ڈسمبر 2018ء کانگریس کیلئے فیصلہ کن مرحلہ

راج دیپ سردیسائی
کھیل کود میں ناکامی عادت بن سکتی ہے۔ 1970ء اور 1980ء کے دہوں میں گریٹ ویسٹ انڈین ٹیم کے مقابل زیادہ تر ٹیمیں بس ڈرو خوف کی وجہ سے پچ تک پہنچنے سے قبل ہار جاتی تھیں۔ ہندوستان کے ورلڈ کپ 1983ء جیتنے والے کپتان کپل دیو کا کہنا ہے کہ سب سے پہلی مرتبہ انھیں انڈیا کی ٹورنمنٹ میں ممکنہ خطابی فتح تب محسوس ہوئی جب ٹیم نے ونڈیز کو ابتدائی دور کے میچ میں شکست دی۔ ’’تب تک، ہمیں بس خود پر اتنا یقین نہیں تھا کہ ہم انھیں اس طرح کے بڑے ونڈے ٹورنمنٹ میں شکست دینے کی معقول قابلیت رکھتے ہیں۔‘‘
جو کچھ کرکٹ کے معاملے میں درست ہے وہی شاید سخت مسابقتی دنیائے سیاست کا بھی معاملہ ہے: شکست لگ بھگ لت بن جاتی ہے، خوداعتمادی اور امید کو کمزور کرتی ہے۔ گزشتہ چار برسوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کچھ حد تک خوف پیدا کرنے والی ویسٹ انڈین ٹیم کی مانند رہی ہے، صرف اِس مرتبہ چار فاسٹ بولروں کا گروپ نہیں ہے بلکہ انتخابی سیاست کے عملی نظام کے سنگدل پیشہ ور سیاستدان نریندر مودی اور امیت شاہ ہیں، جنھوں نے اپنے حریفوں کو لگ بھگ دھمکاتے ہوئے شکست خوردہ ذہنیت کے خول میں بند ہونے پر مجبور کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ رائے شماری کے دن جو کچھ پیش آئے وہ نہایت اہم ہے۔ ایک ماہ قبل تک، کانگریس نے کم از کم راجستھان میں کامیابی کو طے شدہ امر باور کرلیا تھا: آخر کو 25 سال سے باری باری بدلنے والی حکومتیں یہی ظاہر کریں گی کہ مخالف حکومت عنصر کا ناگزیر قاعدہ، عین ممکن ہے، کانگریس کو اس ریاست میں اقتدار تک پہنچا دے گا۔ لیکن اس ریاست میں لمحہ آخر بی جے پی کی جانب سے نامور قائدین کے پے درپے دوروں نے کئی مبصرین کو حیرانی میں مبتلا کیا کہ آیا انتخابی قسمت میں یکایک کوئی بدلاؤ آئے گا۔

اور اس کے باوجود یہ سرمائی انتخابات شاید 2014ء کی شکست کے بعد سے پہلی مرتبہ ہے جب کانگریس نے کچھ واجبی پُرامیدی کے احساس کے ساتھ رائے شماری کے دن کا سامنا کیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس کے قائدین نے مدھیہ پردیش میں معقول اتحاد کے ساتھ چناؤ لڑا ہے، جس سے ظاہر ہوا کہ گروہ بندی سے نمٹنا ہنوز ایسی پارٹی یونٹ میں ممکن ہے جو احمقانہ غلطیاں کرلینے کیلئے بدنام ہے۔ اس کے برعکس یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ پارٹی راجستھان میں وزارت اعلیٰ کے بارے میں منقسم ہے، پھر بھی ریاست کو جیتنے کے روشن امکانات ہیں، اور اس استدلال کو جواب پیش کرتا ہے کہ صرف چھوٹی صدارتی طرز کی جدوجہد جس میں چیف منسٹر کے امیدواروں کا پیشگی اعلان کردیا جائے آج کل کارگر ہوتا ہے۔ چھتیس گڑھ اور تلنگانہ میں بھی کانگریس جیت کی متلاشی ہے حالانکہ رمن سنگھ اور کے چندرشیکھر راؤ کی شکل میں طاقتور علاقائی حکمرانوں کا سامنا ہے۔ لہٰذا، کیا کانگریس واقعی پھر ایک بار خود کو جارح الیکشن مشین میں تبدیل کرچکی ہے؟ فی الواقعی نہیں۔ سچائی یہ ہے کہ کانگریس ہنوز بہت مضبوطی سے اپنے ہائی کمانڈ کلچر سے اس حد تک چمٹی ہے کہ اپنی ریاستی قیادتوں کو واجبی خودمختاری نہیں دیتی ہے۔ دیکھئے کہ کس طرح اس نے مہینوں تک معاملے کو ٹالے رکھا اور آخرکار کمل ناتھ کو ایم پی کانگریس پریسیڈنٹ کی حیثیت سے الیکشن سے محض سات ماہ قبل بھیجا، یا کس طرح تلنگانہ میں مہاکوٹمی (عظیم اتحاد) چناؤ سے چند ہفتے قبل تک دہلی میں پھنسا رہا۔ اور اگر اس پارٹی کے رابطے کے طریقوں اور بوتھ مینجمنٹ کی ہنرمندی میں بہتری آئی ہے، تب بھی وہ بی جے پی کے پیچھے ہی چل رہے ہیں، جس نے سیاسی قوت کی حیثیت سے مائیکرو لیول الیکشن مینجمنٹ کو نئی سطحوں تک پہنچایا ہے۔ اور جہاں راہول گاندھی توانائی سے بھرپور مہم جو میں تبدیل ہوئے ہیں، وہ ہنوز جذباتی ربط سے عاری نظر آتے ہیں جو وزیراعظم مودی میں فطری طور پر ظاہر ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں، تقریباً تمام چناؤ والی ریاستوں میں کانگریس کو ایسی پارٹی ہونے کی حقیقت کو ماننا پڑے گا جس میں قائدین تو بہت ہیں لیکن میدان پر کام کرنے والا معقول کیڈر نہیں ہے۔
اگر کانگریس کو ہنوز مسابقت میں برقرار رہنے کا معقول موقع ہے تو اس کی بنیادی وجہ بی جے پی کا اب مودی عنصر پر حد سے زیادہ انحصار کرنا ہے۔ جب انتخابات پر مقامی رنگ چھاجائے تو پھر کرشماتی ہیرو کا جادو ماند پڑنے لگتا ہے اور سیاست بہت سارے مقامی مسابقتوں میں پھنس کر رہ جاتی ہے۔ ابھی تک وزیراعظم کی عوامی مقبولیت نے بی جے پی کو ملک کے ایسے حصوں میں تک کامیابی دلائی جہاں اس کا لگ بھگ کوئی وجود نہ تھا (تریپورہ بہت مناسب مثال ہے)۔ لیکن تھکن اور تکبر خطرناک امتزاج ہوسکتے ہیں، جو بی جے پی کو اُن ریاستوں میں کافی نازک حالت میں پہنچاتی ہے جہاں پارٹی کی مقامی قیادت مجموعی طور پر بہتر حکمرانی فراہم نہیں کرتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ڈسمبر 2018ء کانگریس کیلئے اس کا بہترین، اور آخری موقع پیش کرتا ہے کہ 2019ء جنرل الیکشن میں پہنچنے سے قبل کچھ ردھم حاصل کرلیا جائے۔ اگر کانگریس کم از کم دو بڑی ریاستیں جیتنے سے قاصر رہے، تو پھر اسے قومی چناؤ میں حصہ لینے سے قبل بالکلیہ کھوکھلی آرمی رہ جانے کے حقیقی امکان کا خطرہ ہے۔ اس کے برعکس، فتح اسے وسیع تر مخالف بی جے پی مخلوط کیلئے مقناطیس بناسکتی ہے۔ چنانچہ یہ اس طرح سے کانگریس کا 1983ء کا یادگار کپل دیو لمحہ ہے، جس پر یہ طے ہوگا کہ آیا ناکام ہوتے رہنے کا مزاج برقرار رہنے والا ہے، یا پھر یہ پارٹی دوبارہ مسابقتی لڑائی کیلئے تیار ہورہی ہے۔
اضافی مشاہدہ : راجستھان میں انتخابی مہم کے موقع پر ایک نوجوان کانگریس لیڈر نے کچھ پیش بینی کے انداز میں ریمارک کیا، ’’میری سب سے بڑی فکر یہ ہے کہ اگر ہم 11 ڈسمبر کو اچھا مظاہرہ کرتے ہیں تو ہماری پارٹی جذبات سے اس قدر بے قابو ہوجائے گی کہ اسے 2019ء بھی جیت جانے کا گمان ہونے لگے گا، حالانکہ وہ ایک اور نہایت مختلف الیکشن رہے گا!‘‘ سچ تو یہ ہے کہ جب مریض آئی سی یو میں دھیرے دھیرے موت کی طرف بڑھ رہا ہو تو بہت معمولی بہتری کی علامت کو بھی کرشماتی بحالی کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
نوٹ : یہ آرٹیکل 11 ڈسمبر (اسمبلی الیکشن کے ووٹوں کی گنتی کا دن) سے قبل تحریر کیا گیا۔
rajdeepsardesai52@gmail.com