ڈاکٹر کلیم عاجز گذر گئے ، آسمان ادب کا سورج ڈوب گیا!

منور النساء منور
اردو کے شہرہ آفاق شاعر پدم شری ، تبلیغی جماعت کے سربراہ اور اردو ادب کی دم دار شخصیت حضرت کلیم عاجز کا تعلق بہار کے نالندہ ضلع کے تلہاڑ گاؤں سے تھا ۔ ڈاکٹر کلیم عاجز کا بچپن سنگین حادثوں سے گذرا ۔ حالات حادثات جو بھی ہوں وہ اپنے منفرد لب و لہجہ اور مخصوص انداز بیان کے سبب عالمی شہرت کے تاجدار بنے ۔
اپنی کلاسیکی شاعری سے عظیم آبادی کی شعری روایات کو بام عروج پر پہونچایا ۔ حضرت کلیم عاجز کا اس دار فانی سے کوچ کرجانا ، دنیائے ادب کے سورج کا ڈوب جانا ، دلوں میں اتر جانے والی عظیم شاعری ، معیاری نثر نگاری ، اعلی اقدار اور پروقار شخصیت کا ہر فرد معترف ہے ۔ ان کے چلے جانے سے اردو ادب کے ایک زرین عہد کا خاتمہ ہوگیا ۔
ڈاکٹر کلیم عاجز نہ صرف ہندوستان بلکہ عالمی پیمانے پر اردو تہذیب و ادب کے پروقار نمائندہ تھے ۔ ان کی شاعری عوام کے جذبات و احساسات کی آئینہ دار تھی ۔ اسی لئے وہ اپنی شاعری کے ذریعہ عوام کے دلوں پر راج کرتے تھے ۔ شعر و ادب کے شائقین انہیں اپنی پلکوں پر بٹھاتے تھے ۔
ڈاکٹر کلیم عاجز کے دل میں ملت کا درد اور ان کی پسماندگی ، بدحالی ، زندگی کا کرب شدت اختیار کرچکا تھا ۔ جس کا اظہار ان کی شاعری ، تحریروں اور تقریروں میں واضح ہے ۔ آپ متقی و پرہیزگار ، خدا ترس عالم تھے ۔ پیرانہ سالی ، کمزوری اور نحیف ہونے کے باوجود صوم و صلوۃ کے پابند تھے ۔

کلیم عاجز جیسی ہستی اس دور میں کہیں دیکھنے کو نہیں ملتی اور آنے والے دور میں اس خلاء کو پُر کرنا ناممکن نظر آتا ہے ۔ کوئی تیس بتیس سال قبل میری ملاقات جدہ میں ایک شعری نشست میں ہوئی ۔ شعری نشست اور طعام کے اختتام پر لوگ آپ سے ملاقات کی غرض سے گھیرے ہوئے تھے ۔ ان کا مشہور شعر ’’دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ ۔ تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو‘‘ مجھے اس شعر کے بارے میں عاجز صاحب سے کچھ پوچھنا اور جاننا تھا ۔ میں نے دیگر شعراء سے اظہار خیال کیا ۔ سبھوں نے معذرت کرلی کہا کہ ہماری یہ ہمت اور جرأت نہیں ہے ۔ آپ خود بات کرلیں ۔ میں نے اجازت طلب کی تمام شعراء ایک طرف کو ہوگئے ۔ میں اور عاجز صاحب روبرو استاد شاگرد کی طرح بیٹھے تھے درمیان میں چھوٹی سی درشن والی بنچ رکھی تھی ۔ میں انتہائی معذرت اور بے حد مودبانہ انداز میں معروضہ سامنے رکھا ۔ میں نے کہا عاجز صاحب آپ نے’’دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ‘‘ یہ دونوں ہم وزن مصرع باندھے ہیں آپ نے چھینٹ کا ذکر پہلے اور خنجر کا ذکر بعد میں کیا ۔ جبکہ پہلے خنجر چلتا ہے تو خون نکلتا ہے اور خون نکلتا ہے تو چھینٹ پڑتی ہے ۔ پھر آپ نے چھینٹ کا ذکر پہلے اور خنجر کا بعد میں کیوں کیا ۔ آپ مسکراتے ہوئے میرا چہرہ دیکھ رہے تھے ۔ میری ذہانت پڑھ رہے تھے ۔ جواباً انہوں نے کہا آپ کی بات تو صحیح ہے لیکن کم لوگ جانتے ہیں کہ کسی زمانے میں مجھے موسیقی سے شغف تھا ۔ میرا خیال تھا کہ کوئی گلوکار ، کبھی غزل سرا ہوگا تو وہ آخر میں چھینٹ چھینٹ نہیں الاپ سکے گا اور داغ ، داغ آسانی سے اٹھایا جائے گا ۔

بس اس دن سے ان کاشفقت ، محبت ، اخلاص ، ہمدردی مجھ ناچیز کیلئے مخصوص ہوگئی ۔ انہوں نے مجھے اپنی معنوی بیٹی کی حیثیت دی ۔ میرے کلام کی اصلاح فرما دیا کرتے تھے ۔ جدہ میں ہندوستان کی نمائندہ شاعرہ کی حیثیت سے مجھے ہر مشاعرے اور نشست میں مدعو کیا جاتا تھا ۔ کلیم عاجز صاحب تین سے چھ ماہ کیلئے سعید باغزال کے یہاں آتے جاوید بھائی (پاکستانی مداح) کے یہاں بھی قیام فرماتے ۔
کلیم عاجز صاحب کا بیشتر وقت حرمین شریفین میں عبادت و ریاضت میں صرف ہوتا ۔ ہفتہ دس دن میں جدہ آتے تو مشاعرے اور نشستوں میں شرکت کرتے ۔ وہ کم گو ، خاموش طبع ، متین دنیاسے بے نیاز اپنی دنیا میں مراقبے میں کھوئے رہتے ۔ کم کھاتے کم سوتے ۔ دنیا کو نمک اور آخرت کو آٹے کی طرح برتا ۔ دنیا اور آخرت کو توازن سے برتا ۔ اللہ تعالی انہیں غریق رحمت فرمائے ۔ آمین ۔