کاش … مودی اور نواز کو دوسروں کی ماؤں کا بھی خیال ہوتا

محمد ریاض احمد
ہندوستان اور پاکستان میں آج کل ’’ماؤں‘‘ کے بہت زیادہ چرچے ہیں دونوں ملکوں کے میڈیا میں وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے پاکستانی ہم منصب میاں محمد نواز شریف کی ماؤں اور ان سے بیٹیوں کے لگاؤ کے بارے میں بڑی دلچسپی کا اظہار کیا جارہا ہے۔ ویسے بھی ہر بیٹا اپنی ماں کو بہت چاہتا ہے اس کی عزت کرتا ہے۔ اپنی ماں پر جان نچھاور کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا میں ایسے بذبخت بیٹے بھی ہیں جو انہیں جنم دینے پالنے پوسنے والی ماں جیسی عظیم ہستی کی قدر نہیں کرتے اس کے ساتھ ناروا سلوک کرتے ہوئے دین دنیا کے بدترین لوگوں کی فہرست میں شامل ہو جاتے ہیں ذلت و خواری ایسے بیٹوں کا مقدر بن جاتی ہے۔ جہاں تک ’’ماں‘‘ کا سوال ہے میاں نواز شریف کی والدہ محترمہ ہویا نریندر مودی کی ماتا جی یا پھر ہندو پاک کے کسی دور دراز کے دیہات میں واقع شکستہ و بوسیدہ درودیوار کے حامل مکان میں بسنے والی ماں، ہر ماں عظیم ہوتی ہے اس کا وجود اولاد کے لئے بڑا بابرکت ہوتا ہے۔ محل میں پلنے والے بیٹے کی ماں جہاں اپنے نور نظر کو ہر قسم کی سہولتیں فراہم کرتی ہے سونے چاندی کے بنے جھولوں میں جھولا جھلاتی ہے وہیں

مٹی اور کیچڑ سے بنی دیواروں اور گھاس پھونس والی چھت کے خستہ حال مکان میں جنم لینے والے بیٹے کو ماں لولاریاں سناتے ہوئے اپنی گودی کو جھولا بناکر سلادیتی ہے۔ اگرچہ کسی بھی ماں کے بیٹے غریب ہوسکتے ہیں لیکن کوئی ماں غریب نہیں ہوتی کیونکہ اس کے پاس ممتا کی بے مثال دولت ہوتی ہے اس لئے اگر کوئی کسی کی ماں کو غریب کی غریب ماں کہتا ہے تو یہ غلط ہوگا۔ بہرحال مودی ، نواز ملاقات نے میڈیا اور عوام کو ایک دلچسپ بلکہ دل کو چھونے والا ایسا موضوع دیا ہے جو عام شہریوں سے لے کر سیاستدانوں، اعلیٰ عہدہ داروں اور اقتدار کے ایوانوں میں بھی موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ مقدس لفظ ماں کا فی الوقت چرچا ہے۔

دہلی میں نریندر مودی کی زیر قیادت بی جے پی حکومت کی تقریب حلف برداری میں شرکت اور پھر دارالحکومت میں حیدرآباد دکن کی شان و شوکت کی علامت حیدرآباد ہاوز میں مودی کے ساتھ بات چیت حقیقت میں نواز شریف کی بہت بڑی کامیابی قرار دی جاسکتی ہے جبکہ مودی نے بھی شاطرانہ انداز اختیار کرتے ہوئے سارک ممالک بالخصوص پاکستانی وزیر اعظم کو مدعو کرکے اپنی خارجہ پالیسی کے بارے میں واضح اشارہ دیا ہے۔ نریندر مودی اور میاں محمد نواز شریف کی 50 منٹ طویل بات چیت میں دہشت گردی کا مسئلہ، 26/11 ممبئی دہشت گردانہ حملوں کے مقدمہ میں پیشرفت، تجارتی شعبہ میں تعاون و اشتراک، امن مذاکرات کی بحالی جیسے مسائل و موضوعات زیر بحث رہے۔ دونوں نے ایک دوسرے کی ماؤں کے بارے میں بھی اظہار خیال کیا، بتایا جاتا ہے کہ دونوں اپنی ماؤں کا ذکر چھوٹے بچوں کے انداز میں کررہے تھے۔ ویسے بھی ہر ماں کے لئے اس کا بوڑھا بیٹا بھی ایک معصوم بچہ ہی ہوتا ہے۔ بہرحال نواز ۔ مودی ملاقات میں جو مسائل موضوع بحث رہے اسے پس پشت ڈالدیا گیا اور دونوں کی جانب سے ماؤں کا جو ذکر چھیڑا گیا اسے نہ صرف برصغیر کا بلکہ عالمی میڈیا نے بھی خصوصی طور پر شائع اور نشر کیا۔ نریندر مودی نے فیس بک اور ٹوئیٹر پر میاں محمد نواز شریف سے بات چیت کے اہم حصہ پوسٹ کئے اور سماجی رابطہ کی ان سائٹس پر ہزاروں لوگوں نے مودی کے ان پیامات اور ٹوئٹس کو دیکھا پڑھا اور پسند کیا۔ فیس بک اور ٹوئٹر پر اپنے پیامات میں مودی کا کہنا تھا کہ میاں محمد نواز شریف سے ملاقات کے دوران انتہائی جذباتی باتیں ہوئیں۔

