محمدمصطفے علی سروری
محمود صاحب کی عمر 60 برس سے زائد ہے وہ گزشتہ چالیس برسوں سے تاریخی چارمینار کے دامن میں میوہ فروخت کرنے کا کام کرتے آرہے ہیں۔ حال ہی میں مجلس بلدیہ حیدرآباد نے چارمینار پیدل راہرو پراجیکٹ پر کام کرتے ہوئے چارمینار اور اس کے اطراف و اکناف کے 800 میٹر علاقے کو صرف پیدل راہگیروں کے لیے مختص کرنے کا اقدامات کرنا شروع کیے تو محمود صاحب کو پریشانیوں نے آگھیر لیا۔ ایک خبررساں ادارے سے بات کرتے ہوئے محمود صاحب نے بتلایا کہ گزشتہ چالیس برسوں کے دوران میوہ فروخت کرتے ہوئے میں نے جتنا وقت چارمینار کے پاس کھڑے ہوکر گزارا ہے اتنا وقت تو میں اپنے گھر میں بھی نہیں گزارا ہوں اور اب ایک سرکاری پروگرام کے تحت ہمیں چارمینار سے ہٹادیا جارہا ہے۔
قارئین اکرام محمود صاحب اکیلے نہیں اب تو تقریباً ایک ہزار افراد نے چارمینار کے دامن میں بطور ہاکر اور ٹھیلہ بنڈی راں پر کاروبار کرنے کا دعوی کرتے ہوئے حکومت کی جانب سے کاروبار کے لیے متبادل جگہ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ سب سے اہم سوال کہ بدلتے ہوئے وقت اور حالات میں کاروبار اور تجارت کے اشکال اور طریقے بھی بدل رہے ہیں اور مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو ان بدلتے ہوئے حالات اور چیلنج سے نمٹنے کے قابل بنائیں۔ قارائین اکرام یقینا چارمینار اور اس کے اطراف و اکناف کا علاقے آج بھی صرف شہر و ریاست ہی نہیں بلکہ بیرون ریاست اور بیرون ملک بھی شاپنگ کے لیے مقبول ہے۔ حیدرآباد کو سیروتفریح کے لیے رخ کرنے والوں کے لیے چارمینار کو اپنے پروگرام میں شامل کئے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ چارمینار دیکھنے والوں کے لیے لارڈبازار سے چوڑیوں کی خریداری کے بغیر سفر ادھورا محسوس ہوتا ہے۔
چارمینار دیکھنے والوں کے علاوہ ایسے لوگوں کی بھی بڑی تعداد ہے جو اس علاقے کا رخ شادی بیاہ کی تقاریب کی تیاری کے لیے کرتے ہیں۔ ضروریات زندگی کا ہر سامان یہاں مل جاتا ہے۔ یہی نہیں روز مرہ کی اشیاء ضروریہ بھی یہاں آسانی دستیاب ہیں۔ لیکن کتنے لوگ ہیں جو صرف چارمینار دیکھنے کے لیے اس علاقے کا رخ کرتے ہیں اور کتنے لوگ ہیں جو خریداری شاپنگ کے لیے چارمینار جاتے ہیں؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہم نے آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا حکومت ہند کو قانون حق معلومات کے تحت ایک درخواست لکھی اور ان سے پوچھا کہ پچھلے پانچ برسوں کے دوران کتنے لوگوں نے چارمینار دیکھنے کے لیے باضابطہ طور پر ٹکٹ خریدا اور چارمینار کا مشاہدہ کیا۔ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا نے آر ٹی آئی کے تحت پوچھے گئے سوال کے جواب میں بتلایا کہ پچھلے پانچ برسوں کے دوران تقریباً 75 لاکھ سیاحوں نے چارمینار کا مشاہدہ کیا ہے۔
