار ہندوستان ٹائمز نے 11 ڈسمبر کو سومت کے متعلق ایک رپورٹ شائع کی جس کے مطابق سومت ایک نہایت غریب خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ دس سال کی عمر میں اس نے کام کرنا شروع کردیا تاکہ گھروالوں کی مدد کرسکے روزانہ صبح سورج نکلنے سے پہلے وہ کام کرنے چلا جاتا تھا جی ہاں سومت ایک ہوٹل میں صبح صبح صفائی کا کام کرتا تھا۔ بدلے میں اس کو کھانا ملتا تھا اور سومت یہی کھانا گھر لاتا اور یوں سب گھر والوں کو ناشتہ مل جاتا تھا۔ گھر پر ناشتہ دینے کے بعد سومت گرائونڈ جاکر ہاکی کی پریکٹس کرتا تھا۔ اس نے اخبار کو بتلایا کہ چار برس پہلے تک بھی اس کا خاندان غربت میں گھرا ہوا تھا کبھی روٹی مل جاتی تو کھانے کے لیے دودھ نہیں ہوتا تھا۔ اور کھیلنے کے لیے اچھی غذاء چاہئے ہوتی تھی تو تب اس غریب کھلاڑی کو باری باری سے پورے گائوں والے ایک گلاس دودھ کا انتظام کردیتے تھے۔ سومت نے بتلایا کہ اس کی ماں کہتی ہے کہ وہ اپنے پرانے دنوں کو کبھی نہ بھولے اور خاص کر ان لوگوں کو جنہوں نے برے وقت میں اس کی مدد کی۔ سومت آج انڈین ہاکی ٹیم میں کھیل رہا ہے اور اس کا باپ آج بھی مزدوری کرتا ہے اور منع کرنے پر کہتا ہے مجھے کام سے مت روکو حالانکہ سومت کو ONGC میں ملازمت مل گئی ہے۔
قارئین نوجوانوں کو اپنے گھر کے کام کے ساتھ اوروں کے کام آنے کا سبق پڑھانا دور حاضر کی بڑی اہم ضرورت ہے۔ مسلمان کی زندگی کا مقصد خود کمانا خود کھانا اور دوسروں کو نظرانداز کرنا ہرگز نہیں ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو شریعت مطہرہ کی روشنی میں اپنی زندگی گزارنے والا بنائے۔ (آمین) ۔
کام سے نہیں ہوگا چھوٹا انسان
کام ہی بناتا ہے انسان کو انسان