مودی کا ایک ٹوئٹر پیام اس طرح تھا ’’نواز شریف جی نے بتایا کہ وہ اسلام آباد میں رہتے ہیں لیکن اپنی ماں سے ملاقات کے لے ہفتے میں ایک بار ضرور جاتے ہیں‘‘ نواز شریف نے مودی کو یہ بھی بتایا کہ جب وہ اپنی ماں کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے تب انہوں نے ٹیلی ویژن پر دیکھا کہ مودی کی انتہائی ضعیف والدہ اپنے بیٹے کو انتخابی کامیابی پر اپنے ہاتھوں سے مٹھائی کھلا رہی تھیں۔ اس منظر کو دیکھ کر نواز شریف اور ان کی ماں بہت جذباتی ہوگئے۔ مودی کا کہنا ہے کہ میاں محمد نواز شریف نے انہیں بتایا کہ اس ویڈیو کو دیکھ کر ان کی ماں فرط جذبات سے مغلوب ہوگئیں تھیں۔ اور ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ اہم بات یہ ہے کہ مودی کی ماں کسی نہ کسی طرح خبروں میں رہا کرتی ہیں لیکن میاں محمد نواز شریف کی والدہ کا ذکر بہت کم ہی آتا ہے جبکہ اکثر مضامین رپورٹس وغیرہ میں یہی کہا جاتا ہیکہ میاں محمد نواز شریف کے مرحوم والد کا ان کی زندگی سوارنے سجانے اور سیاسی کیریئر بنانے میں اہم رول رہا ہے۔ جبکہ حقیقت میں دیکھا جائے تو اولاد کی کامیابی میں ماں اور باپ دونوں ہی کا اہم رول ہوتا ہے۔ ماں کی گود تو بچہ کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے۔ اگرچہ ماں کی اہمیت اور قدر و منزلت ہر مذہب میں کی جاتی ہے لیکن اس معاملہ میں مسلمان سب سے آگے ہیں۔ اسلام وہ واحد مذہب ہے جس میں ’’ماں کے قدموں کے نیچے جنت‘‘ کہا گیا ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ دنیا کے دیگر منطقوں کی بہ نسبت جنوبی ایشیاء میں ’’ماں‘‘ کی بہت عزت کی جاتی ہے اور کی جانی بھی چاہئے۔ مودی کی حلف برداری میں نواز شریف کی شرکت اور پھر بات چیت میںماؤں کا تذکرہ بہت خوش آئند بات ہے۔ اب چلتے ہیں