جی ہاں قارئین اکرام جب ہم نے سال 2011-12 سے مسلسل پانچ برسوں کے ان اعداد و شمار کا تجزیہ کرتے ہیں جو آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا نے فراہم کئے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہر سال چارمینار دیکھنے کے لیے تقریباً 15 لاکھ سیاح آتے ہیں۔ یعنی اگر ہم ان اعداد و شمار کا اور باریکی سے تجزیہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ تاریخی چارمینار کو دیکھنے کے لیے روزانہ چار تا پا نچ ہزار سیاح آتے ہیں۔ یہ تعداد صرف ان لوگوں کی ہے جو ہندوستان سے ہی تعلق رکھتے ہیں جبکہ چارمینار کو دیکھنے والے غیر ملکی سیاحوں کی تعداد کا تجزیہ بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ پچھلے پانچ برسوں کے دوران 65 ہزار غیر ملکی سیاحوں نے بھی چارمینار دیکھا اور ان لوگوں نے باضباطہ طور پر 100 روپئے کا ٹکٹ خرید کر چارمینار کا مشاہدہ کیا۔ اوسطاً 33 تا 40 غیر ملکی سیاح چارمینار دیکھنے کے لیے روزانہ آتے ہیں۔ اس پس منظر میں یہ سوال دلچسپی اختیار کرجاتا ہے کہ جب اتنی بڑی تعداد میں ملکی و غیر ملکی سیاح چارمینار دیکھنے کے لیے شہر حیدرآباد کا رخ کرتے ہیں تو ان لوگوں کے سبب کاروبار کے کونسے مواقع سامنے آتے ہیں۔ ایک بات تو طے ہے کہ ملک و بیرون ملک سے آنے والے سیاح چارمینار آکر یہاں سے میوے اور کھلونے تو خریدنا پسند نہیں کرتے، ہاں حیدرآباد کے مشہور چوڑیاں اور کپڑے چارمینار کے ماڈلس ضرور خریدنا پسند کریں گے۔
آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا نے ایک سوال کے جواب میں بتلایا کہ تاریخی چارمینار کو دیکھنے کے لیے آنے والے سیاحوں کو ٹکٹ فروخت کرتے ہوئے محکمہ کو ہر سال اوسطاً ایک کروڑ کی آمدنی ہوتی ہے۔ قارئین سیاحوں کی شہر حیدرآباد میں آمد صرف چارمینار دیکھنے کے لیے نہیں ہوتی اگر ہم ا عداد و شمار کی روشنی میں تجزیہ کریں تو سیاحوں کی اولین پسند گولکنڈہ قلعہ، سالار جنگ میوزیم اور پھر چارمینار ہے۔ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا جو شہر کی تاریخی عمارت کی نگہداشت بھی کرتی ہے کو جب قانون حق معلومات کے تحت پوچھا گیا تو پتہ چلا کہ پچھلے پانچ برسوں کے دوران تقریباً 80 لاکھ سیاحوں نے قلعہ گولکنڈہ کا مشاہدہ کیا۔ ان اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ قلعہ گولکنڈہ دیکھنے کے لیے ہندوستانی سیاحوں کی بھی بڑی تعداد حیدرآباد آتی ہے اور روزانہ اوسطاً ساڑے چارتا پانچ ہزار سیاح گولکنڈہ دیکھنے آتے ہیں اور غیر ملکی سیاحوں کی تعداد کا تجزیہ کریں تو پتہ لگے گا کہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ایک لاکھ غیر ملکی سیاحوں نے قلعہ گولکنڈہ کا مشاہدہ کیا۔
سالارجنگ میوزیم کو دیکھنے کے لیے آنے والوں کی تعداد کا پتہ لگانے کے لیے ہم نے قانون حق معلومات کے تحت درخواست کی پتہ چلا کہ پچھلے پانچ برسوں کے دوران تقریباً 62 لاکھ سیاحوں نے سالار جنگ میوزیم کا مشاہدہ کیا۔ یعنی سالارجنگ میوزیم دیکھنے کے لیے روزانہ اوسطاً ساڑے تین ہزار لوگ آتے ہیں یہ تو اندرون ملک سے آنے والے سیاحوں کی تعداد ہے جبکہ ہر ماہ بیرون ملک سے تقریباً 100 سیاح سالارجنگ میوزیم کا رخ کرتے ہیں۔قارئین صرف سالار جنگ میوزیم کو داخلہ ٹکٹ کی فروخت سے ہر سال اوسطاً ایک کروڑ تا سوا کروڑ کی آمدنی ہوتی ہے اور قلعہ گولکنڈہ کے داخلہ ٹکٹ کی فروحت سے بھی آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کو سالانہ ایک کروڑ روپئے حاصل ہوتے ہیں۔
