ڈاکٹر سید حسام الدین
ایک قلمکار بیک وقت افسانہ نگار ، ادیب ، شاعر ، محقق ، نقاد اور مبصر ہوسکتا ہے چنانچہ معروف افسانہ نگار فریدہ زین بھی ایسی ہی ہمہ جہت شخصیت کی حامل ہیں ۔
اولاً وہ ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے پہچانی جاتی تھیں۔ وہ شاعرہ تو نہیں لیکن ان کا انداز تحریر شاعرانہ ضرور ہے ۔ حال ہی میں انہوں نے تانیثیت کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی تکمیل کی ۔ اس طرح ان کی شخصیت بحیثیت محقق و نقاد بھی مسلمہ ہوگئی ہے ۔
محترمہ اکثر و بیشتر مختلف ادیبوں کی کتابوں پر تبصرہ بھی فرماتی ہیں جو رسائل اور اخباروں میں شائع ہوتے رہتے ہیں ۔ زیر نظر مضمون میں ڈاکٹر صاحبہ کی تبصرہ نگاری کا جائزہ لیا جائے گا ۔
ڈاکٹر فریدہ زین کے نزدیک تبصرہ مصنف اور مبصر کا رشتہ ایک دوسرے سے آئینہ اور عکس کا ہوتا ہے جب اس کی تخلیق پر آراء سے نوازا جائے اور مبصر وہ ہے کو تخلیق کے محاسن و مصائب سے بخوبی واقف ہو اور پورے انصاف سے کام لے ۔
(قمر جمالی ۔ افسانہ نگار سے مبصر تک)
فریدہ زین بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں وہ تخلیقی عمل سے اور افسانوں میں جذبات کو کس طرح صفحہ قرطاس پرلایا جاتا ہے خوب واقف ہیں ۔ عاصمہ خلیل کی افسانہ نگاری پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں ’’وہ تخلیقی عمل جو قلم سے صفحہ قرطاس پر جذبات و احساسات کی ترجمانی کرتا ہے افسانہ ، غزل ، انشائیہ ، مضمون کہلاتا ہے‘‘ ۔ افسانے کے اسلوب کے بارے میں لکھتی ہیں ’’افسانے کا فسوں الگ ہوتا ہے ۔ لفظوں کی بوقلمونیاں ، تحریر کی اثر انگیزیاں ، جذبات کی دلگدازیاں ، مناظر کا حسن ، ماحول کی عکاسی سبھی کچھ اس کے دائرہ عمل میں آجاتا ہے‘‘ (عاصمہ خلیل ۔ دل کی گذرگاہ سے)
تبصرہ نگار کا منصب فنکار اور قاری کے درمیان پل کا کام کرتا ہے نہ کہ فنکار کے جذبات میں خود بھی ڈوب جائے لیکن بعض اوقات الم انگیز تحریر پڑھ کر ان کی آنکھیں بھی نمناک ہوجاتی ہیں ۔
فنکار کے تخلیقی صلاحیت کے بارے میں وجدانی کیفیت کے تحت لکھتی ہیں ’’ذہنی تخلیق ہر انسان کے بس کی بات نہیں یہ تو وہ نعمت ہے جسے میسر آگئی سو آگئی‘‘ ۔
شبینہ فرشوری ۔ تخلیق کے آئینے میں)
فریدہ زین کی تبصرہ نگاری سے ان کی فکر غمازی کرتی ہے ۔ افروز سعیدہ کے افسانوی مجموعے ’’سائبان‘‘ میں ان کے فکر کی عکاسی ملاحظہ ہو ’’سفر علامت ہے زندگی کی ۔ منزل مل جائے تو سفر ہی ختم ہوجاتا ہے ۔ ادبی سفر کی منزل کا شاید ابھی تک کوئی تعین نہ کرسکا‘‘ ۔
ڈاکٹر فریدہ جب بھی تبصرہ کرتی ہیں زماں و مکاں کی وسعتوں کو بھی ملحوظ رکھتی ہیں ۔ محمد مجیب احمد کی کتاب پر تبصرہ کرتی ہوئی لکھتی ہیں ’’مجیب احمد کے پاس فطرتاً دردمند دل ہے وہ اپنے ماضی کے اوراق کو گمشدہ نہیں سمجھتے بلکہ ان کے نزدیک یہی مستقبل کو سنوارنے کا ذریعہ ہے ، فریدہ زین قلم اور جذبات کے درمیان ہم آہنگی کی قائل ہیں چنانچہ ثریا جبین کے تخلیقی سفر پر تبصرہ کرتی ہوئی لکھتی ہیں ’’قلم اور جذبات میں گہری وابستگی ہے اس لئے نثر ہو یا نظم جذبات قلبی کا آئینہ ہوتے ہیں اور قلم اس کا محرک‘‘ ۔
ڈاکٹر فریدہ زین کسی بھی فنکار کی تخلیق میں عصر حاضر کی دھڑکنوں کو محسوس کرنا چاہتی ہیں اور اسی کو اس کی کامیابی کا ضامن سمجھتی ہیں۔ خیرالنساء علیم کی افسانہ نگاری پر تبصرہ کرتی ہوئی لکھتی ہیں ’’ہر فنکار اپنے فن میں عصر حاضر کی روح کو بیدار کرنا چاہتاہے ۔ قلمکار کا تقاضا یہی رہتا ہے کہ وہ معاشرے پر گہری نظر رکھے اور اس میں ہونے والی برائیوں اور خامیوں کو خوبصورت کے ساتھ کہانیوں میں سمو کر ذہنوں کو جھنجھوڑے‘‘ ۔
ڈاکٹر فریدہ زین نے ڈاکٹر آمنہ تحسین کی کتاب ’’تانیثی فکر کی جہات‘‘ پر بڑی تفصیل کے ساتھ تبصرہ کیا ہے جو تقریباً 10 صفحات پر مشتمل ہے ۔ تبصرے کا لب لباب یہ ہے کہ جب قلمکاروں کی تخلیقات پر ڈاکٹر آمنہ تحسین جس طرح روشنی ڈالی خود قلمکار اس سے لاعلم ہے لکھتی ہیں
’’تانیثی فکر کا احساس ان کی تمام تحریروں میں اجاگر ہے ۔ مقالے ہوں ، کتابیں ہوں یا تبصرے سب ہی میں ’’تانیثی فکر‘‘ کی تلاش کی ہے اور بڑی خوبی سے اس کی وضاحت کی ہے ۔ شاید خود قلمکار اس احساس سے لاعلم ہو مگر آمنہ تحسین نے وہ گوشہ تلاش ہی کرلیا ہے‘‘ ۔
بہرحال ڈاکٹر فریدہ زین کی تبصرہ نگاری سے عیاں ہوتا ہے کہ وہ قدیم تہذیب و فکر کی علمبردار ہیں ، روایتوں کی پاسدار ۔وہ جب بھی قلم اٹھاتی ہیں اس بات کا خیال رکھتی ہیں کہ کہیں آبگینوں کو ٹھنس نہ پہنچے ۔ وہ ہمیشہ قلمکاروں کی ہمت افزائی کرتی ہیں ۔ ان کی نظروں میں صرف مثبت پہلو ہوتے ہیں شاید یہی ان کی مثبت فکر کی دین ہے ۔ ان کی تبصرہ نگاری کو تاثراتی تبصرہ نگاری کا نام دیا جاسکتا ہے ۔