اصل مدعا کی طرف اگر نریندر مودی اور نواز شریف سے یہ کہا جائے کہ کیا وہ اپنی ماؤں کی آنکھوں میں آنسو دیکھنا پسند کریں گے؟ کیا انہیں اپنی ماؤں کا شدت غم سے ہزیانی کیفیت میں ڈھاڑیں مار مار کر رونا پسند ہوگا؟ کیا ان کی مائیں اپنے بچوں کا فوج، پولیس اور شرپسندوں کے ہاتھوں نشانہ بنتے دیکھنا گوارا کریں گی؟ کیا ان کی مائیں اپنے بیٹوں اور ارکان خاندان کی نعشوں کو تباہ شدہ مکانات میں بے یار مددگار پڑے دیکھنا چاہئیں گی؟ کیا ان کی ماؤں کو گوارا ہوگا کہ اپنے بیٹوں کی نعشیں ڈھونڈتے پھریں؟ یہ ایسے سوالات ہیں۔ جن کے جواب میں مودی ہو یا نواز شریف یہی جواب دیں گے کہ نہیں … نہیں … ہرگز نہیں … !! ان کے اس امکانی جوابات سے اندازہ ہوتا ہے کہ گھر کی تباہی اولاد کی موت ایک ماں کے لئے کتنی دردناک ہوتی ہے۔ نریندر مودی مسلسل تین میعاد تک گجرات کے عہدہ چیف منسٹری پر فائز رہے۔ ان کے دور چیف منسٹری میں سال 2002ء کے دوران گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔ تقریباً 3 ماہ تک ریاست کے بیشتر اضلاع میں مسلمانوں کو جانی و مالی نقصان پہنچایا گیا ۔ ضعیف ماؤں کے سامنے ان کے بیٹوں کا قتل کیا گیا نوجوان لڑکیوں اور خواتین کی عصمت ریزیاں کی گئیں حد تو یہ ہے کہ پولیس ٹرینگ کیمپ کے قریب نروڈا پاٹیہ میں مسلمانوں کا کئی گھنٹوں تک قتل ہوتا رہا۔ وہاں نعشوں کی کثرت کے باعث بے شمار نعشوں کو دور دراز مقامات پر پھینکا گیا۔ گلبرک سوسائٹی میں تباہی مچائی گئی۔

مسلم خاندانوں کو زندہ جلایا گیا۔ کانگریس کے سابق ایم پی احسان جعفری کا بیدردانہ قتل کیا گیا۔ پولیس اور حکومت دونوں خاموش رہے۔ ان فسادات میں 2000 سے زائد مسلمان مرد و خواتین شہید ہوئے اسی طرح ملک کے مختلف مقامات پر بے قصور مسلم نوجوانوں کے دہشت گردی کے جھوٹے الزامات میں انکاؤنٹر کئے گئے انہیں بنا کسی قصور کے برسوں جیل کی تاریک کوٹھریوں میں رکھ کر ناقابل بیان اذیتیں دی گئیں۔ ان کے ساتھ انتہائی بے شرمی اور رونگھٹے کھڑے کردینے والا شیطانی سلوک کیا گیا۔ ہندوستان کے مختلف مقامات پر خاص طور پر اترپردیش کے مظفر نگر میں بھی مسلمانوں کا قتل عام ہوا خواتین کی عصمتیں لوٹی گئیں۔ ماؤں کے سامنے کمسن بچیوں کی عصمتوں کو تار تار کیا گیا۔ اپنی ماں کے ہاتھوں سے خوشی کے لڈو کھاکر خوشی سے پھولے نہ سمانے والے نریندر مودی نے کبھی شہید مسلم نوجوانوں، محروس مسلمانوں، شرپسندوں کے ہاتھوں اپنی عصمتیں گنوانے والی مسلم خواتین و بچیوں کے ماؤں کی فکر کرنے کی زحمت بھی کی؟ کیا انہوں نے مظلوم مسلم ماؤں کی آہیں چیخیں اور فریادیں سننے کی جرأت کی؟ کیا انہوں نے محروس مسلم نوجوانوں اور انکاؤنٹر میں مارے گئے شہیدوں بالخصوص ممبئی کی طالبہ عشرت جہاں کے ماں کی آنکھوں سے رواں ہونے والے آنسوؤں، زبان سے نکلنی والی آہوں و بددعاؤں کا خیال بھی کیا ہے؟ نہیں … نا … کاش مودی اپنی ماں کی طرح دوسروں کی ماں کی خوشیوں کا بھی خیال کرتے؟ مودی کو خود اپنے ضمیر سے سوال کرنا ہوگا کہ کیا اپنی ماں کو خوشیاں اور دوسروں کی ماؤں کو غم درد دینا انسانیت ہے؟ اور ایسا سوال ہے جس پر وہی غور کرسکتا ہے جس میں تھوڑی سی بھی انسانیت باقی ہو۔ گجرات کی ہواؤں اور فضاؤں میں اج بھی ان ہزاروں مسلم ماوں کی آہیں اور چیخیں سنائی دے رہی ہیں جن کی اولاد کو فرقہ پرست حیوانوں نے موت کی نیند سلادیا۔ نریندر مودی اب عہدہ وزارت عظمی پر فائز ہوچکے ہیں۔ ان کا یہ قومی فریضہ بنتا ہے کہ بلالحاظ مذہب و ملت رنگ ونسل ہر ماں کو ایسے ہی خوشیاں حاصل کرنے کا موقع دیں جس طرح آج ان کی اپنی ماں خوشی سے سرشار ہے۔ ایک اچھی حکمرانی کے لئے حکمراں کا انسانیت دوست، انصاف پسند ہونا بھی ضروری ہے اور جہاں تک دوسروں کو پریشان کرنا ان کی تباہی و بربادی کا سامان کرنے کا سوال ہے