شہر حیدرآباد سے تعلق رکھنے والی تین بڑی اور مشہور جگہوں سے جو تاریخی اہمیت کی بھی حامل ہیں مرکزی حکومت کو اوسطاً سالانہ 3 کروڑ سے زائد کی آمدنی ہوتی ہے۔ قارئین اب اسی تصویر کا دوسرا رخ دیکھیے کہ چارمینار، سالارجنگ میوزیم اور قلعہ گولکنڈہ کا مشاہدہ کرنے والے افراد کی تعداد روزانہ کی بنیادوں پر دیکھیں تو پتہ چلے گا تقریباً 13 ہزار افراد ان تینوں مقامات کا سفر طے کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان سیاحوں کی آمد و رفت بھی ایک بہت بڑے کاروبار کی نشاندہی کرتی ہے۔ ریلوے اسٹیشن، بس اسٹیشن اور غیر ملکی سیاحوں کے لیے ایرپورٹ سے ان مقامات تک ٹرانسپورٹیشن جہاں ایک بڑا کاروبار ہے، وہیں ٹورگائیڈ سے لے کر پانی کی بوتلوں کی فروخت غرض روزانہ 13 ہزار سیاحوں کی شہر میں آمد اور ان کی آمد سے پیدا ہونے والے تجارتی مواقع صرف میوئوں کی فروخت تک محدود نہیں ہیں۔ کیا شہر حیدرآباد کے بے روزگار نوجوان اس بات سے واقف ہے کہ نہروزولوجیکل پارک کو دیکھنے کے لیے آنے والوں کی پارکنگ سے ہی سالانہ اوسطاً 80 تا 40 لاکھ روپئے کی آمدنی ہوتی ہے اور سال 2011-12ء سے لے کر اگلے پانچ برسوں کے دوران زو کو دیکھنے کے لیے آنے والوں سے داخلہ فیس کی شکل میں ریاستی حکومت نے 3399.23 تین ہزار تین سو ننانوے عشاریہ دو تین لاکھ روپئے کی آمدنی حاصل کی۔ زو میں Canteen کے الاٹمنٹ سے ہی حکومت تلنگانہ کے محکمہ جنگلات گزشتہ پانچ برسوں کے دوران 340 لاکھ سے زائد آمدنی حاصل کی ہے۔
زو کو دیکھنے والوں سے صرف حکومت کو ہی آمدنی حاصل نہیں ہوتی بلکہ بہت سارے خانگی افراد، ادارے اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی آمد سے فائدہ اٹھاکر اپنے لیے کاروباری مواقع پیدا کرتے ہیں۔جیسا کہ ا س سے پہلے کے کالم میں میں نے بتایا تھا کہ شہر حیدرآباد فارماسیوٹیکل کی اتنی بڑی بڑی کمپنیاں قائم ہیں کہ اس شہر کو ہندوستان کا فارما کیاپٹل (دارالحکومت) بھی کہا جاتا ہے۔ ایک شخص جو تعلیم یافتہ نہیں ہے ،نے وہ طریقہ ڈھونڈ نکالا کہ حیدرآباد کی فارما انڈسٹری سے اس کو بھی فائدہ پہونچے۔ اس نے دلت چیامبر آف کامرس انڈسٹری سے قرضہ لے کر چوہوں کو پالنے کا کاروبار شروع کیا۔ حیدرآباد کی فارما کمپنیوں کی جانب سے اندازاً 25 لاکھ چوہے تجربات کے لیے باہر سے منگوائے جاتے تھے لیکن جلد ہی چندرا نائک نام کا یہ دلت فارما کمپنیوں کو اپنی جانب سے چوہے فراہم کرنا شروع کردیا اور اخبار بزنس لائین کی رپورٹ کے مطابق اس شخص کا کاروبار ماہانہ25 لاکھ روپئے تک پہونچ گیا ہے۔ قارئین اس مثال سے پتہ چلتا ہے کہ چوہے بیچ کر بھی منافع کمایا جاسکتا ہے۔ اس طرح شہر حیدرآباد کو دواخانوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے لیکن ہمارے ذہن میں دواخانوں کا نام آتے ہی مریضوں کا تصور ابھرآتا ہے اگر ہم اپنی سونچ بدلیں تو شہر کے یہی دواخانوں کا جال ہمارے لیے کاروبار کے کئی مواقع فراہم کرتا ہے۔
