ڈیرا سچا سودا ہیڈکوارٹر کی گفا میں تعینات سیکورٹی عملے کو نامرد بنادیاجاتا تھا ‘ اور سادھویں کو خاص قسم کی شراب پلائی جاتی تھی۔ سادھویں کو دعوی۔

سرسا۔سال2002میں ڈیرا سچاس سودا کے سربراہ گرومیت رام رہیم کے خلاف دوسادھویوں نے گمنام خط کے ذریعہ عصمت ریزی کی شکایت کی‘ جس کی بنیاد ی تحقیقات کے بعد اس کیس کو سی بی ائی کے حوالے کردیاتھا ‘ جہاں پر سی بی ائی کی برسوں تک کیس کی مختلف زایوں سے سنوائی کرنے کے بعد گرومیت رام رہیم عصمت ریزی کے کیس میں مجرم ٹھرایا اور دو علیحدہ واقعات میں دس ‘ دس سال قید کی سزا سنائی۔

نیوز18انڈیا کے مطابق ڈیرا میں رہنے والی ایک سادھوی نے بتایا کہ نے اس نے سال2002میں ہی ڈیرا چھوڑ دیاتھا۔ مذکورہ سادھوی نے مزیدبتایا کہ گرومیت رام رہیم رات کے وقت سادھویوں کے آواس کی طرف آتا تھا۔ جہاں پر کئی خواتین کام کرتی تھی۔گرومیت کو سادھویوں میں سے جو لڑکی پسند آتی اس کو گفامیں بھیجنے کے لئے خاتون عملے کو ہدایت دیتا اوروہاں سے چلا جاتاتھا۔ اسی رات منتخب سادھوی سے خاتون عملہ کہتا تھا کہ ’’ بابا جی نے آج تمہیں معافی دینے کے لئے طلب کیا ہے‘‘۔

مذکورہ سادھوی کے مطابق لڑکیاں خوشی خوشی گفامیں جاتی کیونکہ انہیں بابا جی نے معافی کے لئے بلایا ہے۔عموماً سادھویوں کے گفا میں جاکر واپس آنے کے بعد خوشی کی توقع رہتی تھا کیونکہ بابا جی نے سادھویوں کو معافی کے لئے طلب کیاہے مگر جب وہ گفا کے عالیشان کمرے میں جہاں پر گرومیت رام رہیم آرا م کرتا تھا وہا ں پر جاکر آنے کے بعد زیادہ وقت مایوس ہی رہاکرتی تھی۔

مذکورہ سادھوی نے معافی کی سچائی سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہاکہ گرومیت گفا میں سادھویوں کو طلب کرتا اور انہیں ایک خاص مشروب پلاتے جس کے بعد گفا میں گئی سادھوی نیم بیہوشی کے عالم میں پہنچ جاتی جس کے بعد گرومیت سادھوی کی عصمت سے کھلواڑ کرتا۔ گرومیت کے خلاف شکایت کرنے والی سادھوی نے کہاکہ کئی مرتبہ گفا کے اندر سے چیخنے او رچلانے کی آوازیںآتی تھیں‘ مگر ہم پر زیادہ توجہہ نہیں دیتا کیونکہ ہم تمام لوگوں کو گرومیت پر بھروسہ تھا۔

مذکورہ سادھوی نے کہاکہ اگر کوئی ہمت کرکے اس کے خلاف آواز اٹھانے کی کوشش کرتا یا پھر گرومیت کی بات ماننے سے انکا رکرتا تو وہ یا تو مخالفت کرنے والوں کو ختم کرکے ڈیرا میں دفن کردیتا یا پھر انکار کرنے والوں کو اس بات کی دھمکیاں دیتا کہ ’’ اگر وہ بات نہیں مانتی ہے تواس کے باپ یا بھائی کوقتل کردیاجائے گا‘‘۔

سادھوی نے بتایا کہ متاثر ہ لڑکیوں کے گھر والے ان کی شکایتوں پر یقین بھی نہیں کیاکرتے تھے کیونکہ انہیں پورا بھروسہ گرومیت پر تھا۔ سادھوی کے مطابق سادھویوں کے آواس میں کچھ ایسا انتظام کیاگیا تھا کہ وہ ایک دوسرے سے بات نہیں کرسکتے تھی اور ایک دوسرے کو اپنی آب بیتی بھی نہیں بتاسکتی تھی۔

سادھوی نے اس بات کا بھی دعوی کیا ہے کہ سکیورٹی عملے او رسادھویوں کے درمیان میں معاشقہ چلنے سے روکنے کے لئے سکیورٹی عملے کے جوانوں کو نامرد بنادیاجاتاتھا تاکہ وہ ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہوکر شادی بھی نہ کرسکیں۔ سادھوی نے کہاکہ وہ اب تک اس لئے خاموشی تھی کہ اس کو اپنے گھر والوں کی فکر ستاتی تھی۔ بہتر زندگی کے لالچ اور گھر والوں کی جان کی حفاظت کی خاطر اس نے اب تک اپنا منھ رکھاتھا