اس معاملہ میں وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنے ماں سے ہی سوال کرنا چاہئے کہ ماں کی آہ اس کی بدعا میں کیا طاقت ہوتی ہے۔ دوسری جانب میاں نواز شریف کو بھی یہ جان لینا چاہئے کہ کسی عالمی فورم پر ماں کا ذکر چھیڑتے ہوئے جذباتی ماحول پیدا کرنا کوئی بڑی بات نہیں بلکہ بڑی بات تو پاکستان کے مختلف مقامات پر تشدد، بم دھماکوں، فائرنگ کے اندھا دھند واقعات اور خودکش حملوں میں جاں بحق ہونے والے افراد کے ماؤں کی دلجوئی کرتا ہے بڑی بات تو یہ ہے کہ انہیں اس بات کا یقین دلایا جائے کہ صوبہ خیبرپختونخواں میں اب کسی ماں کی گود خالی نہیں ہوگی۔ صوبہ سندھ میں کسی ماں کے آنچل کو پھاڑا نہیں جائے گا۔ صوبہ بلوچستان میں کسی ماں کی گود اجاڑی نہیں جائے گی اور صوبہ پنجاب میں ہر ماں کی گود کی حفاظت کی جائے گی تب ہی نواز شریف اپنی ماں کی عزت و احترام کرنے والے بیٹے ہوسکتے ہیں کیونکہ وہی بیٹے اپنی ماں کی عزت کرتے ہیں جو دوسروں کی ماؤں کی عزت کرنا جانتے ہیں، دوسری طرف مودی اور نواز کو یہ عہد کرنا بھی ہوگا کہ ہندوستان اور پاکستان کے خطہ قبضہ پر جسے عالمی سطح پر دیوار برلن کہاجاتا ہے ہند۔ پاک کے فوجیوں کا قتل نہیں ہوگا۔ کسی فوجی کی ماں اپنے شہید بیٹے کی نعش پر نہیں روئے گی۔ کاش میاں نواز شریف ہندوستانی سپاہی ہمراج کے تین معصوم بچوں کو دیکھنے کے کس طرح ان کی ماں انہیں شدت غم کے مارے اپنی چادر میں چھپارہی تھی۔ کاش وزیر اعظم خطہ قبضہ پر پاکستانی سپاہیوں کے ہاتھوں شہید حیدرآباد کے لانس نائک فیروزخاں کے ماں کا غم بیوہ کی آہیں اور معصوم بچوں کا درد محسوس کرتے، کاش نواز شریف وہ منظر بھی دیکھ لیتے جب فروز خان کی 5 سالہ معصوم بیٹی افشین فاطمہ گھر سے روانہ ہوتے اپنے باپ کے جنازہ کو معصوم مسکراہٹ کے ساتھ سلیوٹ کررہی تھی، کاش ان کی نظریں افشین کی ماں نسرین فاطمہ اور فیروز خان کی والدہ رضیہ بیگم کے آنسو پر جاتیں تب انہیں ماں کے درد اس کی تڑپ کا احساس ہوتا۔
mriyaz2002@yahoo.com