مثال کے طورپر دواخانوں میں پیدا ہونے والا کچرا ہے۔ حکومت نے باضابطہ طور پر قانون سازی کردی ہے کہ دواخانے کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ہاں نکلنے والے کچرے کو خصوصی طریقے سے ٹھکانے لگائیں اور عام کچرے کے ساتھ ہرگز نہ ملائیں۔
دواخانوں سے نکلنے والے اور وہاں پیدا ہونے والے کچرے کو جمع کرنے اور ٹھکانے لگانے کے لیے سال 1994ء میں ایک کمپنی شہر حیدرآباد میں ہی شروع کی گئی تھی جس کا نام Ramky Environ Engineers Ltd ہے۔ صرف حیدرآباد نہیں بلکہ یہ کمپنی ملک کی 17 ریاستوں میں 55 مختلف مقامات پر اپنی خدمات انجام دے رہی ہے۔ اس کے علاوہ کمپنی کی مہارت کو دیکھتے ہوئے اس کو بیرون ملک متحدہ عرب امارات، سنگاپور اور جنوبی افریقہ میں بھی کام کے بھٹکے مسئلے ہیں۔
دواخانوں سے جمع کچرے کو حاصل کرکے ٹھکانے لگانے کا کاروبار کرنے والی اس کمپنی کو کس قدر منافع حاصل ہورہا ہے۔ اس کا اندازہ قارئین صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کمپنی میں آج 7800 ملازمین کام کررہے ہیں اور اس کمپنی کا سالانہ کاروبار مالیاتی سال 2017ء کے دوران 335 کروڑ تک پہونچ گیا ہے۔قارئین آج والدین، سرپرستوں اور قوم و ملت کے ہمدردان کے روبرو سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ زمانے کے بدلتے ہوئے چینلجس اور ضروریات سے نئی نسل کو واقف کروائیں۔
یہ ضروری نہیں ہے کہ آج بھی صرف میوہ فروخت کرکے روزگار حاصل کیا جائے یا پھر نوکری کے لیے بیرون ملک ہی رخ کیا جائے۔ مثال کے طور پر اس مرتبہ 15 اگست 2018ء سے حکومت تلنگانہ نے ریاست بھر کے 3.7 کروڑ لوگوں کے لیے آنکھوں کے مفت معائنہ علاج آپریشن اور عینکوں کی مفت تقسیم کے پروگرام کا آغاز کیا ہے۔ ایک سو دو سو نہیں بلکہ بزنس لائین کی 15 اگست کی رپورٹ کے مطابق اندازاً 41 لاکھ لوگوں میں بعد معائنہ کے عینکیں تقسیم کی جائیں گی۔ آخر کو حکومت کہیں نہ کہیں سے یہ عینکیں خرید رہی ہوگی۔ 825 ٹیمیں بنائی گئی جس میں ڈاکٹر ایک اور ایک Optometrist ایک ڈاٹا انٹری آپریٹر ایک فارمسسٹ کو بھی شامل کیا گیا جو گاؤں گاؤں جاکر عوام کے آنکھوں کا معائنہ کریں گے۔
کس کس کا رونا روئیں مسلمانوں میں کتنے نوجوان ہیں جو ایک Optometrist اور Opthalmalogist بننا چاہتے ہیں یا اس کے بارے میں جانتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ علاقائی سطح سے لے کر قومی سطح تک بدلتے ہوئے تعلیمی ترجیحات کے حوالے سے مسلمانوں میں شعور بیداری کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ کوئی اور کرے نہ کرے ہم میں سے ہر ایک کو اپنے حصے کی شجمع جلانی ہوگی تب ہی جاکر قوم کا روشنی کی سمت سفر شروع ہوگا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی ترجیحات صحیح طورپر طے کرنے میں آسانی پیدا فرما ئے اور ہمارے وسائل کے صحیح استعمال کو یقینی بنائیے۔ (آمین)
sarwari829@yahoo.com